سلامتی کونسل: افریقہ میں دہشت گردی کے بڑھتے خطرات پر بحث
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 22 جنوری 2025ء) اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ جے محمد نے کہا ہے کہ افریقہ میں دہشت گردی بڑھتی جا رہی ہے جس پر قابو پانے کے بین الاقوامی عزائم مزید ٹھوس اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔
براعظم میں انسداد دہشت گردی کو بہتر بنانے کے لیے منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افریقن یونین (اے یو) کو اس مسئلے سے نپٹنے میں مدد دینے کے لیے سلامتی کونسل کا کردار بہت اہم ہے۔
اس ضمن میں اٹھائے جانے والے اقدامات کی بنیاد افریقی ممالک کے قائدانہ کردار اور ان کی جانب سے پیش کردہ طریقہ ہائے کار پر ہونی چاہیے۔کونسل کا یہ اجلاس الجزائر کی درخواست پر بلایا گیا تھا جو رواں مہینے سلامتی کونسل کی صدارت کر رہا ہے۔
بڑھتی ہوئی ہلاکتیںامینہ محمد نے کہا کہ دہشت گردی افریقہ بھر میں امن، سلامتی اور پائیدار ترقی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
(جاری ہے)
براعظم میں دہشت گردی کے تباہ کن اثرات کے بارے میں تشویشناک اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ رکن ممالک کی مسلسل کوششوں کے باوجود دنیا میں دہشت گردی کے نتیجے میں 59 فیصد اموات 'ذیلی صحارا افریقہ' میں ہو رہی ہیں۔ساہل خطہ بدترین بحرانوں کا گڑھ بن چکا ہے جہاں متواتر تین سال کے دوران دہشت گردی کے نتیجے میں 6,000 سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئیں جو کہ عالمی سطح پر ہونے والی ایسی تمام اموات کے نصف سے زیادہ ہے۔
دہشت گردی سے ہونے والی اموات کے اعتبار سے برکینا فاسو دنیا میں سرفہرست ہے جہاں ان ہلاکتوں میں 68 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی دوران القاعدہ اور داعش سے وابستہ عناصر مغربی افریقہ کے ساحلی ممالک تک پھیل چکے ہیں جہاں پُرتشدد حملوں میں دو سال کے دوران 250 فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملا۔
دہشت گردی کے نئے خطراتنائب سیکرٹری جنرل نے یہ بھی بتایا کہ لاکوراوا نامی ایک نیا دہشت گرد گروہ نائجیریا، نیجر اور چاڈ کے شمال مغربی علاقوں میں سرحد پار حملے کر رہا ہے۔
اسی طرح گھانا کے شمالی علاقوں، ٹوگو اور آئیوری کوسٹ میں بھی دراندازی اور انتہا پسندی کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ دوسری جانب، صومالیہ میں الشباب، کانگو میں الائیڈ ڈیموکریٹک فورسز (اے ڈی ایف) اور موزمبیق میں اہلسنت والجماۃ تباہ کن حملے کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ گروہ ناصرف مقامی آبادیوں کو دہشت زدہ کر رہے ہیں بلکہ انہیں جنسی اور صنفی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔
علاوہ ازیں، یہ بچوں پر بھی حملے کر رہے ہیں اور انہیں جنگی مقاصد کے لیے بھرتی کرنے میں مصروف ہیں۔مغربی افریقہ کے لیے انتباہامینہ محمد نے خبردار کیا کہ دہشت گردی میں جس رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے اسے دیکھتےہوئے مغربی افریقہ کا مستقبل خطرے میں دکھائی دیتا ہے۔ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی پس ماندگی اور بے روزگاری کے باعث ایک پوری نسل کے انتہاپسندی کی جانب مائل ہونے کا خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے موثر اقدامات نہ کئے گئے تو یہ نسل دہشت گردی کی ہولناکیوں کا نشانہ بن جائے گی اور مستقبل اس سے چھن جائے گا۔ دہشت گرد گروہ اپنی کارروائیوں کے لیے جدید طریقوں سے کام لے رہے ہیں جنہیں روکنے کے لیے بھی جدت سے کام لینا ہو گا۔
تین اہم ترجیحاتنائب سیکرٹری جنرل نے کہا کہ افریقہ میں انسداد دہشت گردی کے موثر اقدامات ایک ایسے نقطہ نظر کا تقاضا کرتے ہیں جس کی بنیاد انسانی حقوق اور قانون پر ہو۔
اس حوالے سے انہوں نے ستمبر میں رکن ممالک کے منظور کردہ مستقبل کے معاہدے کا تذکرہ کیا جس سے دہشت گردی کے خلاف عالمی کوششوں کو مزید بہتر بنایا جانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ادھورے وعدوں کی تکمیل اور پختہ عزم کے ساتھ اس معاہدے میں کئے گئے عہد کو پورا کرنے میں تاخیر کی گنجائش نہیں۔
اس حوالے سے انہوں نے تین ضروری ترجیحات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے اسباب کو ختم کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ کمزوری، غربت، عدم مساوات اور مایوسی سے پنپتی ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ انسداد دہشت گردی کے طریقہ ہائے کار کی بنیاد انسانی حقوق پر ہونی چاہیے جن کے لیے جوابدہی اور جامع اداروں کا قیام خاص اہمیت رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں، رکن ممالک کو اس مسئلے سے نپٹنے کے لیے علاقائی تعاون کو فروغ دینا ہو گا تاکہ یہ کوششیں ہم آہنگ، یکجہت اور سانجھی حکمت عملی کے مطابق ہوں۔مالی معاونت کی ضرورتاس موقع پر افریقن یونین (اے یو) میں شعبہ سیاسی امور، امن اور سلامتی کے کمشنر بینکولے ادیوئے نے کہا کہ گزشتہ سال افریقہ میں 3,400 سے زیادہ دہشت گرد حملے ریکارڈ کیے گئےجن میں 13,900 سے زیادہ اموات ہوئیں۔
یونین نے دہشت گردی کے بدلتے ہوئے منظرنامے کے مطابق اپنی حکمت عملی کو بھی تبدیل کیا ہے جس میں یہ خدشہ پیش نظر رکھا گیا ہے کہ امسال دہشت گردی میں 10 سے 15 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افریقن یونین اور اقوام متحدہ کو انسداد دہشت گردی کے تناظر میں نفاذ امن کے لیے مستحکم، پائیدار اور کثیرالمقاصد مالی امداد فراہم کرنے کے لیے کہنا ہو گا۔ اس ضمن میں سلامتی کونسل کی قرارداد 2719 کا فوری نفاذ ضروری ہے جو افریقی ممالک کی قیادت میں قیام امن کے اداروں کو اقوام متحدہ کے مالی وسائل تک رسائی فراہم کرتی ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سلامتی کونسل دہشت گردی کے افریقہ میں نے کہا کہ انہوں نے سے زیادہ رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
اسحاق ڈارکے دورہ کابل میں اعلانات حوصلہ افزا
اسلام آباد(طارق محمود سمیر) نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے افغانستان کا اہم دورہ کیا ،دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ صورتحال اور تحفظات
تھے ،افغانستان کی حدود سے جو دہشت گردی ہورہی تھی اس پر حکومت پاکستان کے تحفظات تھے،اس سارے معاملے میں اہم پیشرفت ہوئی ہے ، اسحاق ڈار کا کابل جانااور وہاں افغان قیادت کے ساتھ ملاقاتیںکرنا اور اس میں جو اعلانات کئے گئے وہ بڑے حوصلہ افزا اور خوش آئند ہیں ، اس میں سب سے بڑا اعلان جوکیا گیا وہ یہ کہ دہشت گردی کے لئے دونوں ممالک اپنی سرزمین کسی کو استعمال نہیںکرنے دیںگے ،پھر افغانستان سے تجارتی سامان کی نقل و حمل کے حوالے سے افغان حکومت کے مطالبے پر کہ بینک گارنٹی کے ساتھ ساتھ انشورنس گارنٹی قابل قبول ہوگی ، اس کے علاوہ وفودکے تبادلے ہونے ہیں،افغان مہاجرین کے حوالے سے بھی ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے،افغان شہریوں کی پاکستان کے اندر جائیدادیں وہ جب پاکستان چھوڑ کر جائیں گے تو جائیداد فروخت کرنے کی اجازت ہوگی ،سازوسامان بھی ساتھ لے جانے کی اجازت ہوگی اور انہیں عزت واحترام کیساتھ بھیجا جائیگا،اس دورے کا مقصد اگر دیکھا جائے تو اس میں پاکستان کے لئے سب سے بڑے دو مسائل تھے ایک دہشت گردی اور دوسرا افغان مہاجرین کی باعزت طریقے سے واپسی یقینی بنانا تھا، دہشت گردی کے تناظر میں جو اعلان کیا گیا ہے وہ بڑا خوش آئند ہے ، پہلے بھی افغانستان کی جانب سے اعلانات کئے گئے لیکن عملاً کوئی اقدامات نہیںکئے گئے ،ٹی ٹی پی کے ساتھ 2021میں جو معاہدہ ہوا اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں دہشتگرد تنظیم کے عہدیدار پاکستان آئے اوروہ منظم ہوگئے اور دہشت گردی بڑھتی گئی اور حالیہ عرصے میں دہشت گردی میں 60فیصد اضافہ ہوا،پاکستان کو دہشت گردی کا سب سے بڑا سامنا افغانستان کے اندر سے ہے، پھر بلوچستان کی جو صورتحال ہے، بی ایل اے کو بھارت کی حمایت حاصل ہے اور افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کیخلاف دہشتگردی کے لئے استعمال کر رہا ہے۔اگر اب افغان حکومت پاکستان کی شکایات دور نہیں کرتی تو یہ مناسب نہیں ہوگا کہ تجارت کے شعبے میں ان کے مطالبات من وعن پورے کئے جائیں۔کہا جارہا ہے کہ افغان وزیر خارجہ جلد پاکستان کے دورے پر آئیں گے ، اس دورے کے تناظر میں بھی دیکھا جائے توگفت وشنید بڑی اچھی بات ہے اور اس سارے معاملے میں پیشرفت کرانے میں افغانستان کیلئے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق خان کے رابطے کام آئے ہیں،ایک اور بھی رپورٹ آئی ہے کہ افغانستان کے اندر سے خطرناک اسلحہ جو امریکی فوج چھوڑ کر گئی وہ بھی دہشت گردوں کے ہاتھ لگا ہوا ہے ،اس میں مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کے اندر دہشتگردی کم ہو ، اگر افغانستان ہمارے ساتھ حقیقی معنوں میں تعاون کرتا ہے اوردہشت گردی پر قابو پالیا گیا تو پاکستان کے اندر بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے ۔لاہور کی سیشن عدالت میں ایک اہم کیس زیر سماعت ہے ،شہبازشریف کی جانب سے عمران خان کے خلاف دس ارب ہرجانے کا کیس، اپریل 2017 میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے ایک جلسے کے دوران الزام عائد کیا تھا کہ انہیں پاناما لیکس کے معاملے پر خاموش رہنے اور مؤقف سے دستبردار ہونے کے بدلے میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے 10 ارب روپے کی پیشکش کی گئی۔اس الزام کے جواب میں شہباز شریف نے جولائی 2017 میں لاہور کی سیشن عدالت میں عمران خان کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا۔دعوے میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ شہباز شریف، جو اس وقت وزیراعظم نواز شریف کے بھائی اور خود پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، ایک معزز سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن کی عوامی خدمات کی وجہ سے انہیں قومی و بین الاقوامی سطح پر عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اس سے قبل بھی شہباز شریف نے عمران خان کو ایک قانونی نوٹس بھیجا تھا جس میں جاوید صادق کو مبینہ فرنٹ مین قرار دے کر اربوں روپے کمانے کے الزام پر معافی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔عمران خان نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری کردہ ایک ویڈیو میں کہا تھا کہ اگر وہ اور اُن کی جماعت پاناما لیکس پر خاموش ہو جائیں تو حکمران جماعت اُنہیں خاموش کرانے کے لیے بڑی مالی پیشکش کر سکتی ہے اور اس دعوے کی مثال کے طور پر انہوں نے 10 ارب روپے کی آفر کا ذکر کیا۔