امریکا کی 22 ریاستوں نے صدر ٹرمپ کو کون سا حکم نامہ عدالت میں چیلنج کردیا؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
امریکا کی 22 ریاستوں کی جانب سے منگل کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک صدی پرانے امیگریشن پریکٹس یعنی پیدائشی حق شہریت کو ختم کرنے کے اقدام کو روکنے کے لیے مقدمہ دائر کیا ہے۔
پیدائشی حق شہریت اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ امریکا میں پیدا ہونے والے بچے اپنے والدین کے امریکا میں امیگریشن کی حیثیت سے قطع نظر شہری ہوں گے، تاہم صدر ٹرمپ کی جانب سے اس کے خلاف حکم نامے کو ڈیموکریٹک اکثریت رکھنے والی 22 ریاستوں کے اٹارنی جنرلز نے عدالت میں چیلنج کردیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مرد اور عورت، امریکا میں 2 ہی جنس ہوں گی، ڈونلڈ ٹرمپ نے حکم نامہ جاری کردیا
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تقریباً 700 الفاظ پر مشتمل ایگزیکٹو آرڈر، جو پیر کی رات گئے جاری کیا گیا، ان کے صدارتی مہم کے دوران کیے وعدوں کی تکمیل کے مترادف ہے، تاہم صدر کی امیگریشن پالیسیوں اور شہریت کے آئینی حق پر ایک طویل قانونی جنگ متوقع ہے۔
ڈیموکریٹک اٹارنی جنرل اور تارکین وطن کے حقوق کے حامیوں کا کہنا ہے کہ پیدائشی حق شہریت کا سوال حل شدہ قانون ہے اور یہ کہ صدر کے پاس وسیع اختیارات ہوتے ہیں تاہم وہ بادشاہ نہیں ہوتا۔
مزید پڑھیں: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے دن کونسے بڑے فیصلے کیے؟
صدر کے حکم نامے کیخلاف عدالت سے رجوع کرنیوالی 22 ریاستوں میں سے ایک ریاست نیو جرسی کے اٹارنی جنرل میٹ پلاٹکن کا کہنا ہے کہ صدر بیک جنبش قلم 14ویں ترمیم کے وجود کو ختم نہیں کرسکتے اور یہی اصل بات ہے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ وہ عدالت میں ریاستوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے اور اس ضمن میں دائر مقدمات کو ’بائیں بازو کی مزاحمت کی توسیع کے علاوہ کچھ نہیں‘ قرار دیا۔
مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ کی حلف برداری کے بعد ایلون مسک پر نازی سلیوٹ دینے کا الزام
وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی پریس سیکریٹری ہیریسن فیلڈز نے کہا کہ بنیاد پرست بائیں بازو کے لوگ یا تو لہروں کے مخالف تیرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں اور لوگوں کی زبردست خواہش کو مسترد کر سکتے ہیں، یا وہ صدر ٹرمپ کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں۔
کنیکٹیکٹ کے اٹارنی جنرل ولیم ٹونگ، پیدائشی حق سے امریکی شہری اور ملک کے پہلے چینی نژاد منتخب اٹارنی جنرل نے کہا کہ مقدمہ ان کے لیے ذاتی نوعیت کی اہمیت رکھتا ہے۔
مزید پڑھیں: امریکا میں الیکٹرک گاڑیوں کا ہدف بھی صدر ٹرمپ کے نشانے پر آگیا
’14ویں ترمیم وہ کہتی ہے جو اس کا مطلب ہے، اور اس کا مطلب وہی ہے جو وہ کہتی ہے، اگر آپ امریکی سرزمین پر پیدا ہوئے ہیں، تو آپ امریکی ہیں، بس اتنا ہی مطلب ہے اس کا، فل سٹاپ۔‘
’اس سوال پر کوئی جائز قانونی بحث نہیں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ اس معاملے پر ہر لحاظ سے غلط ہیں لیکن یہ انہیں ابھی میرے جیسے امریکی خاندانوں کو شدید نقصان پہنچانے سے نہیں روکے گا۔‘
مزید پڑھیں: اب ہم مریخ پر قدم رکھیں گے، امریکا کو کوئی فتح نہیں کر سکتا، ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر کے عہدے کا حلف اٹھا لیا
