UrduPoint:
2025-04-22@15:54:13 GMT

’ایک افغان جنگجو کے بدلے دو امریکی شہری رہا‘

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

’ایک افغان جنگجو کے بدلے دو امریکی شہری رہا‘

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 جنوری 2025ء) قیدیوں کے تبادلے کے لیے جاری مذاکراتی عمل کی تصدیق گزشتہ سال کی گئی تھی تاہم اس تبادلے کا اعلان ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اقتدار سنبھالنے کے بعد کیا گیا۔ ری پبلکن سیاستدان ٹرمپ نے دوسری مدت کے لیے 20 جنوری کو حلف اٹھایا۔

افغان وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں قید افغان جنگجو خان محمد کو امریکی شہریوں کی آزادی کے بدلے رہا کر دیا گیا ہے۔

طالبان کی وزارت خارجہ نے مزید بتایا ہے کہ خان محمد تقریباﹰ دو دہائی قبل مشرقی افغان صوبے ننگرہار سے گرفتار کیے جانے کے بعد کیلیفورنیا میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔

طالبان نے البتہ یہ نہیں بتایا کہ خان محمد کی آزادی کے بدلے کتنے امریکی شہریوں کو رہا کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

گزشتہ سال حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے البتہ دو امریکی شہریوں کو حراست میں لینے کا اعلان کیا تھا۔

رہا کیے جانے والے افراد کون ہیں؟

امریکی محکمہ انصاف نے سن 2008 میں محمد خان کو ’افغان طالبان سیل‘ کا رکن قرار دیا تھا۔ انہیں اکتوبر سن 2006 میں گرفتار کیا گیا تھا جبکہ دسمبر 2008 میں منشیات کی اسمگلنگ اور اس کالعدم دھندے سے وابستہ دہشت گردانہ اقدامات کے الزامات کے تحت دو بار عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

سن 2022 میں طالبان کی طرف سے حراست میں لیے گئے امریکی شہری ریان کوربٹ کے اہل خانہ نے تصدیق کی ہے کہ انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔

ریان کی فیملی نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا کہ وہ بہت خوش ہیں کہ ریان زندہ ہیں اور 894 دنوں کی صعوبتوں کے بعد وطن واپس لوٹ آئے ہیں۔ اس پیغام میں ریان کوربٹ کی رہائی کی کوششوں کی لیے بائیڈن اور ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ساتھ قطر کا بھی شکریہ ادا کیا گیا جبکہ ساتھ ہی افغانستان میں قید دو دیگر امریکیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔

امریکی میڈیا کے مطابق رہا کیے گئے دوسرے امریکی کا نام ولیم میک کینٹی ہے۔

عوامی سطح پر اس بارے میں کم معلومات دستیاب ہیں کہ یہ افغانستان میں کیا کر رہے تھے۔ مزید کتنے امریکی افغان طالبان کی قید میں ہیں؟

امریکی میڈیا نے کہا ہے کہ اس ڈیل کے بعد بھی دیگر امریکی ابھی بھی طالبان کی قید میں ہیں۔

نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ابھی تک قید دیگر دو امریکیوں میں سابق ایئر لائن میکینک جارج گلیزمن اور افغان نژاد امریکی شہری محمود حبیبی شامل ہیں۔

گزشتہ سال نومبر میں ہونے والے امریکی صدراتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد طالبان حکومت نے کہا تھا کہ وہ امریکہ میں قیادت کی تبدیلی کے بعد واشنگٹن حکومت کے ساتھ تعلقات میں ایک 'نئے باب‘ کی امید کر رہی ہے۔

سن دو ہزار اکیس میں افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان بارہا کہہ چکے ہیں کہ تمام ممالک کے ساتھ مثبت تعلقات کے خواہاں ہیں۔ تاہم ابھی تک کسی بھی ملک نے سرکاری طور پر طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ بالخصوص خواتین کے ساتھ امتیازی رویوں کی وجہ سے امریکہ اور متعدد مغربی ممالک افغان طالبان کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

ع ب/ا ب ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے طالبان کی کیا گیا کے ساتھ کے بعد گیا ہے

پڑھیں:

اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے امریکی سفیر نے حماس سے کیا مطالبہ کیا ؟

اسرائیل میں امریکہ کے نئے سفیر مائیک ہکابی نے فلسطینی تنظیم “حماس” پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ایسا معاہدہ کرے جس کے تحت تباہ حال غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی ترسیل ممکن ہو سکے۔

