دنیا کے لئے” ہیپی لینڈ ” کی تعمیر میں چین امریکہ کی مشترکہ کوششیں ضروری ہیں، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
دنیا کے لئے” ہیپی لینڈ ” کی تعمیر میں چین امریکہ کی مشترکہ کوششیں ضروری ہیں، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 21 January, 2025 سب نیوز
بیجنگ () امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں امریکی صدر کا عہدہ دوسری بار سنبھالا۔ حلف برداری کی تقریب میں مدعو کیے گئے مہمانوں میں سوشل میڈیا ایپ ” ٹک ٹاک” کے سی ای او چو شوزی بھی شامل تھے۔اس ایپ کو امریکہ میں بار ہا پابندی کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چینی کمپنی کے قائم کردہ ٹک ٹاک سوشل پلیٹ فارم نے 2018 میں امریکی مارکیٹ میں قدم رکھا اور جلد ہی صارفین کی ایک بڑی تعداد حاصل کرلی۔ سال 2024 کے اختتام تک ، ٹک ٹاک کے امریکہ میں تقریباً 170 ملین صارفین ہیں ، جو امریکی آبادی کا تقریباً نصف ہے۔ ٹک ٹاک کی کامیابی کی ایک اہم وجہ اس کے جدید مواد، الگورتھم اور اس کے صارفین کو فراہم کی جانے والی جذباتی قدر ہیں۔ صارفین کے لئے ، یہ ایک کلاؤڈ ہیپی لینڈ کی طرح ہے۔ جب ہیپی لینڈ کی بات آتی ہے تو امریکہ کے ڈزنی لینڈ کا نام لینا ضروری ہے۔ چھوٹے اور بڑے سب ڈزنی فلمیں دیکھنا پسند کرتے ہیں،
کیوں کہ وہ خوابوں کی طاقت کی وکالت کرتی ہیں، امید کا اظہار کرتی ہیں، خاندان سے محبت اور دوستی پر زور دیتی ہیں اور انصاف کا تصور پیش کرتی ہیں ۔ یہ تمام مثبت اقدار قومی سرحدوں سے تجاوز کرتے ہوئے لوگوں کو امید اور طاقت دیتی ہیں.
انہوں نے چین اور امریکہ کے لوگوں کو ان کے مختلف ثقافتی پس منظر کے باوجود مشترکہ جذباتی بنیاد تلاش کرنے میں مدد دی ۔ چینی مارکیٹ میں ڈزنی لینڈ کی کامیابی کی وجہ اس کی اپنی دلکشی کے ساتھ ساتھ چینی حکومت کا اعلی سطحی کھلا پن اور حمایت ہے۔ شنگھائی ڈزنی ریزورٹ کے صدر جو شوٹ نے ایک چینی میڈیا ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اختراعی ترقیاتی تصورات، متنوع انسانی وسائل، مضبوط حکومتی حمایت اور چینی عوام کی مہمان نوازی شنگھائی ڈزنی لینڈ کی کامیابی کے راز ہیں اور اس سے ڈزنی لینڈ کا چینی مارکیٹ میں کاروبار کے فروغ کا اعتماد بھی مضبوط ہوا ہے۔ تاہم امریکہ میں ٹک ٹاک کی صورتحال کافی پریشان کن ہے۔ 2019 میں ، ٹک ٹاک کو امریکی محکمہ تجارت کی طرف سے “اینٹٹی لسٹ” میں شامل کیا گیا اور بعد میں اسے متعدد پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ان پابندیوں میں ٹک ٹاک کو غیر چینی کاروباری اداروں کو فروخت یا پھر مکمل بندش کا بل بھی ہے جس پر امریکی انتظامیہ نے دستخط کیے ۔نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد ٹک ٹاک میں تبدیلی آئی اور 20 جنوری کو مذکورہ بل کے نفاذ میں 75 دن تک معطلی کا آڈر آیا ۔ تاہم، اس سے قبل ٹرمپ بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکہ ٹک ٹاک کی 50 فیصد ملکیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔یوں امریکی مارکیٹ میں ٹک ٹاک کامستقبل اب بھی غیر یقینی ہے
ٹک ٹاک واحد چینی کمپنی نہیں جسے پابندیوں کا سامنا ہے ۔ چپ کمپنیوں سے لے کر انٹرنیٹ کمپنیوں تک، نئی توانائی سے لے کر ٹیکسٹائل کی صنعت تک، چینی کمپنیوں کو طویل عرصے سے “قومی سلامتی” کے بہانے امریکہ کی طرف سے بےجا جبر اور پابندیوں کا سامنا ہے۔ ان کارروائیوں نے نہ صرف چین اور امریکہ کے درمیان معمول کی اقتصادی اور تجارتی سرگرمیوں کو متاثر کیا ہے بلکہ امریکی حکومت پر مارکیٹ اینٹیٹیز کے اعتماد کو بھی کمزور کیا ہے۔لیکن ایک بات تسلی بخش ہے کہ چین اور امریکہ نے ایک دوسرے کے ساتھ خیر سگالی کا مظاہرہ کرنا کبھی بند نہیں کیا اور بات چیت پر آمادگی ہمیشہ دیکھی گئی ہے۔ عوامی سطح پر ہم نے دیکھا کہ ٹک ٹاک پر پابندی کے نفاذ سے چند روز قبل امریکی صارفین کی ایک بڑی تعداد نے ایک اور چینی ایپ کا رخ کیا اور چینی انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ کچھ لوگوں نے لاس اینجلس سے تعلق رکھنے والے امریکی انٹرنیٹ صارفین کی جنگل کی آگ کے حوالے سے پوسٹوں پر اپنی یکجہتی کا اظہار کیا،
کچھ نے چینی گانے والے غیر ملکی انٹرنیٹ صارفین سے اپنی پسندیگی کا اظہار کیا اور لوگوں نے اپنے پالتو جانوروں، روایتی ملبوسات اور زیورات، کھانے اور سیاحتی مقامات کی تصاویر کو بھی پوسٹ کیا۔ یوں عام لوگوں کے درمیان ہمدردی، ایک دوسرے کو جاننے کا تجسس اور بات چیت کرنے کی خواہش نے قومی سرحدوں کو پار کیا۔ دوسری جانب ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل چینی اور امریکی رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو اور چینی نائب صدر ہان زنگ کی چینی صدر شی جن پھنگ کے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے ، حلف برداری کی تقریب میں شرکت یہ ثابت کر تی ہے کہ چین اور امریکہ باہمی بات چیت کو اہمیت دیتے ہیں اور اس سے چین امریکہ تعلقات کے اگلے مرحلے کی ترقی کے لیے مثبت توقعات پیدا ہوئی ہیں ۔ یہ چین اور امریکہ کی مشترکہ کوشش ہے کہ اپنے اپنے ملک کو ترقی دی جائے اور لوگوں کو بہتر زندگی دی جائے۔ اختلافات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اتفاق کی تلاش اور نئے دور میں بڑے ممالک کے مابین بقائے باہمی کا راستہ تلاش کرنا، چین اور امریکہ کے لیے ایک مشترکہ مسئلہ ہوسکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کے استحکام اور ترقی کے لیے اس کی بہت اہمیت ہے۔ امید ہے کہ چین اور امریکہ لوگوں کے لئے بہتر زندگی اور دنیا کے لئے” ہیپی لینڈ ” کی تعمیر میں مل کر کام کریں گے۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: امریکہ کی دنیا کے لینڈ کی کے لئے
پڑھیں:
عمران خان کیلئے امریکی دبائو؟ فسانہ یا حقیقت
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بین الاقوامی مداخلت کوئی نئی بات نہیں۔ جب بھی ملک میں سیاسی کشیدگی عروج پر ہوتی ہے، عالمی طاقتیں خصوصاً امریکی حکومت اپنی خارجہ پالیسی کے تحت مداخلت کرتی نظر آتی ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بعد کے سیاسی حالات نے عالمی سطح پر خاصی توجہ حاصل کی ہے۔ اس حوالے سے یہ سوال ابھر رہا ہے کہ کیا عمران خان کی رہائی کے لیے امریکہ کسی قسم کا دبائو ڈال رہا ہے؟ اگر ہاں، تو اس دبائو کی نوعیت، وجوہات اور ممکنہ اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟
امریکہ کا جنوبی ایشیا میں ایک اہم اسٹرٹیجک کردار ہے۔ پاکستان ایک نیوکلیئر ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ افغانستان کے حوالے سے بھی اہم جغرافیائی حیثیت رکھتا ہے۔ سی پیک روٹ نے اس اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے، عمران خان کی بطور وزیراعظم خارجہ پالیسی نسبتاًخود مختار اور مغرب سے کچھ فاصلہ رکھنے کی حامل رہی، جس میں چین، روس اور اسلامی دنیا کے ساتھ تعلقات کو کسی حد تک فوقیت دینے کی کوشش کی گئی۔ ان پالیسیوں نے واشنگٹن میں کچھ حلقوں کو پریشان ضرور کیا، مگر عمران خان کی مقبولیت اور عوامی حمایت نے انہیں نظر انداز کرنا مشکل بنا دیا۔
امریکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق اور جمہوریت کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری اور ان پر مقدمات کو اکثر بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں متنازع قرار دیتی رہی ہیں۔ اس تناظر میں امریکی حکام نے کچھ مواقع پر پاکستان کی حکومت سے انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا، جسے عمران خان کے حامی ان کی ’’رہائی کے لیے دبائو‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ اس حوالے سے تاحال یقین سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
