کلچر کا تعلق براہِ راست انسانی فکر سے ہے۔ انسان نے اپنے رہن سہن کے لیے جو رنگ ڈھنگ اپنائے، وہ طرزِ زندگی بن کر اس کے معاشرے کا حصہ بن گئے۔ اس میںشک نہیں کہ ہر خطے کا کلچر اپنا اپنا ہے۔ یہ بھی درست کہ اپنے کلچر کی حفاظت انسان اپنی جان کی طرح کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان یہ چاہتا ہے کہ اس کا معاشرہ دیگر معاشروں سے زیادہ تازہ، با رونق، امیر اور شاندار دکھائی دے۔ اس کی رسومات دیگر خطوںسے منفرد نظر آئیں۔ اس انفرادیت کے حصول کی خاطر وہ اپنی رسومات کو رواج بنانے کی کوشش میں محو رہتا ہے۔ اس یہی کوششیں اس کے کلچر کو پختہ کرتی چلی جاتی ہیں۔ انسان کو سب سے زیادہ متاثر اس کا عقیدہ کرتا ہے۔ اپنے عقیدے پہ سمجھوتا کرنا ہر دور کے انسان کے لیے مشکل رہا ہے۔ وہ رسومات، رواج اور تمدن میں تو اتنی لچک ضرور رکھتا ہے کہ دوسروں کی اچھی رسومات کو اپنے معاشرے میں اپنے انداز میں ڈھال کر اپنی ثقافتی ترتیب کو کچھ اور بہتر بنا لیتا ہے لیکن مذہب کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ انسان اپنا مذہب آسانی اپنے ہاتھ سے نکلنے نہیں دیتا خواہ اس کے مذہب میں ایسے عقائد بھی کیوں نہ شامل ہوں جن کا دفاع وہ اپنے مخالفین کے سامنے کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ کہا جا سکتا ہے کہ انسان خطے کی رسومات کو اپنے کلچر میں شامل کرتا ہے، لیکن اصل کلچر وہی ہوتا ہے جس کو وہ اپنے مذہب سے حاصل کرتا ہے۔ مذہب سے انسانی تعلق جذبات میں ڈھلاہوتا ہے اور وہ اپنے مذہبی افکار کو دوسروں پہ مسلط کر کے اپنی تہذیبی حیثیت کو پختہ کرنا چاہتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: ’’اور آپؐ سے یہود اور نصاریٰ اس وقت تک خوش نہ ہوں گے جب تک آپؐ ان کی ملت کی اتباع نہ کر لیں۔‘‘ (البقرہ،۲:۱۲۰)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس لیے کہ اسلام نے صرف قوانین ہی نہیں سمجھائے تھے بلکہ ان قوانین کی تشریح جس اعلیٰ طریقے سے کی ہے اس نے زمانے کو ایک نئی راہ دی۔ اسلامی تہذیب نے ایک نئی تہذیبی جہت کو جنم دیا۔ اسلامی تہذیب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس نے انسانی عزت پہ زور دیا۔ اس کے تمام قوانین انسانی
عظمت ہی کے گرد گھومتے اور اسی کے ضامن ہیں۔ عقائدِ اسلام اپنے لحاظ سے منفرد ہیں، اس لیے کہ ایک ایسے رب کی عبادت پہ زور دیا جا رہا تھا، جو ظاہر میں نظر نہیں آ رہا تھا لیکن اس کے ہونے کا احساس ہر دل تک اتارنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ یہ آسان کام نہیں تھا اس لیے کہ انسان کسی بھی ایسی چیز کو کیسے مان سکتا تھا جسے اس کی نگاہ نے دیکھا نہ ہو، مگر اس میں ایک انفرادی پہلو بھی تھا۔ انسان کو یہ احساس دلایا گیا کہ اس کی عظمت اسی حقیقت میں پنہاں ہے کہ وہ ایک اللہ کے سامنے سر کو جھکائے۔ اس کے سامنے جھکنے کے بعد کہیں اور سر جھکانے یا دامن پھیلانے کی اسے ضرورت نہیں۔ اس روایت سے انسان کی حیثیت مسلم ہوئی۔ وحدانیت کا سبق پڑھنے کے بعد انسان کی قدر و قیمت میں اضافہ ہو گیا۔ اسلامی کلچر نے یقین کو پختہ کیا، انسان ان روایات کا امین بنا جن میں ابہام نہیں ہے۔ مضبوط تعلیمات نے جو کلچر عطا کیا وہ صرف اور صرف تفریح ِ طبع ہی کا سبب نہیں تھا بلکہ انسانی افکار کی سر بلندی کی وجہ بھی بنا۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلامی تہذیب سے پہلے تہذیب موجود نہیں تھی۔ تہذیب کی ایسی صورت نہیں تھی جو اسلام نے مہیا کی ہے۔ اسلامی تہذیب نے جستجو کا جو پہلو انسانی فکر کو بخشا اس نے انسان کی کھوجی فطرت میں مزید اضطراب پیدا کیا۔ قرآن حکیم جیسی عظیم و مفصل کتاب کا اہلِ اسلام کے لیے وقف ہونا اور اس کی تعلیمات کا ان کے لیے دستور بننا، درحقیقت یہ اسلامی تہذیب کی بڑی برتری ہے۔ پہلی بار کسی مذہب نے علم و ادب اور انسانیت کی بات بغیر کسی تفریق کے کی تھی۔ تہذیب کے رنگ خطے کے اعتبار سے نہیں فکر کے لحاظ سے پھیلے۔ اسلام خطوں کا نہیں افکار کا مذہب ہے، محبت و یگانگت کا مذہب ہے، تحمل و رواداری کا مذہب ہے، برداشت اور بردباری کا مذہب ہے۔ یہ اسلامی تہذیب ہی تھی کہ مکہ میں محمدﷺ فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے لیکن ان کے لہجے میں کوئی للکار نہیں تھی بلکہ عاجزی سے داخل ہونے کے بعد عام معافی کا اعلان کر کے انسانی سوچ کو عملی تہذیب سے دعوتِ ملاقات دی۔ بتوں کو گرایا اور تمام غیر انسانی رسومات کو ختم کر کے انسان کو اس سے متعارف ہونے کا موقع دیا۔ اگر تہذیب انسانی فکر سے تعلق رکھتی ہے تو پھر تہذیب کے جو اصول اسلامی تہذیب نے مہیا کیے ہیں ان سے انکار ممکن نہیں ہے۔ آپﷺ نے مساوات، جمہوریت، رواداری، تحمل، برداشت اور بردباری کے جو اصول وضع کیے ہیں آج کی جدید دنیا اسی فکر سے سلیقہ حاصل کر کے زمانے پہ حاکمیت کے لیے کوشاں ہے۔ اسلامی تہذیب نے انسان کو تشبیہی عبادات سے نکال کر، تنزیہی عبادات کی طرف راغب کیا۔ انسان تصورات کے لیے نہیں بنایا گیا۔ اسے اس دنیا میں نیابتِ الٰہی کا جو تاج عطا کیا گیا ہے اسلامی تہذیب اسے اسی بلندی کا احساس قدم قدم پہ دلاتی ہے۔ وہ پتھروںکی پرستش یا سورج کے سامنے سر جھکانے کے لیے نہیں تھا، اس کا مقصدِ تخلیق کچھ اور تھا وہ اس خالق کے کمالات کے اظہار کے لیے اس زمین پہ اتارا گیا تھا۔ اسے حقِ نیابت ادا کرنے کے لیے انبیا کی صورت میں معلم اور معلمین کے ذریعے ایسا آئین بھیجا جو معاشرتی، معاشی، سیاسی اور سماجی ہر لحاظ سے انسانی فطرت کی تسکین کے عین مطابق تھا۔ اسلامی کلچر نے انسان کے تفریحی ذہن کے لیے ایسے تہوار بھی مہیا کیے جن میں ادب و احترام بھی ہے اور ایک امت ہونے کا احساس بھی ہے۔ اسلامی تہذیب نے انسان کے اندر ایک جذبہ ابھارا جسے ایثار کہا جاتا ہے۔ ایثار نے انسان کی فطرت کو اس قدر بدلا کہ وہی لوگ جو ایک دوسرے کو قتل کرنے کے در پے تھے، وہی لوگ ایسے مذہبی رنگ میں رنگے گئے کہ ان کے رویوں سے جو محبت کی کونپلیں پھوٹیں، انہوں نے زمانے کو مہکا دیا۔ ایک دوسرے کی جان کے دشمن ایک دوسرے کے محافظ بن گئے۔
تہذیب کے پکے رنگوں نے اپنا کمال دکھایا اور صحرا نشین عرب نے تخت نشین ہو کر آئین و جمہوریت کی نئی روایات مہیا کیں۔ رنگ و نسل، زبان و لہجے سے بالاتر ہو کر ایک قرآن، ایک قبلہ، ایک اللہ اور ایک رسولﷺ پہ ایمان لا کر انسان نے ایک ایسی تہذیب کی پیروی کی جس نے ایک نہ مٹنے والے دستور کو جنم دیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی رائے ملاحظہ فرمائیں۔ ’’تاریخی شعور عوام و خواص کی تفریق مٹا کر نا انصافیوں کو دور اور سب کے لیے یکساں مواقع و مساوات کو مرکز ِفکر بنانے میں ہماری دست گیری کر سکتا ہے۔ یہی روح اسلام ہے اور اسی کے نتیجے میں ایک متوازن و متجانس قوم وجود میں آ سکتی ہے ورنہ ہم اسی طرح مستقبل اور اپنے ’’وفاقی وجود‘‘ کی طرف سے بے یقینی کے بحران میں مبتلا رہیںگے‘‘۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: اسلامی تہذیب نے کا مذہب ہے رسومات کو کہ انسان کے سامنے انسان کو تہذیب کی انسان کی کرتا ہے کے لیے
پڑھیں:
پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں جہاں بات چیت ہوسکے، فضل الرحمان
جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی۔ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں جہاں بات چیت ہوسکے، انتہاپسند سیاست کے قائل نہیں ، پیپلز پارٹی، ن لیگ، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں سے اختلاف ہے دشمنی نہیں۔
سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان کی منصورہ لاہور میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان سے ملاقات ہوئی، انہوں نے پروفیسر خورشید احمد کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا۔
مشترکہ پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں انتہا پسندانہ اور شدت پسندانہ سیاست کا قائل نہیں، کوئی انگریز کا ایجنٹ رہا ہے یا امریکا کا تو ہم نے اسے کہا ہے، ہم پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو وہاں لے جانا چاہتے ہیں جہاں بات چیت ہو سکے، پیپلز پارٹی، ن لیگ، جماعت اسلامی کےساتھ اختلاف ہیں لیکن دشمنی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اتحاد امت کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دے رہے ہیں، حکمران غزہ کیلئے اپنا فرض کیوں ادا نہیں کر رہے، یکسو ہوکر فلسطینیوں کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ فلسطین سے متعلق ہم مولانا فضل الرحمان کے مؤقف کے ساتھ ہیں، دونوں جماعتیں اپنے اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد کریں گی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ فلسطین کی صورتحال پوری امت مسلمہ کےلیے باعث تشویش ہے، 27 اپریل کو مینار پاکستان میں بہت بڑا جلسہ اور مظاہرہ ہوگا، مذہبی جماعتیں مینار پاکستان جلسے میں شرکت کریں گی، جلسے میں پنجاب کے عوام کو دعوت دی گئی ہے، فلسطین کےلیے پورے ملک میں بیداری مہم بھی چلائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اتحاد امت کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دے رہے ہیں، یکسو ہوکر غزہ کے فلسطینیوں کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہاں کوئی چھوٹی موٹی اسرائیلی لابی ہے بھی تو اس کی کوئی حیثیت نہیں، حکمران غزہ کیلئے اپنا فرض کیوں ادا نہیں کر رہے؟
فضل الرحمان نے کہا کہ جے یو آئی کا منشور صوبوں کے تحفظ سے متعلق بہت واضح ہے، سندھ کے لوگ اگر حق کی بات کرتے ہیں تو کسی صوبے کو ہم حق کی بات کرنے سے نہیں روک سکتے، صوبائی خود مختاری اور مفادات سے متعلق ہمارا مؤقف واضح ہے، یہ حکمرانوں کی نا اہلی ہے کہ اب تک مسئلے کا حل نہیں نکال سکے، مسئلے کا حل تمام فریقین کو مرکز میں بٹھا کر حاصل کیا جا سکتا ہے، محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے دل میں کوئی چور ہے، پانی کی تقسیم آئین اور قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ تمام اداروں کو اپنی اپنی آئینی حدود میں کام کرنا چاہیے، ہم چاہتے ہیں سب مظلوموں کے حق میں، ظالموں کے خلاف کھڑے ہوں، حکومت کچھ بھی کہے عام آدمی کیلئے مہنگائی موجود ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آئینی ترمیم پر ہر جماعت کے اپنے نکات ہوتے ہیں، ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم آئیڈیل ہے۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ 26ویں ترمیم پر جماعت اسلامی کا اپنا موقف تھا اور فضل الرحمان کا اپنا، جماعت اسلامی نے اس آئینی ترمیم کو کلی طور پر مسترد کیا تھا۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ انتخابی دھاندلی پر جماعت اسلامی کا موقف مختلف ہے، ہم فوری نئے الیکشن نہیں بلکہ فارم 45 کی بنیاد پر نتائج چاہتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ دھاندلی پر ہمارا اور جماعت اسلامی کا موقف بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