تھانہ کلچر،حصولِ انصاف میں پہلی رکاوٹ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
تھانہ کے ساتھ لفظ کلچر مدتوں سے جڑا ہوا ہے۔ کلچر ظاہر ہے دو چار برس میں تو بنتا نہیں ہے۔تھانہ کلچر تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ برصغیر پاک و ہند میں آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔پاکستان میں اس کلچر کے خلاف گاہے بگاہے آوازیں اٹھتی رہتی ہیں اور کچھ نہ کچھ تبدیلی بھی آ رہی ہے لیکن سالوں کا بگاڑ دنوں میں کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے۔اس تھانہ کلچر کا ذمہ دار کوئی ایک فرد نہیں۔بہت سے لوگ ہیں۔سیاست کے ایوانوں سے بیوروکریسی کے آرام کدوں تک اور بڑے افسر سے سپاہی رینک تک سب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں۔کمزور سسٹم ناصرف اس کلچر کو دوام بخشنے کا جواز فراہم کرتا ہے بلکہ اسے زندہ بھی رکھتا ہے۔اس لئے سسٹم بدلنے کی کوشش کبھی کبھار ہی ہوتی ہے۔یہ سسٹم دو طرفہ ٹریفک کی طرح ہے جس میں ہر ذمہ دار اپنی کرپشن کی منزل تک حالت سفر میں ہے۔اس کلچر میں سیاسی یا مالی فوائد کی خاطر ایس ایچ او اور تھانے کا عملہ متعین کیا جاتا ہے۔اس کلچر میں ایک غیر متوازی غیر سیاسی نظام بھی ساتھ چلتا ہے جو اصل میں پیسہ کمانے کی فیکٹری ہوتا ہے۔یوں سمجھ لیں کہ سرکاری نفری کے ساتھ ساتھ پولیس کے لئے کام کرنے والے فری لانسر جو پولیس کے لئے مخبری کا کام کرتے ہیں اور ریکوری کا بھی۔تاہم ایسا ہر جگہ نہیں ہوتا۔بڑے صاحب اگر سخت ہوں تو تھانہ اپنے آپ کو راہ راست پر لے آتا ہے۔لیکن اگر بڑے صاحب ہی رشوت یا اپنا حصہ مانگ رہے ہوں تو پھر سمجھیں سب کی موجیں ہی موجیں ہیں۔ ماضی میں ایس ایچ او کی تعیناتی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر کی جاتی رہی ہے۔تاکہ اس تعیناتی سے سیاسی لوگ،سیاسی فوائد حاصل کر سکیں اور مخالفین کو سبق سکھایا جا سکے۔اوپر کی سطح پر زیادہ حصہ پہنچانے کی یقین دہانی پر یہ تعیناتیاں ہوتی رہی ہیں۔ہر تھانے کے محل وقوع کے مطابق اس کی کمائی کے ذرائع کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔لیکن عمومی طور پر بازار میں لگنے والے سٹالز سڑک یا فٹ پاتھ پر واقع ہوں، منشیات کی فروخت،جسم فروشی اور جوئے کے اڈے پولیس کی کمائی کا بڑا ہدف ہیں۔جہاں سے روزانہ یا منتھلی بنیادوں پر رقم حاصل کی جاتی ہے۔اس رقم کے عوض انہیں ہر ناجائز کام کی کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔
کراچی میں ایرانی تیل یا اسمگل شدہ سامان کی فروخت پولیس کی کمائی کے بنیادی ذرائع ہیں۔ایسے افراد کی بھی کوئی کمی نہیں جو تھانے کی سرپرستی میں شرفا کو تنگ کرتے ہیں۔پیسے بٹورتے ہیں جبکہ متعلقہ تھانے کو اس کمائی میں سے باقاعدہ حصہ ملتا ہے۔جرائم پیشہ افراد یا کسی شخص سے جرم کے بدلے رعایت یا مقدمہ کا اندراج کئے بغیر رہائی اور جرم کے باوجود عدم گرفتاری ایسے کام ہیں جو جرم کے زمرے میں آتے ہیں لیکن تھانوں میں باآسانی ہو رہے ہیں۔ایس ایچ او کو 24 گھنٹے ڈیوٹی دینا پڑتی ہے۔