ان معاملات میں مسئلہ یہ ہے کہ ریاستہائے متحدہ امریکا میں پیدا ہونے والے کسی بھی شخص کو شہریت کا حق دیا جائے، چاہے ان کے والدین کی امیگریشن کی حیثیت کچھ بھی ہو۔
ریاست ہائے متحدہ امریکا میں سیاحتی یا دوسرے ویزے پر یا غیر قانونی طور پر ملک میں موجود لوگ اگر ان کا بچہ یہاں پیدا ہوتا ہے تو وہ اس امریکی شہری بچے کے والدین بن سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
14ویں ترمیم اٹارنی جنرل امریکا امیگریشن پریکٹس بائیں بازو بنیاد پرست پیدائش حق شہریت حکم نامے ڈونلڈ ٹرمپ میٹ پلاٹکن ہیریسن فیلڈز وائٹ ہاؤس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 14ویں ترمیم اٹارنی جنرل امریکا امیگریشن پریکٹس بنیاد پرست پیدائش حق شہریت ڈونلڈ ٹرمپ ہیریسن فیلڈز وائٹ ہاؤس اٹارنی جنرل ڈونلڈ ٹرمپ پیدائشی حق امریکا میں مزید پڑھیں حق شہریت سکتے ہیں کے لیے
پڑھیں:
عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ
روس اور یوکرین نے ایک دوسرے پر صدر ولادیمیر پوتن کی طرف سے اعلان کردہ ایسٹرکی ایک روزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ فریقین نے کہا کہ اس دوران سیکڑوں حملے کیے گئے ہیں۔ اس سے قبل رواں ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ یوکرین اور روس کے مابین جنگ بندی مذاکرات کا وقت آن پہنچا ہے۔
روس، یوکرین جنگ چوتھے برس میں داخل ہوچکی ہے، جس میں60ہزار سے زاید یوکرینی اور روسی شہری اور فوجی ہلاک، جب کہ یوکرین میں شہرکے شہرکھنڈرات میں تبدیل ہوچُکے ہیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں دنیا میں مہنگائی کا ایک طوفان آیا۔ غریب ممالک کے عوام تو اِس تباہی میں پِسے ہی لیکن امیر ممالک کے شہری بھی توانائی، خوراک اور دوسری اشیائے صَرف کی آسمان سے چُھوتی قیمتوں سے اب تک نجات نہیں پاسکے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواں ہفتے روس اور یوکرین کے درمیان امن معاہدے کے لیے پرامید ہیں۔صدر ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ’’اگر جنگ بندی ہوجاتی ہے تو دونوں ممالک کے لیے امریکا کے ساتھ بڑے تجارتی مواقع دستیاب ہوں گے۔‘‘ تاہم انھوں نے ان امن مذاکرات کی تفصیلات نہیں بتائیں جنھیں امریکا جنوری میں ان کے صدارت سنبھالنے کے بعد سے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے روس کے ساتھ جنگ ختم کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کے فیصلے کے بعد یورپی طاقتیں بھی شامل ہونے کی کوشش کررہی ہیں۔ دوسری جانب ٹرمپ کی امن کی کوششوں کو جھٹکا لگا ہے،کیونکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے مکمل جنگ بندی کی تجویزکو مسترد کردیا ہے۔ دراصل ٹرمپ یوکرین کے مسئلے سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، وہ روس کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری بحال کرنا چاہتے ہیں، اور وہ نہیں چاہتے کہ یوکرین جیسا ’چھوٹا مسئلہ‘ ان کی راہ میں رکاوٹ بنے۔
عالمی امور کے ماہرین کے مطابق، روس، یوکرین جنگ میں توانائی کی ڈیمانڈ، سپلائی اور قیمتوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان بھی بری طرح متاثر ہوا ، آئی ایم ایف کے قرضوں کے مسلسل پروگرام اِسی جنگ کی براہِ راست مہربانی ہے۔ جب روس نے جنگ کے بعد تیل اورگیس کی سپلائی پر پابندی لگائی، تو یورپی ممالک تڑپ اُٹھے۔
