Daily Ausaf:
2025-04-22@06:17:46 GMT

ایلون مسک نے وویک رامسوامی کی چھٹی کرا دی

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک)امریکا میں سرکاری محکموں کی اصلاحات کے لیے بنائے جانے والے نئے محکمے ’ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی‘ کے نامزد کردہ شریک سربراہ وویک رامسوامی اب اس محکمے کے رکن نہیں رہے۔ اب صرف ایلون مسک ہی ’’ ڈوج’’ کی سربراہی کریں گے۔

رپورٹ کے مطابق حکام نے تصدیق کی ہے کہ رامسوامی ’ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی‘ کا مزید حصہ نہیں رہے۔

یہ تصدیق ایک ایسے موقع پر کی گئی ہے جب چند گھنٹے قبل ہی امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی ذمے داریاں سنبھالی تھیں۔

’ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی‘ سے رامسوامی کی علیحدگی کے بعد اب اس محکمے کی قیادت صرف ایلون مسک کریں گے۔

وویک رامسوامی کو عہدے سے کیوں ہٹایا گیا؟

پولیٹیکو کی رپورٹ کے مطابق ہنرمند غیر ملکی کارکنوں کےلئے H-1B ویزا کے اجرا کی حمایت کرتے ہوئے رامسوامی نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں امریکی کارکنوں کو اوسط درجے کی مہارت قرار رکھنے والا قرار دیا تھا، جس پر صدر ٹرمپ کے اتحادیوں نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا ۔ یادرہے ایلون مسک نے بھی H-1B ویزا کی حمایت کی تھی۔

کچھ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایلون مسک کو شراکت داری پسند نہیں تھی اوروہ اسے ’’ ڈوج’’ سے نکالنا چاہتے تھے ٹویٹ کےبعد انہیں بہانہ مل گیا۔ ایشیائی پس منظر کی وجہ سے اسے ’’مارا ے لاگو’’ اور ’’ڈی سی’’ میں برداشت نہیں کیا جارہا۔

ایک اور سورس نے دعوی کیاکہ رامسوامی نے بھی دسمبر کے اوائل سے DOGE کے لیے کوئی کام نہیں کیا ہے۔

رامسوامی کو بڑا عہدہ دینے کی تیاریاں

ری پبلکن پارٹی میں 2024 کی صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں شامل رہنے والے وویک رامسوامی نے اشارہ دیا ہے کہ وہ آئندہ برس ریاست اوہائیو کے گورنر کے لیے انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں۔ 40 سالہ رامسوامی ریاست اوہائیو کے شہر سِنسناٹی کے مکین ہیں۔

’ میڈیا رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ رامسوامی اس سے قبل نائب صدر جے ڈی وینس کی سینیٹ کی خالی ہونے والی نشست پر امریکا کے ایوانِ بالا کے رکن بننے کے خواہش مند تھے۔ البتہ اوہائیو کے ری پبلکن گورنر مائیک ڈیوائن نے جے ڈی وینس کی خالی ہونے والی سینیٹ کی نشست کے لیے ریاست کے لیفٹننٹ گورنر جان ہسٹڈ کو نامزد کر دیا تھا۔

گورنر شپ کے لئے رامسوامی کو سخت مقابلے کا سامنا

اوہائیو میں، رامسوامی کو ممکنہ طور پر ریاست کے اٹارنی جنرل ڈیو یوسٹ کے خلاف مقابلہ کرنا پڑے گا، یادرہے ڈیو نے ریاست کے چھ ہفتے کے اسقاط حمل پر پابندی کے قانون کا مضبوطی سے دفاع کیا اور سرخیوں میں رہے۔

ڈوج کے ترجمان کا موقف

’ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی‘ کو اس کے انگریزی مخفف ’ڈی او جی ای‘ کی وجہ سے ڈوج کا نام بھی دیا جاتا ہے۔اس محکمے کی ایک ترجمان انا کیلی کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ وویک رامسوامی نے ڈوج کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ رامسوامی جلد ہی عوامی عہدے کے انتخاب میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لیے ڈوج سے الگ ہونا ان کی ضرورت ہے۔

گزشتہ برس نومبر 2024 میں ڈیموکریٹک امیدوار کاملا ہیرس کو انتخابات میں شکست دینے کے بعد اسی ماہ کے وسط میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ ایلون مسک اُن کی حکومت میں ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی کے محکمے کی سربراہی کریں گے اور ٹیک انٹرپرینیور وویک رامسوامی اس محکمے کی قیادت میں ان کے ساتھ ہوں گے۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دونوں شخصیات کی قیادت میں بننے والا یہ نیا محکمہ امریکی وفاقی حکومت کی ’بڑے پیمانے پر ادارہ جاتی اصلاحات‘ کے لیے تجاویز اور رہنمائی فراہم کرے گا۔

