طالبان نے اربوں مالیت کا امریکی اسلحے کی واپسی کا ٹرمپ کا مطالبہ مسترد کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
کراچی (نیوز ڈیسک) طالبان نے اربوں مالیت کا امریکی اسلحہ واپس کرنے کے ٹرمپ کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔ طالبان 2021 میں افغانستان سے نکلنے کے دوران امریکی فوجیوں کے پیچھے چھوڑا گیا کوئی بھی فوجی سازوسامان واپس نہیں کریں گے۔
طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ ہتھیار واپسی کی بجائے، داعش سے لڑنے کیلئے امریکا مزید جدید اسلحہ دے ، ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکی طیارے، سازوسامان اور آلات واپس نہ کئےتو تمام مالی امداد بند کر دینگے۔
افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی فوجی سازوسامان کی مالیت 7 ارب ڈالر سے زیادہ ہے، فوربز میگزین کے مطابق نومنتخب صدر ٹرمپ کو 2017 کے مقابلے کہیں زیادہ مختلف جغرافیائی سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے ۔
عالمی منظرنامے پرایٹمی طاقتوں کی سرحدوں پر مشتمل تین ’سلگتی جنگیں ہیں اسرائیل کا ہمسائے ممالک، پاکستان کا افغانستان اور یوکرین کا روس کے ساتھ تنازع ہے۔
دوسری طرف افغانستان میں طالبان اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوا ہےکیلی فورنیا کی ایک جیل میں عمر قید کا سامنا کرنے والے طالبان رہنما خان محمد کو رہا کیا گیا ہے جس کے بدلے میں طالبان کی قید میں موجود دو امریکی شہری ریان کوربیٹ اور ویلیم میکنتھی کو رہائی ملی ہے۔
ایک اور پیش رفت یہ سامنے آئی کہ صدر ٹرمپ کے دستخط کردہ ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت تقریباً 16 سوافغان شہری، جنھیں واشنگٹن کی طرف سےامریکا میں آباد ہونے کے لیے کلیئر کر دیا تھا، ان کا امریکا میں داخلہ روک دیا جائے گا، ان میں امریکی فوج میں فعال اہلکاروں کے اہل خانہ بھی شامل ہیں۔
ایگزیکٹو آرڈر کے تحت غیر معینہ مدت کے لیے تمام پناہ گزینوں کی امریکا میں آبادکاری کو معطل کردیا گیا ہے۔ بلوم برگ کے مطابق اس معاملے سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ کیونکہ کابل اور ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان تعلقات کشیدہ بیان سےشروع ہو رہے ہیں، ہتھیار واپس لینے کے بجائے، امریکہ طالبان کو داعش سے لڑنے کے لیے مزید جدید ہتھیار فراہم کرنے چاہئیں۔
یہ ردعمل ٹرمپ کے تبصرے کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں امریکی صدر نے حلف اٹھانے سے پہلے دھمکی دی تھی کہ اگر افغانستان نے امریکی طیارے، موجود جنگی سازوسامان، گاڑیاں اور مواصلاتی آلات واپس نہ کیے تو وہ افغانستان کو دی جانے والی تمام مالی امداد بند کر دیں گے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
صدر ٹرمپ کی فیڈرل ریزرو کے سربراہ جیروم پاول پر تنقید ‘مارکیٹ میں ڈالر کی قدرمیں نمایاں کمی
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اپریل ۔2025 )امریکی سٹاک مارکیٹ اور ڈالر کی قدر میں ایک بار پھر گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکی مرکزی بینک کے سربراہ کو شرح سود میں کمی نہ کرنے پر ایک مرتبہ پھر شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں ایک شکست خوردہ اورنقصان پہنچانے والا شخص قرار دیتے ہوئے عہدے سے ہٹانے کی بات کی. صدر ٹرمپ نے ”ٹروتھ“پر اپنی پوسٹ میں فیڈرل ریزرو کے سربراہ جیروم پاول سے مطالبہ کیا کہ وہ معیشت کو فروغ دینے میں مدد کے لئے شرح سود میں پیشگی کمی کریں کیونکہ معیشت اس وقت تک سست روی کا شکار رہے گے کہ جب تک معیشت کو نقصان پہنچانے والے ”مسٹر ٹو لیٹ“ شرح سود میں کمی نہیں کرتے.(جاری ہے)
ٹرمپ کی جانب سے پاول کے امریکی معیشت کو سنبھالنے کے طریقہ کار پر تنقید ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب محصولات کے حوالے سے ان کے اپنے منصوبوں کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان بڑھ گیا ہے امریکی صدر اور امریکی مرکزی بینک کے سربراہ کے درمیان جاری کشمکش نے نے مارکیٹ میں افراتفری میں اضافہ کر دیا ہے واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت کے دوران فیڈرل ریزرو کی قیادت کے لیے جیروم پاول کو نامزد کیا تھا.