ماتحت عملے کا بھی یہی معمول ہے۔ جس کے باعث وہ چڑچڑے اور بدمزاج ہو جاتے ہیں۔ان کا رویہ سائلین کے ساتھ اچھا نہیں رہتا۔یہ شکایت عام ہے کہ تھانے میں آنے والوں کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے۔پولیس تھانوں میں تھرڈ ڈگری بھی استعمال کرتی ہے۔تھرڈ ڈگری کو سادہ لفظوں میں آپ بہیمانہ تشدد بھی کہہ سکتے ہیں۔جو پولیس ملزمان کے ساتھ روا رکھتی ہے۔ چوری،ڈکیتی اور بدنام زمانہ گینگسٹر سے تعلق رکھنے والے ملزمان کے خلاف پولیس کا رویہ انتہائی سخت ہوتا ہے۔تشدد کے دوران بعض ملزمان کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے اور اکثر ایسے وقوعہ جات میں پولیس کو ایف آئی آر کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جو مقتول ملزم کے لواحقین کی جانب سے اسی تھانہ میں درج کرائی جاتی ہے۔جہاں پولیس تشدد سے اس کی موت واقع ہوئی ہوتی ہے۔تاہم اکثر پولیس والے ایسے مقدمات کے اندراج پر سزائوں سے بچ جاتے ہیں کیونکہ جب انہی کے پیٹی بند بھائی مقدمہ کی تفتیش کرتے ہیں تو ایسے سقم چھوڑ جاتے ہیں جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نامزد پولیس اہلکار سزائوں سے صاف بچ جاتے ہیں۔ دوبارہ نوکری پر بحال ہو کر پھر سے اپنی ڈگر پر کار بند ہو جاتے ہیں جو افسوس ناک امر ہے۔
تھانوں میں کیا ہوتا ہے؟ اعلی افسران یہ جانتے ہیں لیکن ناجائز کاموں کا نوٹس نہیں لیا جاتا۔اسی لئے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور تھانوں میں وہی کچھ ہوتا ہے جو تھانوں میں تعینات افسر و اہلکار چاہتے ہیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ تھانہ کلچر کو بدلنے کی ضرورت ہے۔جب تک لوگوں کی تھانوں میں رسائی آسان نہیں ہو گی اور شنوائی کے ذرائع مفقود ہوں گے،تھانوں پر سوال اٹھتے رہیں گے اور تنقید ہوتی رہے گی۔کمزور سسٹم نا صرف اس کلچر کو دوام بخشنے کا جواز فراہم کرتا ہے بلکہ زندہ بھی رکھتا ہے۔اسی لئے اس سسٹم کو بدلنے کی کوشش کبھی کبھار ہی ہوتی ہے۔تھانے میں دو طرح کی اطلاعات کا اندراج ہوتا ہے،ایک وہ جو قابل دست اندازی جرم ہو جس کی ایف آئی آر کاٹی جاتی ہے۔ پولیس کسی عدالتی وارنٹ کے بغیر بھی گرفتاری کا اختیار رکھتی ہے۔جبکہ ناقابل دست اندازی پولیس جرم ہو،جیسے اطلاع گمشدگی وغیرہ،تو صرف اطلاعی رپٹ درج کی جاتی ہے۔ایس ایچ او کو جرم کی نوعیت طے کرنے کا بھی اختیار ہوتا ہے یعنی وہ کسی جرم کی اطلاع یا کسی درخواست پر یہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے کہ یہ قابل ایف آئی آر جرم ہے یا اس کی اطلاع صرف رجسٹر میں درج کر لی جائے۔ایس ایچ او،ہیڈ محرر کی مدد سے قانونی دفعات کا بھی تعین کرنے کا مجاز ہے کہ کس جرم کو کس قانونی دفعہ کے تحت پرکھا جانا چاہیے۔ تفتیش کے بعد چالان پیش ہونے پر عدالت سب سے پہلے یہ جائزہ لیتی ہے کہ آیا جرم کے مطابق دفعات کا درست استعمال کیا گیا ہے یا نہیں؟ قابل دست اندازی جرائم کا دائرہ کار قانون نے طے کر دیا ہے۔جسے پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کہا جاتا ہے۔جرم کے مطابق دفعات کے لاگو ہونے کا یہ قانون 1860 میں بنایا گیا تھا جس میں مختلف ادوار میں ترامیم بھی ہوتی رہی ہیں۔واضح رہے کہ مذکورہ پینل کوڈ تقسیم ہند سے قبل لارڈ میکالے نے بنایا تھا۔
