بینچز کے اختیارات کا کیس: ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ سے تحریری جواب آج ہی طلب
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بینچز کے اختیارات کے کیس سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے پر توہینِ عدالت کے کیس میں ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ نذر عباس کو تحریری جواب آج ہی جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔
بینچز کے اختیارات کا کیس سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے پر توہینِ عدالت کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل بینچ کر رہا ہے۔
دورانِ سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالتی معاونین مقرر کرنے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ جو عدالتی معاونین مقرر کیے گئے وہ 26 ویں ترمیم کے خلاف درخواست گزاروں کے وکلاء ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیس ریگولر بینچ سن رہا تھا، کیا کمیٹی اسے شفٹ کر سکتی ہے؟ کیس آرٹیکل191 اے کا ہے جس میں چند کیسز ٹیکس سے متعلق بھی تھے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کیس کا بیک گراؤنڈ پڑھا
جسٹس منصور علی شاہ نے دورانِ سماعت کیس کا بیک گراؤنڈ پڑھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس سے کہا کہ رجسٹرار نے ایڈیشنل رجسٹرار کے دفاع میں کہا سب دو ججز کمیٹی کے فیصلے کی وجہ سے ہوا، آپ نے کازلسٹ سے کیس کیوں ہٹایا؟ کوشش کریں کہ آج ہی اپنا تحریری جواب جمع کرا دیں، کیس کا تعلق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اختیارات سے ہے نہ کہ 26ویں آئینی ترمیم سے، آپ چاہ رہے ہیں کہ پلڑہ بھاری نہ ہو۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ اور کوئی معاونت کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت کیس میں عدالت کا بہت محدود اختیار سماعت ہے، شوکاز نوٹس جسے جاری کیا گیا اس کا تحریری بیان جمع ہونا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارا مقصد تو ایسا نہیں تھا لیکن ہم جاننا چاہتے تھے کیس کیوں واپس ہوا، آپ کے ساتھ بھی کچھ ہوا ہے، پتہ نہیں آپ کا اس میں کتنا کردار ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کرمنل اوریجنل اختیار سماعت کے تحت یہ معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہے، جو عدالتی معاونین مقرر کیے گئے، وہ 26ویں ترمیم چیلنج کرنے والے وکلاء ہیں۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپ کی رائے درست ہے، ہمیں اس بات کا ادراک بھی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چلیں ہم اسی گروپ میں سے کسی اور بھی عدالتی معاون مقرر کر لیتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت اب بینچ بنانے کا اختیار آئینی کمیٹی کو ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس کیس کا 26 ویں آئینی ترمیم سے کوئی لینا دینا نہیں، اگر خود سے ڈرنے لگ جائیں تو الگ بات ہے، اٹارنی جنرل صاحب آپ مسکرا رہے ہیں، عدالتی معاون کے لیے کوئی نام تجویز کر دیں۔
اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ میں کوئی نام تجویز نہیں کر رہا، کسٹم ایکٹ کا مرکزی کیس آپ کے سامنے نہیں ہے ابھی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سوال پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 2 کا ہے، بینچ اپنا دائرہ اختیار دیکھنا چاہ رہا ہو تو کیا کیس واپس لیا جاسکتا ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو سوال عدالت نے اٹھایا ہے وہ توہین عدالت کیس میں نہیں سنا جا سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نذر عباس کے دفاع میں کمیٹی کے فیصلے پیش کیے گئے تھے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نذر عباس کا تحریری جواب آنے تک رجسٹرار کا مؤقف ان کا دفاع قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مقدمہ مقرر نہ کرنے سے معلوم نہیں نذر عباس کا کتنا تعلق ہے، نذر عباس صاحب آپ کے ساتھ بھی کچھ ہو گیا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ توہین عدالت کیس میں بطور پراسیکیوٹر پیش ہو سکتا ہوں، قانونی سوال پر عدالت کی معاونت 27 اے کے تحت کر سکتا ہوں، توہین عدالت کیس میں بطور اٹارنی جنرل میری پوزیشن مختلف ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: توہین عدالت کیس میں ایڈیشنل رجسٹرار کے اختیارات تحریری جواب کیس کا
