صدر ٹرمپ کا ‘2 جنس’ اور مساوات مخالف پالیسی کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
حلف اٹھانے کے فوراً بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں پر عمل کرتے ہوئے صنف اور تنوع سے متعلق امریکا کی حکومتی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے لیے ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے سابق صدر جو بائیڈن انتظامیہ کے ان احکامات کو واپس لے لیا ہے جسے اب وائٹ ہاؤس نے ’وفاقی حکومت کی ہر ایجنسی اور دفتر میں غیر مقبول، مہنگائی، غیر قانونی، اور بنیاد پرست طرز عمل‘ قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا میں الیکٹرک گاڑیوں کا ہدف بھی صدر ٹرمپ کے نشانے پر آگیا
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے منسوخ کیے جانیوالے 2 احکامات میں سے ایک وہ بھی تھا جس میں صنفی شناخت یا جنسی رجحان کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو روکنے کی سابق صدر جو بائیڈن کی ہدایت شامل ہے۔
ٹرمپ نے ایک اور حکم نامے پر بھی دستخط کیے جس میں صرف 2 جنسں یعنی مرد اورعورت کو تسلیم کیا گیا ہے، اس اعلان کے ساتھ کہ انہیں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
پیر کو اپنے افتتاحی خطاب کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ آج سے ریاست امریکا کی حکومت کی سرکاری پالیسی ہوگی کہ صرف 2 جنس ہیں، مرد اور عورت، صدر ٹرمپ نے اس بارے میں وسیع تر وعدے کیے ہیں جن کو قدامت پسند ثقافت، جنس اور تنوع، مساوات اور شمولیت پروگرام کے طور پر مسترد کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے دن کونسے بڑے فیصلے کیے؟
ایک اور ہدایت جسے صدر ٹرمپ نے منسوخ کیا وہ نسلی مساوات اور پسماندہ کمیونٹیز کی حمایت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے جاری کی گئی تھی، ایک انتظامی آفیسر کے مطابق صدارتی حکم ناموں میں ایک ’تنوع، مساوات اور شمولیت‘ کو حکومت کے اندر سے ختم کردے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد سے کئی بڑی امریکی کمپنیوں بشمول میک ڈونلڈز، والمارٹ اور فیس بک کی پیرنٹ کمپنی میٹا نے اپنے’ تنوع، مساوات اور شمولیت‘یعنی ڈی ای آئی پروگراموں کو ختم یا کم کر دیا ہے۔
مزید پڑھیں:اب ہم مریخ پر قدم رکھیں گے، امریکا کو کوئی فتح نہیں کر سکتا، ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر کے عہدے کا حلف اٹھا لیا
ایپل اور خوردہ فروشں ٹارگٹ اور کوسٹکو جیسی دوسری کمپنیوں نے عوامی سطح پر اپنے موجودہ پروگراموں کا دفاع کیا ہے، ڈی ای آئی کے حمایتی پروگراموں کو نسل، جنسیت اور دیگر خصوصیات کی بنیاد پر دیرپا امتیاز کو درست کرنے کے طریقے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
تاہم، 2023 کے بعد سے ڈی ای آئی پروگراموں کا منظرنامہ تبدیل ہو گیا ہے، جب امریکی سپریم کورٹ نے امریکی یونیورسٹیوں کو طلبا کے داخلے کے عمل میں درخواست دہندگان کی نسل پر غور کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
مزید پڑھیں:صدر آصف زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کی ڈونلڈ ٹرمپ کو عہدہ صدارت سنبھالنے پر مبارکباد
اس پالیسی کا مقصد، جسے مثبت کارروائی کہا جاتا ہے، اعلیٰ تعلیم میں حائل تاریخی نسلی اور نسلی تفاوت کا مقابلہ کرنا تھا، ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی امریکا میں خواجہ سراؤں کے حقوق کی توسیع کے حق اور مذہبی قدامت پسندوں کی طرف سے بڑھتی ہوئی تنقید کے ساتھ ہم آہنگ نظر آتی ہے۔
صدر ٹرمپ نے 2024 کی پوری مہم کے دوران صنف کے بارے میں روایتی نقطہ نظر کی حمایت کی تھی اور انہوں نے اپنے اتحادیوں کے ہمراہ خواجہ سراؤں کے حقوق کی حمایت کرنے پر ڈیموکریٹس کو ہدفِ تنقید بنایا تھا۔
مزید پڑھیں:صدر ٹرمپ کی حلف برداری کے بعد ایلون مسک پر نازی سلیوٹ دینے کا الزام
پروجیکٹ 47، ٹرمپ مہم کے لیے سرکاری پالیسی پلیٹ فارم، نے بنیاد پرست صنفی نظریہ کے ساتھ ساتھ بچوں پر نامناسب نسلی، جنسی یا سیاسی مواد” کے لیے وفاقی فنڈنگ میں کمی کا وعدہ کیا۔
صدر ٹرمپ نے ان پالیسیوں پر تنقید کی ہے جو ٹرانس جینڈر ایتھلیٹس، اسکول جانے کی عمر کے کھلاڑی، کالج کے ایتھلیٹس اور پیشہ ور افراد، کو ان ٹیموں میں کھیلنے کی اجازت دیتی ہیں جو ان کی صنفی شناخت کے مطابق ہوتی ہیں۔
مزید پڑھیں:ٹرمپ نے کرپٹوکرنسی لانچ کردی، نومنتخب صدر پر عہدہ کیش کرنیکا الزام
یہ دلیل دیتے ہوئے کہ اس سے خواتین کے کھیلوں کے پروگراموں کو نقصان پہنچ سکتا ہے، صدر ٹرمپ اور ان کے ساتھی ریپبلکنز نے ٹرانسجینڈر نابالغوں کے لیے مخصوص قسم کے طبی علاج پر پابندی لگانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
سرکاری سطح پر صرف 2 جنسوں کا اعلان کرنے والے حکم کے وسیع پیمانے پر مضمرات ہو سکتے ہیں۔ کچھ امریکی اور عالمی ماہرین صحت نے کہا ہے کہ افراد کو ان کی صنفی شناخت یا اظہار کی بنیاد پر الگ کرنا جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھیں:ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر جوبائیڈن کے 4 سالہ دور اقتدار کو بدترین قرار دیدیا
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے خبردار کیا ہے کہ سخت صنفی اصول متنوع صنفی شناخت والے لوگوں کو بھی منفی طور پر متاثر کرتے ہیں۔ ’جنہیں صحت کی دیکھ بھال کی ترتیبات سمیت اکثر تشدد، بدنامی اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
پیر کے روز، ٹرمپ نے ایک مختلف ایگزیکٹو آرڈر پر بھی دستخط کیے جس کا مقصد امریکہ کو عالمی ادارہ صحت سے نکالنا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی صدر پروجیکٹ 47 تنوع جنس جو بائیڈن سپریم کورٹ شمولیت صدر ٹرمپ عالمی ادارہ صحت مساوات.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی صدر پروجیکٹ 47 جو بائیڈن سپریم کورٹ شمولیت عالمی ادارہ صحت مساوات ڈونلڈ ٹرمپ نے صنفی شناخت مزید پڑھیں امریکی صدر بنیاد پر کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔ تحریر: آتوسا دینیاریان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے من پسند پالیسیوں پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً چین کے خلاف ٹیرف کی ایک وسیع جنگ شروع کی ہے، اس طرزعمل کے نتائج نے موجودہ امریکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عوام کے عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ریاستہائے متحدہ میں معاشی حالات خراب ہوئے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے امریکی صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تحفظ پسند پالیسیوں کو نافذ کرکے اور چین اور دیگر ممالک کے خلاف تجارتی محصولات میں اضافہ کرکے "عظیم امریکی خواب" کے نظریے کو بحال کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، معاشی ترقی کی رفتار میں کمی اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔
ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی:
اس وقت صرف 44% امریکی ان کے معاشی انتظام سے مطمئن ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آئے گا۔
افراط زر اور بڑھتی ہوئی قیمتیں:
افراط زر کی شرح 3% تک پہنچ گئی ہے، جبکہ فیڈرل ریزرو کا ہدف 2% ہے۔ یہ وہ علامات ہیں، جو کسی ملک میں کساد بازاری کو دعوت دینے کے مترادف سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی کی رفتار رک جاتی ہے اور سست اقتصادی ترقی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ تجارتی پالیسی کے عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کار طویل مدتی سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگتے ہیں۔
بڑے پیمانے پر احتجاج:
ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں امریکیوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے متوسط طبقے اور محنت کشوں کی ان پالیسیوں سے عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں، جو دولت مند اور بڑی کارپوریشنز کے حق میں ہیں۔ ادھر فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیرف مہنگائی اور سست اقتصادی ترقی کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کے معاشی فیصلے ظاہری طور پر امریکی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ملکی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے دعوے کے ساتھ کیے گئے تھے، لیکن عملی طور پر وہ مسابقت میں کمی، قیمتوں میں اضافے، معاشی ترقی میں سست روی اور مارکیٹ میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