آزاد ہو یا مقبوضہ کشمیر… کشمیر ہے
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
بھارتی حکومت اور فوج کے سربراہ کشمیر میں آزادی کے لیے سرگرم کشمیری مجاہدین سے پریشان ہیں، کشمیر میں لاکھوں فوجیوں کو تعینات کرنے بعد بھی اب وہاں اضافی افواج تعینات کرنے کی ضرورت اس بات کا ثبوت ہے۔ اگرچہ بھارت کے وزیرداخلہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے آرٹیکل 370 کو ہٹا کر جموں و کشمیر سے دہشت گردی کو ختم کیا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ کشمیر میں ہندو اکثریتی علاقوں میں بھی مسلح حملوں کے بعد بھارتی سیکورٹی ادارے تشویش میں مبتلا ہیں۔ اسی جھینپ کو مٹانے کے لیے بھارتی آرمی چیف یہ کہہ رہے ہیں کہ مقبوضہ بھارتی قابض کشمیر میں 80 فی صد عسکریت پسندوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ بھارتی وزیر دفاع آزاد کشمیر کو بھارت کا حصہ ہونے کی بات کرتے ہیں۔ کشمیر آزاد ہو یا مقبوضہ کشمیر… کشمیر ہی ہے۔ ان کی زبان، رہن سہن تمدن ایک ہے۔ انہیں کسی طرح بھی غیر ملکی دہشت گرد نہیں کہا جاسکتا۔ دراصل اس طرح کے بیانات کے ذریعے بھارتی حکومت کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں چھپانے کے لیے دے رہی ہے۔ اپنے آمرانہ ہتھکنڈے اختیار کرکے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو دبانے کے لیے اختیار کررہی ہے۔ جسے بھارتی حکومت امن کہہ رہی ہے وہ لوگوں کی خاموشی ہے جس کے لیے انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے جب کشمیری عسکریت پسند بھارتی افواج کو نشانہ بناتے ہیں وہاں کے لوگوں پر پکڑ دھکڑ اور تشدد کیا جاتا ہے۔ کسی ایک جگہ بھی ایسا ہو تو درجنوں شہریوں کو پوچھ گچھ کے لیے فوجی کیمپوں میں طلب کیا جاتا ہے۔
نومبر میں چہاس کے علاقے کے عینی شاہدین کے مطابق بلائے گئے سبھی قیدی نیم مردہ حالت میں کیمپ سے باہر پھینکے گئے جن کے جسموں پر مارپیٹ کے نشانات تھے۔ بعد میں انہیں چار پائیوں پر ڈال کر اسپتال پہنچایا گیا۔ گائوں کے لوگوں کو فوج کے افسر کی طرف سے منہ بند رکھنے کا کہا گیا۔ چند ماہ پہلے پیر پنجال کے علاقے ضلع پونچھ میں ایسی ہی حراست کے دوران کئی عام شہریوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔ کشمیری عوام جانتے ہیں تنقید اور احتجاج پر فوراً گرفتاری عمل میں آجاتی ہے۔ شہری پی ایس اے قانون (پبلک سیفٹی ایکٹ) اور دیگر قوانین جو کشمیری عوام کے خلاف استعمال کیسے جاتے ہیں ان سے خوفزدہ ہیں کیوں کہ جو ایک دفعہ اس کے تحت پھنس جاتا ہے اس کے لیے جیل سے باہر آنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ان قوانین کے ذریعے کسی بھی ملزم کو برسوں مقدمہ چلائے بغیر جیل میں رکھا جاسکتا ہے۔
یو اے پی اے کی دفعات اتنی پیچیدہ ہیں کہ کسی ملزم کو ضمانت ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لہٰذا ان کے خوف سے لوگ بات ہی نہیں کرتے اگر کوئی صحافی اُن سے ان کی رائے پوچھتا ہے تو وہ کچھ بھی بولنے سے کتراتے ہیں۔ پھر صحافیوں کی زبان بند کروانے کے لیے ان کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے، ان کے گھروں میں چھاپے مارے جاتے ہیں، لوگ مقدمات اور گرفتاری کے خوف سے کوئی بات لکھنے اور بولنے سے ڈرتے ہیں ایسے میں کون احتجاج کرنے کی ہمت کرے۔ لوگ خاموش ہیں، کشمیر میں صورت حال نہ پرامن نہ نارمل ہے۔ ہر سڑک پر ہر جگہ فوج موجود ہے، کشمیری رہنما یا تو جیل میں ہیں یا جیل ہی میں بیماری کی حالت میں ربّ سے جاملے ہیں۔ شبیر شاہ، آفتاب شاہ، الطاف شاہ، یٰسین ملک، محمد اشرف خان کتنے ہی کشمیری رہنما ہیں جو جیل میں برسوں قید رہے اور آج تک قید ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق نظر بند ہیں، آج اگر کشمیر کے لوگ خاموش ہیں تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ان کے دل غلامی پر راضی ہوگئے ہیں۔ کشمیریوں کو آزادی ضرور حاصل ہوگی یہ اُن کے ایمان کا حصہ ہے، ان کا حق خودارادیت کوئی نہیں چھین سکتا۔ اقوام متحدہ نے 5 جنوری 1949ء کو کشمیریوں کا یہ حق تسلیم کیا تھا، کشمیر کی آزادی کا سورج پوری آب و تاب سے طلوع ہو کر رہے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جاتا ہے جیل میں کے لیے ہیں کہ
پڑھیں:
ظلم و جبر بھارت سے آزادی کا راستہ ہرگز نہیں روک سکتا, سرینگر میں پوسٹر چسپاں
دیواروں، ستونوں، کھمبوں وغیرہ پر چسپاں پوسٹروں میں لکھا ہے کہ شہداء کا خون ضرور رنگ لائے گا اور جموں و کشمیر بھارتی تسلط سے آزاد ہو گا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں پوسٹر چسپاں کیے گئے ہیں جن کے ذریعے تحریک آزادی کو بھارت کے تمام تر ظلم و ستم اور اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود جاری رکھنے کے کشمیریوں کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق آزادی پسند تنظیموں کی طرف سے سرینگر اور دیگر علاقوں میں چسپاں کیے گئے پوسٹروں میں لکھا ہے”ہم بھارتی جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کریںگے، ظلم و جبر بھارت سے آزادی کا راستہ ہرگز نہیں روک سکتا، ہم بھارتی ظلم و جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔“ دیواروں، ستونوں، کھمبوں وغیرہ پر چسپاں پوسٹروں میں لکھا ہے کہ شہداء کا خون ضرور رنگ لائے گا اور جموں و کشمیر بھارتی تسلط سے آزاد ہو گا۔ پوسٹر سماجی رابطوں کی سائٹوں ایکس، فیس بک وغیرہ پر بھی اپ لوڈ کیے گئے ہیں۔