پڑھیں:
ایک سال بعد جرم یاد آنا حیران کن ہے، ناانصافی پر عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ
ایک سال بعد جرم یاد آنا حیران کن ہے، ناانصافی پر عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ WhatsAppFacebookTwitter 0 22 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)سپریم کورٹ میں نو مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر ناانصافی ہو رہی ہو تو ہائی کورٹ کو آنکھیں بند نہیں رکھنی چاہئیں۔
دوران سماعت پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی جس پر عدالت نے اپنے اخیارات سے تجاوز کرتے ہوئے ملزمہ کو مقدمے سے بری کر دیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ایسے کیسز میں پہلے ہی عدالت ہدایت دے چکی ہے کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ اب یہ مقدمہ کیوں چلایا جا رہا ہے؟۔انہوں نے واضح کیا کہ اگر ناانصافی ہو تو عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی۔ حتی کہ ہائیکورٹ کو اگر ایک خط بھی ملے تو وہ اپنے اختیارات استعمال کر سکتی ہے۔
جسٹس صلاح الدین نے کہا کہ کریمنل ریویژن میں ہائیکورٹ کے پاس سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے پنجاب حکومت سے سوال کیا کہ کیا ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟۔معزز جج نے طنزیہ انداز میں کہا کہ کل کو شاید میرا یا کسی اور کا نام بھی نو مئی مقدمات میں شامل کر دیں۔ عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔
اسی نوعیت کے ایک اور مقدمے میں جی ایچ کیو حملے کے کیس میں شیخ رشید کی بریت کے خلاف پنجاب حکومت نے وقت مانگا تاکہ شواہد پیش کیے جا سکیں۔ اس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ التوا مانگنا ہو تو آئندہ اس عدالت میں نہ آنا۔انہوں نے مزید کہا کہ التوا صرف جج، وکیل یا ملزم کے انتقال پر ہی دیا جا سکتا ہے، جبکہ سپیشل پراسیکیوٹر نے اعترافی بیانات پیش کرنے کی اجازت مانگی۔
جسٹس کاکڑ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خدا کا خوف کریں، شیخ رشید 50 بار ایم این اے بن چکا ہے، وہ کہاں بھاگ جائے گا؟۔ زمین گرے یا آسمان پھٹے اس عدالت میں قانون سے ہٹ کر کچھ نہیں ہوگا۔عدالت نے سماعت آئندہ ہفتے مقرر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو واضح پیغام دیا کہ قانونی تقاضے مکمل کیے بغیر محض سیاسی نوعیت کے دلائل قابلِ قبول نہیں ہوں گے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکا کے ساتھ معاشی روابط اور ٹیرف کا معاملہ، وزیرخزانہ کا اہم بیان سامنے آگیا امریکا کے ساتھ معاشی روابط اور ٹیرف کا معاملہ، وزیرخزانہ کا اہم بیان سامنے آگیا سینیٹ اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر، چیئرمین سینیٹ نے ثانیہ نشتر کا استعفیٰ قبول کیا اور معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا ایتھوپیا کے سفیر ڈاکٹر جمال بکر عبداللہ کو سیالکوٹ میں بہترین سفیر کے ایوارڈ سے نوازا گیا طعنہ دینے والے ہمارے ووٹوں سے ہی صدر بنے ،بلاول کی حکومت پر سخت تنقید سے متعلق رانا ثنا کا ردعمل نہروں کا معاملہ،خیبرپختونخوا حکومت چشمہ رائٹ کینال منصوبے کیلئے متحرک ہوگئی لیگی وزرا بیان بازی کر رہے ہیں، نواز اور شہباز اپنے لوگوں کو سمجھائیں، شرجیل میمنCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم