Nai Baat:
2025-04-22@11:29:43 GMT

کوئٹہ سے زیارت کا سفر نامہ

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

کوئٹہ سے زیارت کا سفر نامہ

ہم کوئٹہ شہر کے جناح روڈ پر یوں تو علی احمد کرد کے بتائے ہوئے دفتر کو تلاش کر رہے تھے مگر اچانک ہم اسی جگہ پر آ گئے جہاں قائد اعظم قیام کرتے تھے۔ جناح روڈ جو تب بروس سڑک کے نام سے مشہور تھی۔ اسی جگہ پر حاجی اینڈ سنز کی بڑی دکان تھی جہاں سے این اے حسین پہلے گورنر جنرل قائد اعظم کے لیے سات روپے کے عوض ولز کی جرابیں خرید لایا تھا اور مسٹر جناح نے وہ جرابیں اس لیے تبدیل کرائی تھیں کہ وہ پہلے سے استعمال شدہ تھیں۔ مسٹر جناح کوئٹہ بہت بار تشریف لاتے تھے۔ 1934 میں تو انہوں نے دو ماہ یہاں قیام کیا۔ قائد اعظم نے اسی دوران کوئٹہ اور زیارت کے علاوہ مستونگ، قلات، پشین، ڈھاڈر اور سبی سمیت اندرون صوبہ کئی دورے بھی کیے۔ قائد اعظم کے مشہور 14 نکات کے اندر اسی صوبے میں اصلاحات کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ جناح کیپ کے نام سے شہرت پانے والی اور ان کی شخصیت کا حصہ بن جانے والی قراقلی ٹوپی بھی ان کو کوئٹہ ہی میں پیش کی گئی تھی۔ ہم کوئٹہ سے زیارت کے نکلے تو اسی روز بالائی علاقوں میں برف باری کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ کوئٹہ سے زیارت کا فاصلہ ایک سو چھپن کلومیٹر ہے مگر ہمیں وہاں پہنچنے میں تین گھنٹے لگ گئے۔ صنوبر کے درختوں سے مہکتا زیارت اس روز بادلوں میں گھرا تھا اور ہمارے سامنے زیارت ریذیڈنسی کی قدیم عمارت تھی جس کا چپہ چپہ قائد اعظم کی خوشبو سے مہکتا تھا۔ ریذیڈنسی کے پہلو میں ایستادہ قدیم درخت کی سنجیدہ روی بتاتی تھی کہ کبھی اس چھاؤں کو مسٹر جناح نے معتبر بنایا ہو گا۔ زیارت شہر جنوری دو ہزار پچیس میں بھی جدید سہولیات سے خالی تھا اور میرا سر درد سے پھٹا جاتا تھا مگر یہاں کے کسی میڈیکل سٹور سے درد کش وہ گولی نہیں مل رہی تھی جو ملتان کے ایک ڈاکٹر نے تجویز کی تھی۔ کئی فارمیسیوں سے خالی ہاتھ لوٹا تو مسٹر جناح کا معصوم بوڑھا چہرہ میری نم ہوتی آنکھوں میں یوں اُمڈ آیا کہ صنوبر کے قدیم پیڑ دھندلے سے ہونے لگے۔ زیارت کا یہ علاقہ اپنے قدرتی حسن کی بنا پر انیسویں صدی کے وسط میں انگریز پولیٹیکل ایجنٹ کی نظر میں آ گیا اور پھر 1882 میں یہاں ریذیڈنسی بنا دی گئی۔ 1887 میں اسے برطانوی حکومت نے استعمال کرنا شروع کیا۔ زیارت کا قدیم نام کوشی تھا۔ اٹھارویں صدی میں ایک خراوری نام کے بزرگ تھے۔ وہ فوت ہوئے تو اس کو جنوب میں 9 کلو میٹر دور دفن کر کے مزار بنایا گیا۔ لوگ اس مزار کی زیارت کرنے آتے تھے، اس نسبت سے اس کا نام زیارت پڑ گیا۔ 1886 میں اسے باقاعدہ زیارت کا نام دیدیا گیا۔ 1903 میں اسے ضلع سبی کا گرمائی مقام قرار دیا گیا۔ 1974 میں اسے تحصیل اور 1986میں ضلع کا درجہ دیا گیا۔ ریذیڈنسی کے اندر داخل ہوئے تو آگے پیچھے اور اوپر نیچے چار چار کمرے ہیں۔ دائیں پہلے کمرے میں جہاں دو میزیں سائیڈ پر اور ایک درمیان میں ہے جس کے ساتھ چار کرسیاں دھری ہیں۔ یہاں قائد اعظم کھانا کھاتے تھے۔ اس کمرے میں لکڑی ایک سٹینڈ ہے جس میں پیتل کا تھال لٹکا ہوا ہے جو گھنٹی کا کام دیتا تھا۔ چونکہ اس زمانے میں یہاں بجلی کا نظام نہ تھا اس لیے تھال بجا کر گھنٹی کا کام لیا جاتا تھا اور ویٹر یا خدمت گزار کو بلایا جاتا تھا۔ اس کمرے میں اب قائد اعظم کا لباس کوٹ اور تحریک پاکستان کے دور کی تصاویر آویزاں ہیں۔ اس کمرے کے بالکل سامنے بائیں طرف کے پہلے کمرے میں قائد اعظم مہمانوں سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ دائیں طرف کا پہلے والا کمرہ قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید کے لیے مخصوص تھا جو بعد میں آزاد کشمیر کے صدر بھی بنے اور گوجرانوالہ میں ایک حادثہ کا شکار ہو گئے تھے۔ اس کے بالمقابل بائیں جانب والے کمرے میں قائد اعظم کا دفتر تھا۔ اس طرح ان چاروں کمروں کے درمیان میں چوبی برآمدہ ہے جس کے قدمچے پتھر کے ہیں۔ اوپر بھی نیچے کی طرح دائیں بائیں دو دو کمرے ہیں۔ بالائی منزل پر بائیں ہاتھ کا پہلا کمرہ قائد اعظم کا بیڈ روم تھا جبکہ دائیں ہاتھ کا پہلا کمرہ ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کا بیڈ روم تھا۔ اس کمرے کا دروازہ کھلا ہو تو قائداعظم کا کمرہ واضح نظر آتا ہے۔ قائد اعظم کے بیڈ روم میں ایک ڈریسنگ ٹیبل ہے جبکہ دوسری طرف کرسی میز ہے جہاں وہ اپنے قیام کے دوران حکومتی فرائض سر انجام دیتے تھے۔ اب اس کمرے میں ان کی جوانی کے دور کی تصاویر آویزاں ہیں اور لکڑی کی وہ ٹوکری بھی ہے جو ان کے زیر استعمال رہتی تھی۔ اس سے پیچھے والے کمرے میں بیڈ روم تھا جبکہ محترمہ فاطمہ جناح کے کمرے کے پیچھے والا کمرہ مہمانوں کے لیے مخصوص تھا۔ بالائی منزل پر بھی ان کمروں کے آگے برآمدہ اور کوریڈور ہے جہاں سے ریذیڈنسی کا احاطہ واضح نظر آتا ہے۔ ریذیڈنسی کے احاطہ میں اخروٹ اور چنار کے درخت ہیں جو ریزیڈنسی کے قیام کے وقت لگائے گئے تھے۔ تمام کمروں کا فرنیچر قائد اعظم کے دور کا تھا مگر کچھ شرپسندوں نے پندرہ جون دو ہزار تیرہ میں بم دھماکوں سے حملہ کیا تو سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا مگر پھر تمام سامان قدیم انداز میں بنایا ہے، اسی طرز پر لکڑی سے عمارت بنائی اور سجائی گئی۔ اس دور میں یہاں بجلی نہیں تھی اس لیے جنریٹر استعمال کیا جاتا تھا۔ اب 2025 میں بھی لوڈ شیڈنگ تھی۔ پوری عمارت کے اکتیس دروازے اور اڑتالیس کھڑکیاں ہیں جبکہ ملازمین کے لیے عمارت کے پیچھے کوارٹرز ہیں۔ ریذیڈنسی زیارت جہاں قائد اعظم نے اپنی زندگی کے آخری دور کے دس یوم گزارے۔ سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ بلند ہے۔ 1891-92 میں اس کی تعمیر پر 39012 روپے کی رقم خرچ کی گئی۔ گورنر جنرل کے نمائندہ اے جی جی اور چیف کمشنر یہاں موسم گرما کی چھٹیاں گزارتے تھے۔ قائد اعظم کے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارنے کے سبب 1985 میں صدر ضیاالحق نے اسے قومی یادگار قرار دیتے ہوئے آثارِ قدیمہ میں شامل کر دیا اور اس عمارت کا نام قائد اعظم ریذیڈنسی رکھ دیا گیا۔ 7 جنوری 1989 کو سینیٹ آف پاکستان نے اس کی منظوری بھی دیدی تھی۔ ہم زیارت میں ہزاروں برس پرانے صنوبر کے وہ درخت دیکھنے آئے تھے جو ایک صدی میں صرف تین انچ بڑھتے ہیں مگر ان درختوں سے جھانکتی قائد اعظم کی یادوں نے ہمیں مزید اداس کر دیا۔ زیارت میں جب برف باری شروع ہوئی تو شام کے سائے اس روشن یادگار کو اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے۔ شام کے آثار داخلی دروازے پر لگی افتتاحی تختی پر کنندہ جسٹس فائز عیسیٰ کے نام اور ایک کونے میں لگے نیم مردہ پودے کے پاس آہنی پلیٹ پر لکھے سابق وزیر اعظم عمران خان کے حروف سے یکساں نمایاں تھے۔ قائد اعظم کے آخری ایام کی حقیقت کی طرح اس لان کی گھاس بھی برف کے سفید گالوں میں چھپ چکی تھی۔ کھلے صحن میں پھیلی تاریخی تنگدستی ہمیں الوداع کہہ رہی تھی اور ہمارا ڈرائیور ڈی آئی جی پولیس زیارت کے بنگلے کے سامنے گاڑی سٹارٹ کر کے ہمارا منتظر تھا۔ پولیس میس کی کھڑکیوں سے جنریٹر کی توانائی سے روشن مرکری بلبوں کی روشنی جھانکتی تھی اور قائد اعظم کے کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: قائد اعظم کے زیارت کا جاتا تھا تھا اور اعظم کا دیا گیا بیڈ روم کے لیے کے دور