ایف آئی آر درج کرانے کے لئے قانون نے واضح طریقہ کار طے کر دیا ہے۔اگر پولیس کسی بنا پر قابل دست اندازی پولیس جرم کے باوجود ایف آئی آر کے اندراج سے انکاری ہو تو درخواست دہندہ اندراج کے لیئے عدالتی راستہ اختیار کر سکتا ہے۔جس کے لئے وکیل کے توسط سے مقامی سیشن کورٹ میں 22/B، 22/A کے تحت پٹیشن دائر کی جاتی ہے۔پٹیشن دائر ہونے کے بعد متعلقہ سیشن جج پولیس سے وقوعہ کے حوالے سے رپورٹ طلب کرتا ہے جس کے بعد مدعا علیہان اور الزام علیہان کے وکلا کی بحث سنی جاتی ہے۔جس کے بعد طے کیا جاتا ہے کہ ایف آئی آرکا اندراج ہو سکتا ہے یا نہیں؟ درخواست دہندہ کا الزام بادی النظر میں درست ثابت ہوتا نظر آئے تو سیشن کورٹ متعلقہ تھانہ کے ایس ایچ او کو اندراج مقدمہ کا حکم دے سکتی ہے۔جس کے بعد ایس ایچ او عدالتی حکم بجا لاتے ہوئے مقدمہ کے اندراج کا پابند ہوتا ہے۔تھانہ میں متعین ہیڈ محرر جو ہیڈ کانسٹیبل یا اے ایس آئی رینک کا افسر ہوتا ہے،عمومی طور پر سائلین کے ساتھ غیر اخلاقی رویہ اختیار کرتا ہے۔اکثر بدزبانی کی جاتی ہے جس سے عام لوگوں میں پولیس کا تاثر اچھا نہیں جاتا اور امیج خراب ہوتا ہے۔اس لئے پولیس کے اعلیٰ حکام کو تھانہ کلچر بدلنے کی ضرورت ہے جب تک تھانہ کلچر تبدیل نہیں ہو گا، تھانوں میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں آسکتی۔بڑے شہروں میں ماڈل تھانے بنائے گئے ہیں۔رپورٹنگ روم کو بھی عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق بدل دیا گیا ہے۔مگر تھانوں میں تعینات پولیس اہلکاروں کے مزاج اور رویے کیسے بدلیں گے؟ اس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: تھانوں میں کی جاتی ہے ایس ایچ او ایف آئی آر بدلنے کی جاتے ہیں کے مطابق ہے جس کے کے ساتھ کرتا ہے اس کلچر سکتا ہے جاتا ہے ہوتا ہے ہوتی ہے کے لئے جرم کے کا بھی ہیں جو کے بعد
پڑھیں:
شوہر کے ظالمانہ طرزعمل پر خلع لینے والی خاتون کا حقِ مہر ساقط نہیں ہوتا، لاہور ہائیکورٹ
لاہور ہائیکورٹ سے متعلق ایک اہم فیصلہ دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ شوہر کی بدسلوکی کی وجہ سے شادی ٹوٹنے سے اس خلع لینے والی خاتون کا حق ختم نہیں ہوتا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس راحیل کامران نے مؤخر شدہ طلاق کے ایک اہم پہلو پر کو واضح کیا کہ اسلامی قانون اور نکاح نامہ کے تحت شوہر پر حق مہر اس وقت تک واجب ہے، جب تک کہ بیوی اس کی جانب سے کسی غلطی کے بغیر خلع (شادی توڑنے) کی درخواست نہ کرے۔
اسی کیساتھ ہی جسٹس راحیل کامران نے نوٹ کیا کہ عدالت میں زیر سماعت خصوصی معاملے میں خاتون نے اپنے شوہر کی طرف سے ظلم اور توہین آمیز رویے کے قابل اعتماد ثبوت فراہم کیے، جس کی وجہ سے اسے علیحدگی کی درخواست کرنا پڑی۔
وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہجسٹس راحیل کامران نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ خلع کا تصور سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 228 اور 229 پر مبنی ہے۔ انہوں نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر بیوی صرف اپنے شوہر سے ناپسندیدگی کی بنیاد پر خلع حاصل کرتی ہے تو اسے ملنے والا حق مہر قابل واپسی ہے۔
وصول شدہ رقم کی واپسی کا مطالبہ کرنا جائز نہیںلاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ اگر بیوی شوہر کی غلطی کی وجہ سے معقول جواز فراہم کرکے خلع طلب کرتی ہے، تو اس سے پہلے سے وصول شدہ رقم کی واپسی کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں قرار دیا گیا ہے ایسی صورتحال میں یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ کیس کے حقائق اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے کہ بیوی کو کتنی رقم واپس کرنی چاہیے۔
نکاح نامہ ایک جائز اور پابند معاہدہجسٹس راحیل کامران کے مطابق نکاح نامہ بیوی اور شوہر کے درمیان ایک جائز اور پابند معاہدہ ہے، اور مؤخر کرنا شوہر کی جانب سے کیا جانے والا معاہدہ ہے۔
انہوں نے یہ بھی قرار دیا کہ جب تک اس معاہدے کی شرائط سے انحراف کرنے کی قانونی بنیاد نہ ہو، شوہر اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا پابند ہے۔
خلع مانگنے کی وجہجسٹس راحیل کامران کہا کہ صرف یہ حقیقت کہ بیوی نے خلع مانگی ہے، خود بخود اس معاہدے کی ذمہ داری کو ختم نہیں کرتا ہے، مؤخر شدہ حق مہر کے دعوے پر خلع مانگنے والی بیوی کے حق کا تعین کرنے کے لیے اہم غور و خوض اس کے خلع مانگنے کی وجہ ہے۔
جسٹس راحیل کامران نے وضاحت کی کہ جب بیوی اس بنیاد پر خلع طلب کرتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کو ناپسند کرتی ہے تو شوہر کی جانب سے کسی غلطی کے بغیر وہ مؤخر کرنے کا حق اسی طرح کھو دیتی ہے، جس طرح فوری طور پر طلاق دینے کے معاملے میں ہوتی ہے۔
جسٹس راحیل کامران نے کہا کہ اس کے برعکس اگر شوہر کا طرز عمل بیوی کو طلاق لینے پر مجبور کرتا ہے تو وہ مؤخر شدہ مہر کا حق برقرار رکھتی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں بیوی نے خلع کی بنیاد پر شادی توڑنے کا حکم نامہ حاصل کیا، شوہر پر بدسلوکی اور توہین آمیز رویے کے الزامات لگائے۔
مہر کی ادائیگی سے انکار ناانصافی ہوگیجسٹس راحیل کامران نے قرار دیا کہ چونکہ شادی 9 سال پر محیط ہے، اور بیوی نے اپنی ازدواجی ذمہ داریاں پوری کیں، لہٰذا اسے مؤخر کیے گئے مہر کی ادائیگی سے انکار ناانصافی ہوگی۔
انہوں نے اس کیس کو درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے پیش کیے گئے سابقہ فیصلوں سے الگ کر دیا، جہاں شوہر کی جانب سے ظلم ثابت نہیں ہوا تھا۔
شوہر کی درخواست مستردعدالت عالیہ نے ساہیوال کی ضلعی عدالتوں کی جانب سے سابق اہلیہ کے حق میں دیے گئے فیصلے کے خلاف شوہر کی درخواست مسترد کر دی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں