جب 2 عظیم مصنفین نے 2 دن ایک ساتھ گزارے
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
گراہم گرین ممتاز ناول نگار تھے۔ ان کا نام نوبیل انعام کے لیے کئی بار شارٹ لسٹ ہوا۔ جب سنہ 1957 میں کاسترو کو اپنا انقلابی حملہ آغاز کیے چند ماہ ہوئے تھے، گرین نے انقلابیوں کی مدد کی۔
وہ خفیہ کوریئر کے ذریعے کاسترو کے باغیوں کو گرم کپڑے مہیا کرتے تھے۔ یہ باغی پہاڑوں میں چھپے ہوئے تھے۔ گرین کے بقول انہیں دلیر رہنماؤں سے خاص محبت تھی، جس کی وجہ سے انہیں کاسترو میں بھی دلچسپی تھی، بعد میں کاسترو سے ان کی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔
ایک ملاقات میں کاسترو نے گرین کو اپنی بنائی ہوئی ایک پینٹنگ بھی تحفے میں دی جو گرین کے اس گھر کے ڈرائنگ روم میں لٹکی ہوئی تھی جہاں انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ زندگی کے آخری ایام گزارے۔
یہ بھی پڑھیں: اگر انسان بھی موسم سرما سو کر گزار سکتے۔۔۔
وی ایس نیپاول بھی عظیم ناول نگار تھے۔ انہیں سنہ 2001 میں نوبیل انعام برائے ادب سے نوازا گیا۔ وی ایس نیپاول نے اپنے سینیئر اور پسندیدہ ناول نگار گراہم گرین کے ساتھ فرانس کے جنوبی علاقے میں 2 دن گزارے جہاں گرین نے اپنے ادبی سفر، نظریات اور جنگ کے اثرات سے متعلق حیران کن اور دلچسپ باتیں کیں۔ یہ 1968 کا قصہ ہے۔ اس کی روداد نیپاول کی زبانی سنیے:
گراہم گرین فرانس میں 2 برس سے مقیم ہیں، فرانس کے بااختیار لوگ مصنف کے ساتھ نرم رویہ رکھتے ہیں، سفر کی سہولت ہے اور سفر گرین کے لیے بہت اہم ہے۔ وہ ہمیشہ سے سیاسی مصنف تھے جو واقعات کے بڑے تسلسل میں دلچسپی رکھتے تھے۔ جب میں گرین سے ملا تو وہ کچھ دنوں کے لیے سیرا لون میں قیام پزیرتھے۔ ان کا ایک فلیٹ پیرس میں اور دوسرا اینٹبیز میں ہے۔ اینٹیبزکا فلیٹ کہ جہاں میں ان سے ملا چوتھی منزل پر ایک جدید بلاک میں واقع تھا۔ جہاں سلائیڈنگ والے شیشے لگے ہوئے تھے جو بیٹھک سے بالکونی تک جاتے تھے اور وہاں سے ساحل کا منظر کھلتا تھا۔
میں صبح 7 بجے وہاں پہنچا۔ گراہم گرین سبزی مائل پاجامے اور کھلی جیکٹ میں ملبوس تھے۔ ان کی ایک نئی کتاب تقریباً تیار تھی۔ یہ ایک سوانح تھی جوان کی زندگی کے ابتدائی 24 برسوں کے احوال پر محیط ہے۔ گرین بہت دھیمے انداز میں گفتگوکرتے تھے۔
مزید پڑھیے: ہم جدید سہولتوں کےدیوانے بھی ہیں اورمخالف بھی
انہوں نے بتایا کہ جنگ نے ان کی سفر کی خواہش کو ابھارا۔ ان کے بقول یہ جنگ کے بعد کا زمانہ تھا جب انہوں نے محسوس کیا کہ برطانیہ رہنے کے لیے بہت چھوٹی جگہ ہے۔ جب ان کی 10 سال سے کام کرنے والی ملازمہ اچانک وفات پا گئی تو ان کے دل میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو گیا۔ گرین کہتے ہیں کہ ’اگر وہ فوت نہ ہوئی ہوتی تو میرے لیے وہ جگہ چھوڑ نا کافی مشکل ہوتا۔ فرانس زیادہ سہولتوں کی حامل جگہ ہے اور کچھ حوالوں سے کم پریشان کن۔ فرانس میں اب بھی ایک متکبر طبقہ موجود ہے لیکن فرانس کے متوسط طبقے میں ایسے لوگ کم ہیں۔ ٹیکسی والا آپ کو صاحب کہتا ہے اور آپ اسے، میرے لیے یہ کافی اطمینان بخش ہے لیکن یہ سب شاید اس لیے ہے کیونکہ میں نے برطانیہ کو اس وقت چھوڑا جب تبدیلی آرہی تھی‘۔
