ہم جنس پرستوں اور تارکین وطن پر رحم کریں! پہلی دعائیہ تقریب میں بشپ کی ٹرمپ سے اپیل
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
حکومت سنبھالنے کے بعد پہلی دعائیہ تقریب میں شرکت کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن کے معروف چرچ نیشنل کیتھیڈرل پہنچے لیکن وہاں انھیں غیر متوقع طور پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق دعا کروانے والی چرچ کی بشپ ماریان ایڈگر بڈے نے ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا کہ ہم جنس پرستوں، غریب تارکین وطن اور ٹرانس جینڈرز کے بچوں پر رحم کریں۔
بشپ نے التجا کی کہ ہمارے خدا کے نام پر، میں آپ سے کہتا ہوں کہ ہمارے ملک کے ان لوگوں پر رحم کریں جو اب خوفزدہ ہیں۔ ٹرانس جینڈرز کے بچوں کی زندگی کا معاملہ بھی ہے۔
چرچ کی بشپ نے تارکین وطن کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اکثر تارکین وطن محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ان کا جرائم سے کوئی لینا دینا نہیں۔
بشپ نے کہا یہ تارکین وطن ہمارے پولٹری فارموں، دفاتر کی عمارتوں اور دیگر مقامات کو صاف کرتے ہیں۔ گوشت کی پیکنگ پلانٹس میں مزدوری کرتے ہیں، ریستورانوں میں برتن دھوتے ہیں اور اسپتالوں میں رات کی شفٹوں میں کام کرتے ہیں۔
چرچ کی بشپ نے مزید کہا کہ ہو سکتا ہے ان کے پاس سفری دستاویزات نہ ہوں، وہ شہریت نہ حاصل کرپائے ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جرائم پیشہ ہیں۔ ان کی اکثریت محنتی ہے۔
بشپ بڈے نے غیر دستاویزی تارکین وطن کو ٹیکس دہندہ اور اچھے پڑوسی کے طور پر بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہماری برادریوں میں ان لوگوں پر رحم کریں جن کے بچے ڈرتے ہیں کہ ان کے والدین کو چھین لیا جائے گا۔ ہمارا خدا ہمیں سیکھاتا ہے کہ اجنبیوں پر رحم کریں کیونکہ ہم سب بھی کسی وقت اس سرزمین پر اجنبی تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے دعائیہ تقریب میں چرچ کے ان خیالات پر کچھ نہیں کہا تاہم باہر نکل کر جب ایک صحافی نے اس سے متعلق سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ یہ زیادہ پُرجوش نہیں تھا، یہ اچھی دعائیہ تقریب نہیں تھی۔ وہ (بشپ) اس سے بہت بہتر کرسکتے تھے۔
یاد رہے کہ تقریب حلف برداری کے بعد اپنے پہلے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ ہم جنس پرستوں، ٹرانس جینڈرز اور تارکین وطن پر برس پڑے تھے۔
نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اب سے امریکا کی سرکاری پالیسی یہ ہوگی کہ صرف دو جنسوں یعنی مرد اور عورت کو تسلیم کیا جائے گا اور یہی ہوش اور عقل کی بات ہے۔
ٹرمپ نے امیگریشن پر پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پیدائشی حق شہریت ختم کرنے کی کوشش کروں گا اور لاکھوں غیر ملکی مجرموں کو واپس ان کے ملک بھیجنے کا عمل شروع کردیں گے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دعائیہ تقریب ڈونلڈ ٹرمپ تارکین وطن کرتے ہیں کہا کہ
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپسی کے بعد ان کے اقدامات اور بیانات نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 100 دن 30 اپریل کو مکمل ہو رہے ہیں اور اب تک صدر ٹرمپ نے صدارتی اختیارات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
78 سالہ صدر ٹرمپ نے ایک ایونٹ میں کہا کہ میرا دوسرا دورِ حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں 'یہ کام کرو تو وہ کام ہو جاتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیرف پالیسی کا دفاع کیا اور سب سے پہلے امریکا کے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
امریکی صدر نے اپنی سمت کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کر رہے ہیں۔
البتہ ان کے ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔
سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرتے اور ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے خود کو ایک "ریئلٹی شو" کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
ٹرمپ کے ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ نئے صدر کے دوسرے دور میں وائٹ ہاؤس میں مخصوص اور من پسند نیوز اداروں کو رسائی دی جارہی ہے۔
علاوہ ازیں عدلیہ کے ساتھ بھی صدر ٹرمپ کا رویہ جارحانہ رہا ہے جہاں انہوں نے ماضی کے مقدمات میں شریک کئی لاء فرمز کو سخت معاہدوں میں جکڑ دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے 100 دنوں کی تکمیل پر ان کی مقبولیت تمام جنگ عظیم دوم کے بعد صدور میں سب سے کم ہے۔ سوائے خود ان کے پہلے دور کے۔
ریپبلکن سینیٹر لیزا مرکاؤسکی نے کہا کہ ہم سب خوف زدہ ہیں جبکہ پروفیسر باربرا ٹرش کا کہنا تھا کہ صدر آئینی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کر رہے ہیں۔
ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی تقلید میں گرین لینڈ، پاناما اور کینیڈا پر علاقائی دعوے کرتے ہوئے امریکی اثرورسوخ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔
ٹرمپ نے تعلیمی اداروں، جامعات اور ثقافتی مراکز کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو ایک اہم آرٹس سینٹر کا سربراہ مقرر کیا اور ڈائیورسٹی پروگرامز کو ختم کر دیا ہے۔
اسی طرح تارکین کو پکڑ پکڑ کر دور دراز علاقے میں قائم خطرناک جیلوں میں زبردستی بھیجا جا رہا ہے۔
یاد رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدے کا حلف اُٹھایا تھا اور اسی دن چند اہم لیکن متنازع اقدامات کی منظوری دی تھی۔