نیب کا بڑا فیصلہ ،مفرور ملک ریاض کے مزید اثاثے ضبط کرنے کی تیاریاں مکمل، دبئی حکومت سے رابطے کا فیصلہ ، دبئی پراجیکٹ میں انوسٹمنٹ کرنیوالوں کو منی لانڈرنگ کے کیسز کا سامنا کرنا پڑیگا ، تفصیلات سب نیوزپر
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
نیب کا بڑا فیصلہ ،مفرور ملک ریاض کے مزید اثاثے ضبط کرنے کی تیاریاں مکمل، دبئی حکومت سے رابطے کا فیصلہ ، دبئی پراجیکٹ میں انوسٹمنٹ کرنیوالوں کو منی لانڈرنگ کے کیسز کا سامنا کرنا پڑیگا ، تفصیلات سب نیوزپر WhatsAppFacebookTwitter 0 21 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس )نیب ایک قومی احتسابی ادارے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے وقتا فوقتا عوام الناس کو ان عناصر کے بارے میں آگاہ کرتا رہا ہے جو دھوکہ دہی اور جعلسازی کے ذریعے لوگوں سے ناجائز ہاوسنگ سوسائٹیز کے نام پر دن رات پیسے بٹوڑنے میں مصروف ہیں۔ نیب کے پاس اس وقت بحریہ ٹاون کے مالک ملک ریاض اور دیگر افراد کے خلاف دھوکہ دہی اور فراڈ کے کئی مقدمات زیر تفتیش ہیں۔
نیب کے پاس اس بات کے مضبوط شواہد موجود ہیں کہ ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے بحریہ ٹاون کے نام پر کراچی، تخت پڑی راولپنڈی اور نیو مری میں نہ صرف سرکاری بلکہ نجی اراضی پر بھی ناجائز قبضہ کر کے بغیر اجازت نامے کے ہاوسنگ سوسائٹیز قائم کرتے ہوئے لوگوں سے اربوں روپے کا فراڈ کیا ہے۔ ملک ریاض نے بحریہ ٹاون کے نام پر مزید کئی شہر جس میں پشاور اور جام شورو بھی شامل ہیں اسی انداز سے زمینوں پر ناجائز قبضے کر کے اور بغیر این او سی کے ہاوسنگ سوسائٹیز قائم کی ہیں اور لوگوں سے دھوکہ دہی کے ذریعے بھاری رقوم وصول کر رہا ہے۔ ملک ریاض اس وقت این سی اے کے مقدمے میں ایک عدالتی مفرور ہے جو کہ عدالت اور نیب دونوں کو مطلوب ہے۔
نیب بحریہ ٹاون کے پاکستان کے اندر بے شمار اثاثے پہلے ہی ضبط کر چکا ہے اور مزید اثاثہ جات کو ضبط کرنے کے لیے بلا توقف قانونی کاروائی کرنے جا رہا ہے۔ ملک ریاض نے، جو اس وقت عدالتی مفرور کی حیثیت سے دبئی میں مقیم ہے، حال ہی میں وہاں پر بھی لگژری اپارٹمنٹ کی تعمیرات کے حوالے سے ایک نیا پروجیکٹ شروع کیا ہے۔عوام الناس کو اس حوالے سے تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ مذکورہ پروجیکٹ کے اندر کسی قسم کی سرمایہ کاری سے اپنے آپ کو دور رکھیں اور اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کا یہ فعل منی لانڈرنگ کے زمرے میں آئے گا جس کے لیے انہیں قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حکومت پاکستان بھی فوری طور پر اس اہم معاملے پر دبئی کی حکومت سے رابطہ کر کے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی تاکہ معصوم لوگوں کو اس کے دھوکے اور غیر قانونی فعل سے محفوظ رکھاجاسکے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ملک ریاض
پڑھیں:
9 مئی کیسز: صنم جاوید کی بریت کیخلاف سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی
— فائل فوٹوسپریم کورٹ نے صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔
عدالت میں 9 مئی کیسز میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر ہوئی ہے۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے بتایا کہ ریمانڈ کے خلاف درخواست میں لاہور ہائی کورٹ نے صنم جاوید کو کیس سے بری کر دیا ہے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے پنجاب حکومت کے وکیل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہو چُکیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے، آپ اب یہ کیس کیوں چلانا چاہتے ہیں؟
پنجاب حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور صنم جاوید کو بری کیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے یہ سن کر کہا کہ میرا اس حوالے سےفیصلہ موجود ہے کہ ہائی کورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں، اگر ہائی کورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہو رہی ہے تو اختیارات استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
بھلوال میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ ہماری جدوجہد غیر جمہوری سسٹم کے خلاف ہے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے جسٹس ہاشم کاکڑ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کر سکتی۔
جس پر جسٹس صلاح الدین نے اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کریمنل اپیل میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔
وکیلِ صفائی نے کہا کہ ہم نے ہائی کورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو 1 سال بعد یاد آیا کہ صنم جاوید نے جرم کیا ہے؟ کیا معلوم کل آپ میرا یا کسی کا نام بھی 9 مئی کے کیسز میں شامل کر دیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریکِ ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے، اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