فرانس کی اپنی طرح کی سیاسی غیر یقینی کی صورتحال ہے لیکن گرین کو کوئی پریشانی نہیں۔ یہ سرحد پر زندگی گزارنے والوں کے لیے معمول کا ایک حصہ ہے اور فرانسیسی سیاست وسیع اور ڈرامائی ہے۔
سنہ 1958 میں جنرل ڈیگال نے اقتدار میں آنے کے بعد ایک پریس کانفرنس کی جس میں شرکت کے لیے گرین فرانس آئےتھے۔ ان کا کوئی باقاعدہ پروگرام نہ تھا، وہ صرف اپنی دلچسپی کی وجہ سے گئے تھے اور ان کے پاس کوئی اجازت نامہ بھی نہ تھا لیکن انہیں کسی نے نہ روکا۔ ان کا خبر کا شعور بہت باکمال ہے اور گرین کے بقول’مجھے اخبارات کا مطالعہ ہمیشہ سے پسند ہے، اس پرمیرے دشمن شاید یہ کہیں کہ میں اپنے خیالات مذہبی کاموں اور اخبارات سے لیتا ہوں‘۔ اینٹیبز میں وہ روزانہ 3 روزناموں کے ساتھ ساتھ ہفتہ وار اخبارات بھی باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ وہ ہمیشہ مقامی اخبارات پڑھتے ہیں۔
انہوں نے دنیا کا مطالعہ کیا لیکن زیادہ امید کے بغیر۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا تعلق بائیں بازو سے رہا اور یہ تفہیم ان کی اپنی ہے۔ افریقہ نے انہیں پریشان کیا جہاں انہیں لگتا ہے کہ نوآبادیاتی نظام مزید 100 برس رائج رہے گا، وہ بیلجئم کے انخلا کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ گرین امریکا کی جنوب ایشیا اور لاطینی امریکا میں پالیسیوں کے بھی سخت ناقد ہیں۔
مزید پڑھیں : اپنی ہر کتاب الگ کمرے میں بیٹھ کر مکمل کرنے والا ممتاز فکشن نگار
گرین انڈین ناول نگار آر کے نارائن کی بہت تعریف کرتے ہیں جو میسور میں مقیم ہیں۔ انہوں نے ہی سنہ 1935 میں نارائن کا پہلا ناول لندن پبلشرز کو دیا تھا۔ یہ عجیب دوستی ہے۔ گرین کے بقول’نارائن سبزی خور اور سیاست میں عدم دلچسپی رکھنے والے ہیں۔ سنکسرت پڑھ پڑھ کروہ ادھیڑ عمر میں مکمل ہندوستانی بن گئے ہیں اور مجھے ہندو مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں‘۔ نارائن کی دوستی کے سبب ہی گرین نے ایک انڈین ماہر نجوم سے کچھ برس قبل اپنا زائچہ بنوایا تھا۔ اس کی داستان وہ کچھ یوں سناتے ہیں ’اس کی زبان بہت مرصع تھی۔ اس نے میری والدہ کی تاریخِ وفات مانگی لیکن میں نے اسے ان کی تاریخ پیدائش دی۔ اس نے کہا مجھ پر مالک کا احسان ہوگا۔ اوریہ بھی کہا کہ میرے ارد گرد گاڑیاں ہی گاڑیاں رہا کریں گی۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں 60 اور 100 سال کے درمیان وفات پاؤں گا جو کافی حد تک درست ہے لیکن اسے لگتا ہے کہ میں 72 سال کی عمر میں وفات پاؤں گا۔ یہ حادثہ ایک بحری سفر سے واپسی پر ہو گا جو کافی مناسب بات ہے‘۔
گراہم گرین نے 30 کتابیں لکھیں (اس وقت تک)، حیران کن بات یہ ہے کہ انھوں نے نوجوانی میں ہر 9 ماہ میں ایک کتاب لکھی۔ گرین خود کہتے ہیں کہ’ایک لکھاری کے پاس اپنے آپ سے چھپانے کے لیے کوئی راز نہیں ہوتا اور گرین کے اپنے کام کے بارے میں تجزیے ان کی مسلسل کامیابی اور نقادوں کی یقینی دہانیوں سے الگ ہیں۔ ایک جیسی باتیں بار بار کہی جاتی ہیں، بندہ بور ہو جاتا ہے، انسان اپنے بارے میں اس طرح پڑھ نہیں سکتا، کیا ایسا نہیں؟ یہ ہمیشہ خود کو ایک مسخرہ محسوس کرانے والی بات ہے‘۔
جب میں اور گرین ریسٹورنٹ کی طرف گئے تومجھے وہ علاقہ کافی مانوس لگا۔ لیکن وہاں ایک سرپرائز تھا، انہوں نے ایک اونچے خوبصورت گھر کی طرف اشارہ کیا ’اس گھر میں پال گلیسو رہتا ہے، ایک بہترین کینیڈین‘۔ جب ہم ریسٹورنٹ پہنچے تو وہ سارا خالی تھا سوائے پیٹرن اور پیٹرونی کے جو ہمارا انتظار کرر ہے تھے۔ لیمونی ہماری منتظر تھی، یہ گرین کی پسندیدہ خوراک تھی۔ یہ ان 2 ریستورانوں میں سے ایک تھا جن میں گرین جاتے تھے۔ ہم اندر کے کمرے میں گئے۔ وہاں کا سربراہ لکڑی کی سل پر مچھلی لایا اور دکھائی، سلاد کے بعد اور وائن کے بعد تیار مچھلی پیش کی گئی۔
یہ بھی پڑھیے: ایک مکینک سے نوبیل انعام کے حصول تک کا سفر
انہیں اس بات کا احساس تھا کہ یہ جنگ کے بعد کا زمانہ تھا جب گرین کی زندگی میں تبدیلی آئی۔ ان کے پہلے ناول کی توبس 8 ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں اور بعد کی کتابوں کے ساتھ تواتنا بھی نہ ہوا، The Power and the Glory جو 10 سال بعد شائع ہوا، اس کی محض ساڑھے 3 ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں لیکن The Comedians جو 1966 میں شائع ہوا کی 60 ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں اور اس کے بعد تو کامیابیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔
نیپاول کے بقول جب گرین مجھے رات گئے اسٹیشن پر رخصت کرنے آئے تو کہنے لگے کہ کل ہیٹی کے کچھ انقلابی مجھ سے ملنے آئے تھے، انھوں نے بتایا کہ ان کی ریل کار 9.
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔
فرانس فیدل کاسترو گراہم گرین ناول نگار آر کے نارائن ناول نگار گراہم گرین وی ایس نیپاولذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: فیدل کاسترو گراہم گرین ناول نگار ا ر کے نارائن نوبیل انعام گراہم گرین انہوں نے کے بقول گرین کے ہے لیکن کے ساتھ کہ میں نہ تھا ہیں کہ کے بعد کے لیے ہے اور یہ بھی
پڑھیں:
عمران خان کچھ شرائط پر ہر کسی سے بات چیت کیلئے تیار ہیں: شاندانہ گلزار
رہنما پی ٹی آئی شاندانہ گلزار ---فائل فوٹوپاکستان تحریکِ انصاف کی رکنِ قومی اسمبلی شاندانہ گلزار نے کہا ہے کہ بانیٗ پی ٹی آئی عمران خان وطن کے لیے ہر بات کرنے کو تیار ہیں، لیکن ڈیل نہیں کریں گے۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ ہر کسی سے بات چیت کے لیے تیار ہوں لیکن کچھ شرائط ہیں، قیدیوں کی رہائی، 9 مئی اور 26 نومبر واقعات کی انکوائری ہماری شرائط ہیں۔
شاندانہ گلزار کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈاپور نے اسد قیصر، شہرام ترکئی اور عاطف خان سے متعلق غلط بیانی کی، علی امین گنڈا پور نے اس بیان پر معذرت بھی کر لی، اتنا جذباتی کسی کو بھی نہیں ہونا چاہیے۔
رکن قومی اسمبلی و رہنماء پی ٹی آئی شاندانہ گلزار نے...
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پی ڈی ایم حکومت کی کوئی حیثیت نہیں۔
شاندانہ گلزار نے یہ بھی کہا کہ جیل کے دروازے تب کھلتے ہیں جب کوئی جلسہ مؤخر کرنا ہوتا ہے۔