’’ ڈوج’’ کا مستقبل بھی غیر یقینی

ٹرمپ انتظامیہ پر پہلے ہی DOGE کے افتتاح کے موقع پر کم از کم چار کیس دائر کئے گئے تھے اور تین مقدموں میں یہ دلیل دی گئی تھی کہ یہ وفاقی شفافیت کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔

یادرہے نو منتخب صدر امریکا ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر کے DOGE کو امریکی حکومت کے “اندر” کام کرنے کی اجازت د ے دی ہے۔ جس کا ایلون مسک نے خیر مقدم کیا ہے ۔

تاہم، کیل میک کلیناہن، جو مفاد عامہ کی قانونی فرم نیشنل سیکیورٹی کونسلرز کے وکیل ہیں اور ایک مقدمے کے مدعی ہیں، نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ صدارتی حکمنامے کے باوجود کیس قابل سماعت ہوگا۔
مزیدپڑھیں:اسکول میں شوہر بیوی کا کردار ادا کرنے والا جوڑا 20 سال بعد حقیقت میں شادی کے بندھن میں بندھ گیا

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کہ رامسوامی رامسوامی کو رامسوامی نے ایلون مسک محکمے کی کے لیے

پڑھیں:

عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ

روس اور یوکرین نے ایک دوسرے پر صدر ولادیمیر پوتن کی طرف سے اعلان کردہ ایسٹرکی ایک روزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ فریقین نے کہا کہ اس دوران سیکڑوں حملے کیے گئے ہیں۔ اس سے قبل رواں ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ یوکرین اور روس کے مابین جنگ بندی مذاکرات کا وقت آن پہنچا ہے۔

 روس، یوکرین جنگ چوتھے برس میں داخل ہوچکی ہے، جس میں60ہزار سے زاید یوکرینی اور روسی شہری اور فوجی ہلاک، جب کہ یوکرین میں شہرکے شہرکھنڈرات میں تبدیل ہوچُکے ہیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں دنیا میں مہنگائی کا ایک طوفان آیا۔ غریب ممالک کے عوام تو اِس تباہی میں پِسے ہی لیکن امیر ممالک کے شہری بھی توانائی، خوراک اور دوسری اشیائے صَرف کی آسمان سے چُھوتی قیمتوں سے اب تک نجات نہیں پاسکے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواں ہفتے روس اور یوکرین کے درمیان امن معاہدے کے لیے پرامید ہیں۔صدر ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ’’اگر جنگ بندی ہوجاتی ہے تو دونوں ممالک کے لیے امریکا کے ساتھ بڑے تجارتی مواقع دستیاب ہوں گے۔‘‘ تاہم انھوں نے ان امن مذاکرات کی تفصیلات نہیں بتائیں جنھیں امریکا جنوری میں ان کے صدارت سنبھالنے کے بعد سے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے روس کے ساتھ جنگ ختم کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کے فیصلے کے بعد یورپی طاقتیں بھی شامل ہونے کی کوشش کررہی ہیں۔ دوسری جانب ٹرمپ کی امن کی کوششوں کو جھٹکا لگا ہے،کیونکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے مکمل جنگ بندی کی تجویزکو مسترد کردیا ہے۔ دراصل ٹرمپ یوکرین کے مسئلے سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، وہ روس کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری بحال کرنا چاہتے ہیں، اور وہ نہیں چاہتے کہ یوکرین جیسا ’چھوٹا مسئلہ‘ ان کی راہ میں رکاوٹ بنے۔

عالمی امور کے ماہرین کے مطابق، روس، یوکرین جنگ میں توانائی کی ڈیمانڈ، سپلائی اور قیمتوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان بھی بری طرح متاثر ہوا ، آئی ایم ایف کے قرضوں کے مسلسل پروگرام اِسی جنگ کی براہِ راست مہربانی ہے۔ جب روس نے جنگ کے بعد تیل اورگیس کی سپلائی پر پابندی لگائی، تو یورپی ممالک تڑپ اُٹھے۔