حال ہی میں امریکی کانگریس کے رکن جیک برگ مین کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطح کے کانگریسی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا، جسے مبصرین نے عمران خان کے کیس اور انسانی حقوق کی صورتحال کے تناظر میں خاصی اہمیت دی۔ اس وفد نے حکومتی و عسکری حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں سیاسی استحکام، عدالتی شفافیت اور انسانی حقوق کے احترام پر زور دیا۔ اگرچہ ان ملاقاتوں کی تفصیلات مکمل طور پر سامنے نہیں آئیں، لیکن بعض ذرائع یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ عمران خان کی طویل قید اور ان کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر بھی غیر رسمی طور پر گفتگو کی گئی۔ اس دورے کو عمران خان کی رہائی کے لیے عالمی دبا ئو کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکہ میں کئی قانون ساز اور ٹرمپ ٹیم کے کچھ لوگ اپنے ٹویٹس اور بیانات میں عمران خان کی حراست کو جمہوری اقدار کے منافی قرار دے چکے ہیں۔
کئی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ امریکہ پسِ پردہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے ساتھ ایسے رابطے رکھتا ہے جن کے ذریعے وہ اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بناتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عمران خان جیسے مقبول لیڈر کی جیل میں موجودگی پاکستان کے سیاسی منظرنامے کو غیر متوازن کر دے، جس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہو۔ امریکہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے کسی ’’نرم مداخلت‘‘ کی پالیسی اپنا سکتا ہے۔
اگر واقعی امریکہ عمران خان کی رہائی کے لیے دبائو ڈال رہا ہے تو اس کے دو بڑے اثرات ہوسکتے ہیں۔
-1سیاسی ریلیف: عمران خان کو کسی عدالتی یا سیاسی ڈیل کے ذریعے ریلیف مل سکتا ہے، جس سے وہ ایک بار پھر سیاسی میدان میں فعال ہو جائیں گے۔
-2 عوامی تاثر: امریکی دبائو سے رہائی کی صورت میں عمران خان کی عوامی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ ’’ بین الاقوامی حمایت رکھنے والے قومی لیڈر‘‘کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔
عمران خان کی رہائی کے لیے امریکی دبائو ایک حقیقت بھی ہو سکتا ہے اور محض سیاسی بیانیہ بھی۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ عمران خان کی شخصیت اور مقبولیت نے پاکستان کی سیاست کو عالمی سطح پر ایک نئے تناظر میں پیش کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اگر عمران خان کو رہائی ملتی ہے، تو یہ جانچنا ضروری ہوگا کہ اس میں بین الاقوامی سفارت کاری کا کتنا عمل دخل تھا۔ اس معاملے کا ایک اور پہلو خود عمران خان اور ان کی سیاست کیلئے مہلک بھی ثابت ہو سکتا ہے، کپتان کی سیاست کی بنیاد ان کا یہ بیانیہ رہا ہے کہ پاکستان کے سیاسی معاملات میں بین الاقوامی مداخلت نہیں ہونی چاہیئے، اس حوالے سے ایک جلسہ عام میں مبینہ سائفر لہرانا ایک بڑا واقعہ تھا، لیکن اگر اب وہ خود امریکی دبا ئوکے ذریعے جیل سے رہائی پاتے ہیں یا اقتدار میں واپس آتے ہیں تو یہ عمل خود ان کے اپنے بیانیہ کی نفی ہوگا۔
دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا دعویٰ ہے کہ جیک برگ مین کی قیادت میں پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی وفد نے عمران خان کی رہائی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی، حکومت اسے دوٹوک انداز میں پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے رہی ہے، لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب ایسے دو اندرونی معاملات میں پہلے بھی مداخلت کرچکے ہیں، میاں نواز شریف کے حوالے سے سعودی عرب نے دوبار مداخلت کی اور دونوں بار انہیں جیل سے رہائی پاکر بیرون ملک جانے کی سہولت مہیا کی گئی، محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کیلئے اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف کے ساتھ ان کی ڈیل کروانے میں بھی امریکہ کا کردار نمایاں رہا، اس لئے یہ کہنا بے جا نہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی بھی وقت کوئی بھی معاملہ طے پا سکتا ہے اور اس میں گارنٹر کا کردار کون ادا کرتا ہے یہ تو وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا، تاہم اس حوالے سے 3ممالک امریکہ ، سعودی عرب اور چین کا نام لیا جا رہا ہے۔ واللہ اعلم باالصواب