پرو بزنس اسٹرٹیجک ٹیکسٹائل پالیسی فریم ورک تشکیل دینے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
کراچی:
مضبوط کاروبار، تجارت اور برآمدات کے ذریعے معاشی نمو کو تیز کرنے کے لیے، ایکسپورٹرز، صنعت کاروں اور کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (KCCI) نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ایک پرو بزنس اسٹرٹیجک ٹیکسٹائل پالیسی فریم ورک (STPF) تشکیل دے، اور ایک ٹیکسٹائل اور اپیرل پالیسی بنائے، پالیسی کے فوری نفاذ اور عملدرآمد کیلیے ایکسپورٹ سیکٹر کو ترجیح دی جائے۔
انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ پالیسی میں پائیدار، قابل عمل، اور عملی اقدامات شامل ہونے چاہئیں، کیونکہ پچھلی 2020-2025 کی پالیسیوں میں بیان کردہ بہت سے اقدامات پر عمل نہیں کیا جاسکا ہے۔
کے سی سی آئی کے صدر محمد جاوید بلوانی اور پاکستان ہوزری مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی ایچ ایم اے) کے مرکزی چیئرمین محمد بابر خان نے ان اہم پالیسیوں کو بہتر بنانے کی فوری ضرورت پر روشنی ڈالی، جو اس سال ختم ہونے والی ہیں۔
کے سی سی آئی میں ایک میٹنگ کے دوران انھوں نے ان ابہام کو ختم کرنے پر زور دیا جنھوں نے پچھلے پانچ سالوں میں متعدد مسائل حل نہیں کیے ہیں۔
انھوں نے اصرار کیا کہ پالیسیوں کو جامع اور موثر فریم ورک کو یقینی بنانے کے لیے کلیدی اسٹیک ہولڈرز بشمول KCCI، PHMA اور مختلف ایکسپورٹ ایسوسی ایشنز کے ساتھ قریبی مشاورت کے ذریعے حتمی شکل دی جانی چاہیے۔
اس موقع پر محمد بابر خان نے کہا کہ یورپی یونین کو ایکسپورٹ بڑھانے کیلیے جی ایس پی اسٹیٹس کا اہم کردار ہے، جی ایس پی اسٹیٹس کے جاری رہنے کو ممکن بنانے کیلیے مشترکہ طور پر حکومت پر زور ڈالنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں بنائے، جس سے جی ایس پی اسٹیٹس جاری رہ سکے۔
ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے، ڈومیسٹک ٹیکسٹائل اور ملبوسات کے معروف برآمد کنندہ، PHMA کے ساؤتھ زون کے سابق چیئرمین، اور FPCCI کے پاکستان-EU بزنس فورم کے رکن عبدالرحمان فدا نے مکمل عمل درآمد کے ساتھ مستقل پالیسیوں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایکسپورٹرز بے جا کچھ نہیں مانگتے، ہمیں صرف علاقائی ممالک کے مقابلے میں یکساں مسابقتی میدان کی ضرورت ہے، جس میں توانائی کی لاگت، آسان ٹیکسیشن پالیسیاں، خام مال اور ایکسپورٹ سے متعلق خدمات پر صفر سیلز ٹیکس شامل ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف سینکڑوں مظاہرے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) صدر ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت میں ان کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ہزاروں افراد ملک بھر میں منعقدہ درجنوں تقریبات میں سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے ٹرمپ کی جارحانہ امیگریشن پالیسیوں، بجٹ میں کٹوتیوں، یونیورسٹیوں، نیوز میڈیا اور قانونی اداروں پر دباؤ سمیت یوکرین اور غزہ کے تنازعات سے نمٹنے کی پالیسی کی مذمت کی۔
اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے ڈونلڈ ٹرمپ نے ارب پتی ایلون مسک کے ساتھ مل کر حکومتی اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کی ہیں۔ انہوں نے دو لاکھ سے زیادہ وفاقی ملازمین کو فارغ کیا اور اہم وفاقی ایجنسیوں جیسے کہ USAID اور محکمہ تعلیم کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں پر تنقیدٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف احتجاجی ریلیاں گروپ 50501 کی قیادت میں منعقد کی جا رہی ہیں، جس کا مطلب پچاس ریاستوں میں پچاس مظاہرے اور ایک تحریک کی نمائندگی کرنے والوں کا اتحاد ہے۔
(جاری ہے)
یہ گروپ اپنی احتجاجی ریلیوں کو "ٹرمپ انتظامیہ اور اس کے ساتھیوں کے جمہوریت مخالف اور غیر قانونی اقدامات کا ایک ردعمل قرار دیتا ہے۔"ایک احتجاجی ریلی میں اپنی پوری فیملی کے ساتھ شریک اسی سالہ تھامس باسفورڈ نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل اس ملک کی اصلیت کے بارے میں جانیں۔ ان کے بقول، آزادی کے لیے امریکہ میں یہ ایک بہت خطرناک وقت ہے۔
"بعض اوقات ہمیں آزادی کے لیے لڑنا پڑتا ہے۔" 'امریکہ میں کوئی بادشاہ نہیں'مظاہرین نے ٹرمپ کی ملک بدری کی پالیسیوں کا نشانہ بننے والے تارکین وطن کے لیے حمایت کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان وفاقی ملازمین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی کیا جنہوں نے اپنی ملازمتیں کھو دی تھیں۔ انہوں نے ان یونیورسٹیوں کے حق میں بھی آواز بلند کی جن کے فنڈز میں کٹوتی کا خطرہ ہے۔
نیویارک میں مظاہرین نے "امریکہ میں کوئی بادشاہ نہیں" اور "ظالم کے خلاف مزاحمت" جیسے نعروں کے ساتھ مارچ کیا۔
دارالحکومت واشنگٹن میں لوگوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ ٹرمپ جمہوریت اور ملک کے اقدار کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ مظاہرین نے کیفیہ اسکارف کے ساتھ مارچ کیا اور "آزاد فلسطین" کے نعرے لگائے۔ چند لوگوں نے صدر وولودیمیر زیلنسکی کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے یوکرین کا پرچم اٹھا رکھا تھا۔
امریکی مغربی ساحل پر واقع شہر سان فرانسسکو میں کچھ مظاہرین نے امریکی پرچم الٹا اٹھا رکھا تھا، جو عام طور پر پریشانی کی علامت ہے۔
ادارت: رابعہ بگٹی