ڈالر انڈیکس کے مطابق یورو سمیت کئی کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں 2022 کے بعد اب تک کی سب سے کم ترین ترین سطح پر آگیا ہے امریکی حکومت کے قرضوں پر شرح سود میں بھی اضافہ ہوا ہے پاول پر ٹرمپ کی تنقید ان کی پہلی مدت صدارت سے شروع ہوئی تھی جب انہوں نے مبینہ طور پر انہیں برطرف کرنے کے بارے میں بھی بات کی تھی. انتخابات جیتنے کے بعد صدر ٹرمپ نے پاول پر زور دیا ہے کہ وہ شرح سود میں کمی کریں امریکی صدر کی جانب سے پاول کو اب تنقید کا سامنا اس وجہ سے کرنا پڑ رہا ہے کہ انہوں نے امریکی صدر کے حالیہ محصولات کے حوالے سے سامنے آنے والے احکامات سے متعلق متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ کے درآمدی ٹیکسوں سے قیمتوں میں اضافہ اور معیشت سست پڑنے کا امکان ہے. صدرٹرمپ نے گزشتہ ہفتے عوامی سطح پر پاول کو برطرف کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا بیان جاری کیا تھا کہ پاول کی برطرفی میں جلد بازی سے کام نہیں کا جاسکتا پاول نے گزشتہ سال صحافیوں کو بتایا تھا کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ صدر کے پاس انہیں برطرف کرنے یا عہدے سے ہٹانے کا کوئی قانونی اختیار ہے لیکن امریکی صدر ٹرمپ کے ایک اعلیٰ اقتصادی مشیر نے اس بات کی تصدیق کی کہ حکام کی جانب سے پچھلے ہفتے کے اختتام پر اس آپشن کا جائزہ بھی لیا جا چکاہے. اگرچہ ڈالر اور امریکی حکومت کے بانڈز کو عام طور پر مارکیٹ میں مندی اور افراتفری کے وقت انتہائی محفوظ تصور کیا جاتا ہے لیکن اس موجودہ صورتحال میں ا نہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کی قدر میں بھی کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ ایک طرف امریکی اتحادیوں کی ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کی وجہ سے ناراضگی ہے تو دوسری جانب اضافی محصولات کے نفاذ سے سرمایہ کاروں میں بے یقینی پائی جارہی ہے جبکہ ٹرمپ انتظامیہ ابھی تک امریکا میں دنیا کی بڑی کارپوریشنزسے ٹیکسوں کی وصولی اور سماجی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکامی کے حوالے سے کوئی پالیسی سامنے نہیں لاسکی اور نہ ہی صدر ٹرمپ یا ان کی حکومت کے عہدیداروں کی جانب سے کوئی عندیہ دیا گیا ہے کہ وہ دنیا کی 90فیصد سے زائددولت پر قابض ان عالمی کاپوریشنزکے حوالے سے کوئی پالیسی اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.