یوکرین کا بیشتر رقبہ سرسبز و شاداب ہے۔ اس میں کوئی ایسا بڑا پہاڑ نہیں جو برف پوش ہو۔یہاں برف باری تو ہوتی ہے لیکن اس کی وجہ سطح سمندر سے بلندی ہے جیسا کہ براعظم ایشیاء کے بعض ملکوں میں ہم دیکھتے ہیں۔ یوکرین کے پہاڑی سلسلے کم بلند ہیں، زیادہ علاقہ میدانی ہے۔ اس کی مٹی اتنی زرخیز ہے کہ اس میں اگنے والی گندم پاکستان سمیت دوسرے ملکوں کو بھی برآمد کی جاتی ہے۔ پاکستان کا رقبہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ مربع میل ہے اور ہماری آبادی 24کروڑ نفوس سے زیادہ ہے جبکہ یوکرین کا رقبہ تقریباً اڑھائی لاکھ مربع میل ہے اور اس کی آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے اور وہ تین برس سے دنیاکی دوسری بڑی سپرپاور (روس) سے نبرد آزما ہے۔
اس کی اسلحہ ساز فیکٹریاں بھی دن رات چل رہی ہیں اور دوسرے ممالک بھی اس کو دھڑا دھڑ اسلحہ برآمد کررہے ہیں۔ اب تک طرفین کے لاکھوں سولجرز اور سویلینز اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، لیکن یوکرین کو نیٹو ممالک کی طرف سے جو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم ہو رہا ہے، یوکرینی سولجرز اس کو استعمال کرکے روس کو بھی اتنا ہی جانی نقصان پہنچا چکے ہیں جتنا روس، یوکرین کو پہنچا چکا ہے ، یعنی چوٹ برابرکی ہے۔ جنگوں میں صرف گولہ بارود اور چھوٹے بڑے ہتھیار ہی کام نہیں آتے۔ ان ہتھیاروں کے باعث ماحول کی جو تباہی دیکھنے کو ملتی ہے، وہ حیرت انگیز بھی ہے اور حسرت ناک بھی۔جیسا کہ باور کیا جا رہا ہے، امریکی صدر ٹرمپ کی مداخلت سے یہ روس یوکرین تنازعہ شاید آنے والے چند ہفتوں میں ختم ہو جائے، لیکن توپوں، ڈرونوں، بارودی سرنگوں اور میزائلوں سے جو بربادی اس سرزمین کا مقدر بن چکی ہے وہ آنے والے کئی برسوں تک بھی برقرار رہے گی۔ یوکرین، روس کے بعد، یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے۔
اس پر جو بربادی اس جنگ کی وجہ سے وارد ہو چکی اس کے اثرات شاید آنے والے کئی عشروں تک بھی برقرار رہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی، پولینڈ اور اردگرد کے ممالک میں چھے برسوں میں جو تباہی مچی، اس کو امریکا نے دو تین برسوں ہی میں ختم کردیا تھا، لیکن اگر یوکرین میں یہ جنگ بند بھی ہوگئی تو اس کی زمین، اس کی بندرگاہوں بحیرہ اسود اور بحیرہ آزوف اور اس کی آب و ہوا کی تباہی کو معمول پر آنے کے لیے کئی برس درکار ہوں گے۔ آج یوکرین کے میدان ہائے جنگ کا حال یہ ہے کہ وہاں کی زمینوں میں توپوں کے گولوں سے پڑنے والے گڑھوں کی تعداد، لاتعداد ہو چکی ہے، تمام فضا زہرآلود ہے اور بارود کی بُو یوکرین کے طول و عرض میں پھیل چکی ہے۔
صدر ٹرمپ کے اقدامات، بیانیے اور مطالبات کو جوڑیں تو ایک پریشان کن منظر ابھرتا ہے۔ وہ احساس جوکبھی قومی ذمے داری کو نبھانے یا اس عالمی نظام برقرار رکھنے یا اس کی مرمت کے لیے تھا، جس کے قیام میں کبھی امریکا اور برطانیہ نے مدد کی، اب مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ روایتی اتحادیوں اور اتحادوں سے وفاداری ختم ہوچکی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی تجارتی تنظیم جیسے اداروں کی مفلوج حالت، عالمی معیشت کے زوال کو تیزکر رہی ہے۔ صدر ٹرمپ ایک نئے دورکا آغاز دیکھ رہے ہیں جہاں ہر ملک اپنی بقا کی جنگ خود لڑے گا۔ اس تصور میں پرانے بین الاقوامی نظام کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ بریٹن ووڈز سسٹم کو فرسودہ بوجھ سمجھا جا رہا ہے اور طاقت کو علاقائی اثر و رسوخ کے دائروں میں دوبارہ تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اس منطق کے تحت گرین لینڈ اور پانامہ امریکا کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں جب کہ یوکرین کو روس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسی دوران یورپ،کینیڈا اور میکسیکو اب معاشی حریف سمجھے جاتے ہیں۔