ہکابی نے پیر کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” پر ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ “ہم حماس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسا معاہدہ کرے تاکہ انسانی بنیادوں پر امداد ان لوگوں تک پہنچائی جا سکے جنہیں اس کی شدید ضرورت ہے”۔

انھوں نے مزید کہا کہ “جب ایسا ہو جائے گا، اور یرغمالیوں کو رہا کر دیا جائے گا ، جو کہ ہمارے لیے ایک فوری اور اہم معاملہ ہے، تو ہم امید رکھتے ہیں کہ امداد کی ترسیل بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے گی، اور اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ حماس اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے”۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب “حماس” نے جمعرات کو اسرائیل کی طرف سے پیش کردہ ایک عبوری جنگ بندی تجویز کو مسترد کر دیا۔ اس تجویز میں قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ اور امداد کی فراہمی شامل تھی۔ “حماس” کے ایک اعلیٰ مذاکرات کار کے مطابق، ان کی تنظیم صرف مکمل اور جامع معاہدے کی حامی ہے، جس میں جنگ بندی، اسرائیلی فوج کا غزہ سے انخلا اور تعمیر نو شامل ہو۔

قطر، امریکہ اور مصر کی ثالثی سے جنوری 2024 میں ایک عبوری جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا، جس نے اکتوبر 2023 میں حماس کے غیر معمولی حملے کے بعد شروع ہونے والی پندرہ ماہ سے زائد طویل جنگ کو وقتی طور پر روک دیا تھا۔

معاہدے کا پہلا مرحلہ تقریباً دو ماہ جاری رہا، جس میں اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔ تاہم دوسرے مرحلے پر اختلافات کے باعث یہ معاہدہ ٹوٹ گیا۔ اسرائیل اس کی توسیع چاہتا تھا، جب کہ حماس چاہتی تھی کہ بات چیت اگلے مرحلے میں داخل ہو، جس میں مستقل جنگ بندی اور فوجی انخلا شامل ہو۔

18 مارچ کو اسرائیل نے دوبارہ سے غزہ کی پٹی پر فضائی اور زمینی حملے شروع کر دیے اور امداد کی ترسیل روک دی۔ اسرائیل نے الزام لگایا کہ حماس امداد کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے، جب کہ حماس نے یہ الزام مسترد کر دیا۔ اقوامِ متحدہ نے گذشتہ ہفتے خبردار کیا کہ غزہ اس وقت جنگ کے آغاز سے بد ترین انسانی بحران سے گزر رہا ہے۔

اس سے قبل امریکی نیوز ویب سائٹ axios یہ بتا چکی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وزیراعظم نیتن یاہو سے رابطہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ جنگ بندی، یرغمالیوں کے معاہدے اور ایران کے ساتھ جاری جوہری مذاکرات پر گفتگو کی جا سکے۔

یہ فون رابطہ ایسے وقت متوقع ہے جب “حماس” نے اسرائیل کی ایک اور عارضی جنگ بندی تجویز کو رد کر دیا ہے … اور ایران و امریکہ کے درمیان روم میں نئی جوہری بات چیت کا آغاز ہو چکا ہے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے:وزارت داخلہ
  • اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے: وزارت داخلہ
  • امریکا کے ساتھ بڑے پیمانے پر معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں، وزیر خزانہ
  • اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے امریکی سفیر نے حماس سے کیا مطالبہ کیا ؟
  • جے یو آئی کے ساتھ اتحاد نہ ہونے کا معاملہ: بیرسٹر گوہر کا ردِ عمل آ گیا
  • خیبر :ایک ہزار 198غیرقانونی رہائش پذیر افغان شہری ملک بدر
  • تحریک طالبان پاکستان کا بیانیہ اسلامی تعلیمات، قانون، اخلاقیات سے متصادم قرار
  • بھارت پر امریکی شہری کے قتل کیلئے انعام مقرر کرنے کا الزام، سکھ تنظیموں کی امریکہ سے مداخلت کی اپیل
  • امریکا کے یمن پر تازہ حملے، مزید شہری جاں بحق، جوابی کارروائی میں امریکی ڈرون تباہ
  • بلوچستان کے مسائل کا حل کیسے ممکن، کیا پیپلزپارٹی نے صدارت کے بدلے نہروں کا سودا کیا؟