منی ٹریل ثابت کرنا تو بہت مشکل ، یہ تو فائز عیسیٰ بھی نہیں کرسکے تھے، جسٹس محسن
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
اسلام آباد(آئی این پی+وقائع نگار)اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے ہیں منی ٹریل ثابت کرنا تو بہت مشکل کام ہے، منی ٹریل کا ثبوت تو قاضی فائز عیسی بھی پیش نہیں کرسکے تھے۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں شہری ڈاکٹر تاشفین خان کی نیب کال اپ نوٹس کے خلاف درخواست پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی۔نیب نے مبینہ منی لانڈرنگ پر ڈاکٹر تاشفین کو طلبی کا نوٹس جاری کررکھا ہے، درخواست گزار کے وکیل نے استدعا کی کہ قانونی طریقے سے پیسہ باہرلے کرگئے، منی ٹریل موجودہے۔جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ منی ٹریل کاثبوت لائیں تومیں درخواست منظور کرلوں گا، منی ٹریل ثابت کرنا تو بہت مشکل کام ہے، منی ٹریل کاثبوت تو قاضی فائز عیسی بھی پیش نہیں کرسکے تھے، عدالت نے کیس کی سماعت 30 جنوری تک ملتوی کردی۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کا معاملہ مئی 2019 کے اواخر میں سامنے آیا تھا جب وہ سپریم کورٹ کے سینئر جج تھے۔سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس میں جسٹس عیسی پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔صدارتی ریفرنس میں اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی تھی۔بعدازاں سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل بینچ نے طویل سماعتوں کے بعد سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی درخواست کو منظور کرلی تھی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: قاضی فائز عیسی منی ٹریل کورٹ کے
پڑھیں:
ججز کے تبادلے چیف جسٹس کی مشاورت سے ہوئے، رجسٹرار سپریم کورٹ کا جواب
اسلام آ باد:ججز ٹرانسفر سینیارٹی کیس میں رجسٹرار سپریم کورٹ نے جواب جمع کرادیا اور کہا ہے کہ اس معاملے میں چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت شامل تھی۔
رجسٹرار سپریم کورٹ کے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 200(1) کے تحت، صدر کسی ہائی کورٹ کے جج کو اس کی رضا مندی، چیف جسٹس پاکستان اور دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت کے بعد، کسی دوسرے ہائی کورٹ میں منتقل کر سکتا ہے۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 200(1) کے تحت وضع کردہ طریقہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے، وزارتِ قانون و انصاف نے 01-02-2025 کو ایک خط کے ذریعے معزز چیف جسٹس آف پاکستان سے ججز کے تبادلے کی مشاورت حاصل کی۔
یہ مشاورت/اتفاقِ رائے چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے 01-02-2025 کو فراہم کی گئی، اس جواب کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