یوکرین کا بیشتر رقبہ سرسبز و شاداب ہے۔ اس میں کوئی ایسا بڑا پہاڑ نہیں جو برف پوش ہو۔یہاں برف باری تو ہوتی ہے لیکن اس کی وجہ سطح سمندر سے بلندی ہے جیسا کہ براعظم ایشیاء کے بعض ملکوں میں ہم دیکھتے ہیں۔ یوکرین کے پہاڑی سلسلے کم بلند ہیں، زیادہ علاقہ میدانی ہے۔ اس کی مٹی اتنی زرخیز ہے کہ اس میں اگنے والی گندم پاکستان سمیت دوسرے ملکوں کو بھی برآمد کی جاتی ہے۔ پاکستان کا رقبہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ مربع میل ہے اور ہماری آبادی 24کروڑ نفوس سے زیادہ ہے جبکہ یوکرین کا رقبہ تقریباً اڑھائی لاکھ مربع میل ہے اور اس کی آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے اور وہ تین برس سے دنیاکی دوسری بڑی سپرپاور (روس) سے نبرد آزما ہے۔

اس کی اسلحہ ساز فیکٹریاں بھی دن رات چل رہی ہیں اور دوسرے ممالک بھی اس کو دھڑا دھڑ اسلحہ برآمد کررہے ہیں۔ اب تک طرفین کے لاکھوں سولجرز اور سویلینز اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، لیکن یوکرین کو نیٹو ممالک کی طرف سے جو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم ہو رہا ہے، یوکرینی سولجرز اس کو استعمال کرکے روس کو بھی اتنا ہی جانی نقصان پہنچا چکے ہیں جتنا روس، یوکرین کو پہنچا چکا ہے ، یعنی چوٹ برابرکی ہے۔ جنگوں میں صرف گولہ بارود اور چھوٹے بڑے ہتھیار ہی کام نہیں آتے۔ ان ہتھیاروں کے باعث ماحول کی جو تباہی دیکھنے کو ملتی ہے، وہ حیرت انگیز بھی ہے اور حسرت ناک بھی۔جیسا کہ باور کیا جا رہا ہے، امریکی صدر ٹرمپ کی مداخلت سے یہ روس یوکرین تنازعہ شاید آنے والے چند ہفتوں میں ختم ہو جائے، لیکن توپوں، ڈرونوں، بارودی سرنگوں اور میزائلوں سے جو بربادی اس سرزمین کا مقدر بن چکی ہے وہ آنے والے کئی برسوں تک بھی برقرار رہے گی۔ یوکرین، روس کے بعد، یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے۔

اس پر جو بربادی اس جنگ کی وجہ سے وارد ہو چکی اس کے اثرات شاید آنے والے کئی عشروں تک بھی برقرار رہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی، پولینڈ اور اردگرد کے ممالک میں چھے برسوں میں جو تباہی مچی، اس کو امریکا نے دو تین برسوں ہی میں ختم کردیا تھا، لیکن اگر یوکرین میں یہ جنگ بند بھی ہوگئی تو اس کی زمین، اس کی بندرگاہوں بحیرہ اسود اور بحیرہ آزوف اور اس کی آب و ہوا کی تباہی کو معمول پر آنے کے لیے کئی برس درکار ہوں گے۔ آج یوکرین کے میدان ہائے جنگ کا حال یہ ہے کہ وہاں کی زمینوں میں توپوں کے گولوں سے پڑنے والے گڑھوں کی تعداد، لاتعداد ہو چکی ہے، تمام فضا زہرآلود ہے اور بارود کی بُو یوکرین کے طول و عرض میں پھیل چکی ہے۔

صدر ٹرمپ کے اقدامات، بیانیے اور مطالبات کو جوڑیں تو ایک پریشان کن منظر ابھرتا ہے۔ وہ احساس جوکبھی قومی ذمے داری کو نبھانے یا اس عالمی نظام برقرار رکھنے یا اس کی مرمت کے لیے تھا، جس کے قیام میں کبھی امریکا اور برطانیہ نے مدد کی، اب مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ روایتی اتحادیوں اور اتحادوں سے وفاداری ختم ہوچکی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی تجارتی تنظیم جیسے اداروں کی مفلوج حالت، عالمی معیشت کے زوال کو تیزکر رہی ہے۔ صدر ٹرمپ ایک نئے دورکا آغاز دیکھ رہے ہیں جہاں ہر ملک اپنی بقا کی جنگ خود لڑے گا۔ اس تصور میں پرانے بین الاقوامی نظام کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ بریٹن ووڈز سسٹم کو فرسودہ بوجھ سمجھا جا رہا ہے اور طاقت کو علاقائی اثر و رسوخ کے دائروں میں دوبارہ تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اس منطق کے تحت گرین لینڈ اور پانامہ امریکا کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں جب کہ یوکرین کو روس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسی دوران یورپ،کینیڈا اور میکسیکو اب معاشی حریف سمجھے جاتے ہیں۔