اگر تجارتی معاہدے ایسے شرائط پر نہ ہو سکیں جو مکمل طور پر امریکا کے حق میں ہوں، تو پھر جوابی محصولات کے لیے تیار رہیں۔ اس نئے عالمی انتشار کو کارآمد بنانے کے لیے پوتن کو بحال کرنا ضروری ہے اور روس کو دوبارہ بین الاقوامی نظام میں شامل کرنا ہوگا۔ پابندیاں ختم کرنی ہوں گی، اور معاہدے کرنے ہوں گے۔وسیع تر تناظر میں، دنیا پہلے ہی دو مخالف کیمپوں میں بٹ رہی ہے۔ مغرب کے مقابلے میں چین، جسے بڑھتی ہوئی تعداد میں ریاستوں کی حمایت حاصل ہے، جو کھلم کھلا اس نازک عالمی نظام کو مسترد کر رہی ہیں جسے ہم نے طویل عرصے سے یقینی سمجھ رکھا تھا، اگر یورپ اور امریکا ایک پیج پر نہ ہوئے، جب چین ٹیکنالوجی، معیشت اور عسکری برتری کے لیے امریکا کو چیلنج کر رہا ہے، تو یہ خارج از امکان نہیں کہ دنیا ایک بار پھر جنگ کی دہلیز پر پہنچ جائے۔
ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ جتنی دیر ہم امریکا میں جاری اس خطرناک سیاسی تجربے سے نظریں چراتے رہیں گے، اتنا ہی کم وقت ہمارے پاس اس کا جواب دینے کے لیے باقی بچے گا۔ ایک عالمی طاقت کی جانب سے بین الاقوامی معاملات پر توجہ نہ دینے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ باقی دنیا کے تنازعات اسی طرح برقرار رہیں اور ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے جیسا کہ غزہ میں حماس اور اسرائیل کی جنگ جو فی الحال ایک معاہدے کے تحت جنگ بندی پر منتج ہوئی تھی لیکن اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کی پاسداری نہیں کی گئی۔ اسرائیلی مغویوں کی رہائی میں کچھ تاخیر ہونے کی وجہ سے اسرائیل نے غزہ پر پھر بمباری شروع کر دی ہے، وہاں یہ کیسے ممکن ہوگا کہ معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے معاملات تھوڑے بھی آگے پیچھے ہوئے تو اسرائیلی قیادت آپے سے باہر نہیں ہو جائے گی؟
دوسری جانب اسرائیل اور ایران کے تعلقات میں بھی کشیدگی پہلے سے زیادہ پائی جاتی ہے اور ٹرمپ ایران کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں یہ بھی سب پر واضح ہے، چنانچہ اگر خدانخواستہ اسرائیل اور ایران کے مابین غزہ یا لبنان کے تنازع اور شام کی جنگ کو لے کر اختلافات بڑھے تو امریکی صدر خاموش تماشائی کے سوا کوئی اور کردار ادا نہیں کرسکیں گے، البتہ صدر ٹرمپ یوکرین کی جنگ بند کرانے میں سرگرم کردار ادا کرنے کی ضرور کوشش کریں گے، وجہ یہ ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے امریکی معیشت براہ راست متاثر ہو رہی ہے۔
یہ جنگ یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے تنازع پر شروع ہوئی تھی جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ امریکا کو نیٹو اتحاد سے نکل جانا چاہیے۔ امریکا کے نیٹو اتحاد سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ نیٹو کا خاتمہ ، جب نیٹو تنظیم موجود ہی نہیں ہوگی یا مکمل غیر فعال ہو جائے گی تو اس کو وسعت دینے کی بنیاد پر شروع ہونے والی جنگ کے جاری رہنے کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ لگتا یہی ہے کہ ٹرمپ دور میں بھی بین الاقوامی تنازعات کا ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رہے گا۔