پڑھیں:

کوئٹہ، محکمہ تعلیم کی تنظیموں کے احتجاج کے باعث بورڈ امتحانات ملتوی

اساتذہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ چیئرمین بورڈ کی تعیناتی غیر قانونی ہے، انکی تعیناتی کا نوٹیفکیشن منسوخ ہونے تک احتجاج جاری رہیگا۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان بورڈ نے محکمہ تعلیم سے منسلک متعدد تنظیموں کے بائیکاٹ کے باعث انٹرمیڈیٹ کے امتحانات ملتوی کر دیئے۔ بورڈ آفس کے مطابق انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے نئے ڈیٹ شیٹ کا اعلان چند روز میں کر دیا جائے گا۔ محکمہ تعلیم سے وابستہ متعدد تنظیموں نے چیئرمین بورڈ کی تعیناتی پر اعتراض اٹھاتے ہوئے امتحانات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ انکا کہنا ہے کہ چیئرمین کی تعیناتی BBISE ایکٹ 2019 کے برخلاف ہے، احتجاج کا سلسلہ چیئرمین تعیناتی کے نوٹیفکیشن کی منسوخی تک جاری رہے گا۔ دوسری جانب اس امر سے طلباء شدید متاثر ہوئے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ ان پر امتحانات کا دباؤ ہے۔ تاہم امتحانات ملتوی ہونے سے وہ اس دباؤ میں مبتلا رہیں گے۔ طلباء کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مستقبل سے متعلق پریشان ہیں۔ حکومت جلد از جلد معاملات کو حل کرکے امتحانات منعقد کروائے۔

متعلقہ مضامین

  • کوئٹہ: افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کنٹینر سے 2600 کلو افیون برآمد
  • کوئٹہ، محکمہ تعلیم کی تنظیموں کے احتجاج کے باعث بورڈ امتحانات ملتوی
  • کراچی میں رواں سال کے 110 روز میں مجموعی ٹریفک حادثات میں 289 شہری جاں بحق
  • جے یو آئی بلوچستان کا فلسطین کے حق میں ملین مارچ نکالنے کا اعلان
  • شہر قائد میں رینجرز اورسی ٹی ڈی کی کارروائی، انتہائی مطلوب دہشتگرد گرفتار
  • کراچی آج ہیٹ ویو کی لپیٹ میں، ماہرین نے شہریوں کو خبردار کردیا
  • آصف زرداری سندھ کا پانی بیچ کر آنسو بہا رہے ہیں، قائد حزب اختلاف
  • کوئٹہ میں افغان مہاجرین کی تذلیل کی جا رہی ہے، سماجی و سیاسی رہنماء
  • آصف زرداری سندھ کا پانی بیچ کر آنسو بہا رہے ہیں، قائد حزب اختلاف عمر ایوب
  • بلوچستان: موسم خشک اور گرم رہنے کی پیش گوئی