اگر تجارتی معاہدے ایسے شرائط پر نہ ہو سکیں جو مکمل طور پر امریکا کے حق میں ہوں، تو پھر جوابی محصولات کے لیے تیار رہیں۔ اس نئے عالمی انتشار کو کارآمد بنانے کے لیے پوتن کو بحال کرنا ضروری ہے اور روس کو دوبارہ بین الاقوامی نظام میں شامل کرنا ہوگا۔ پابندیاں ختم کرنی ہوں گی، اور معاہدے کرنے ہوں گے۔وسیع تر تناظر میں، دنیا پہلے ہی دو مخالف کیمپوں میں بٹ رہی ہے۔ مغرب کے مقابلے میں چین، جسے بڑھتی ہوئی تعداد میں ریاستوں کی حمایت حاصل ہے، جو کھلم کھلا اس نازک عالمی نظام کو مسترد کر رہی ہیں جسے ہم نے طویل عرصے سے یقینی سمجھ رکھا تھا، اگر یورپ اور امریکا ایک پیج پر نہ ہوئے، جب چین ٹیکنالوجی، معیشت اور عسکری برتری کے لیے امریکا کو چیلنج کر رہا ہے، تو یہ خارج از امکان نہیں کہ دنیا ایک بار پھر جنگ کی دہلیز پر پہنچ جائے۔

ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ جتنی دیر ہم امریکا میں جاری اس خطرناک سیاسی تجربے سے نظریں چراتے رہیں گے، اتنا ہی کم وقت ہمارے پاس اس کا جواب دینے کے لیے باقی بچے گا۔ ایک عالمی طاقت کی جانب سے بین الاقوامی معاملات پر توجہ نہ دینے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ باقی دنیا کے تنازعات اسی طرح برقرار رہیں اور ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے جیسا کہ غزہ میں حماس اور اسرائیل کی جنگ جو فی الحال ایک معاہدے کے تحت جنگ بندی پر منتج ہوئی تھی لیکن اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کی پاسداری نہیں کی گئی۔ اسرائیلی مغویوں کی رہائی میں کچھ تاخیر ہونے کی وجہ سے اسرائیل نے غزہ پر پھر بمباری شروع کر دی ہے، وہاں یہ کیسے ممکن ہوگا کہ معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے معاملات تھوڑے بھی آگے پیچھے ہوئے تو اسرائیلی قیادت آپے سے باہر نہیں ہو جائے گی؟

دوسری جانب اسرائیل اور ایران کے تعلقات میں بھی کشیدگی پہلے سے زیادہ پائی جاتی ہے اور ٹرمپ ایران کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں یہ بھی سب پر واضح ہے، چنانچہ اگر خدانخواستہ اسرائیل اور ایران کے مابین غزہ یا لبنان کے تنازع اور شام کی جنگ کو لے کر اختلافات بڑھے تو امریکی صدر خاموش تماشائی کے سوا کوئی اور کردار ادا نہیں کرسکیں گے، البتہ صدر ٹرمپ یوکرین کی جنگ بند کرانے میں سرگرم کردار ادا کرنے کی ضرور کوشش کریں گے، وجہ یہ ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے امریکی معیشت براہ راست متاثر ہو رہی ہے۔

یہ جنگ یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے تنازع پر شروع ہوئی تھی جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ امریکا کو نیٹو اتحاد سے نکل جانا چاہیے۔ امریکا کے نیٹو اتحاد سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ نیٹو کا خاتمہ ، جب نیٹو تنظیم موجود ہی نہیں ہوگی یا مکمل غیر فعال ہو جائے گی تو اس کو وسعت دینے کی بنیاد پر شروع ہونے والی جنگ کے جاری رہنے کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ لگتا یہی ہے کہ ٹرمپ دور میں بھی بین الاقوامی تنازعات کا ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • جیکولین فرنینڈس کی ایلون مسک کی والدہ کے ساتھ تصاویر وائرل
  • عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ
  • پی ایس ایل 10: اتوار کی چھٹی بھی اسٹیڈیم کی رونق بحال نہ کرسکی
  • جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت پھر ملتوی، وجہ بھی سامنے آگئی
  • ایلون مسک کو حکومت امریکا نے کھرب پتی بنایا
  • ایف بی آر کا بڑا قدم، ہفتے کی چھٹی ختم کردی
  • تبدیل ہوتی دنیا
  • ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا کرنے کیلیے ایف بی آر نے ہفتے کی چھٹی ختم کردی
  • ہفتے کی چھٹی منسوخ کرنے کا اعلان
  • ایلون مسک سے ٹیکنالوجی میں امریکہ کے ساتھ تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا ہے.نریندرمودی