ٹنڈوآدم (پ ر) علامہ ابوالحسنات، مولانا تاج محمود نے تحریک ختم نبوت میں نمایاں کردار ادا کیا، ان کی خدمات یاد رکھی جائیں گی، تنظیم تحفظ ناموس خاتم الانبیا پاکستان کے زیر اہتمام تحریک ختم نبوت 1953ء کے قائد علامہ ابوالحسنات قادری اور 1974ء میں تحریک ختم نبوت کے سرخیل موکانا تاج محمود فیصل آبادی کی یکساں یوم وفات 20 جنوری کو ان کی یاد میں دفتر ختم نبوت میں پر وقار محافظین ختم نبوت سیمینار منعقد کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے تنظیم تحفظ ناموس خاتم الانبیا کے سربراہ مفتی محمد طاہر مکی، قاری عبدالرحمان الحذیفی، رانا مختار راجپوت، شعیب شیخ، محافظین ختم نبوت کے مولانا جہانزیب بیہن، شبان ختم نبوت سندھ کے محرم علی راجپوت، حافظ اشرف ماکوڑانی، پاسبان ختم نبوت کے حافظ میر اُسامہ سموں و دیگر علما کرام نے کہا کہ علما اور عاشقان رسول نے لاکھوں جانیں قربان کرکے قادیانیوں کو کافر قرار دلوایاہے، یہ مسئلہ آسانی سے حل نہیں ہوا، اس کی حفاظت کریں گے، 1953ء میں صرف مال روڈ لاہور پر 30 ہزار مسلمانوں کو اس نعرے پر شہید کیا گیا کہ وہ ختم نبوت زندہ باد کہتے جاتے اور گولی چلتی جاتی تھی، تحریک کی قیادت بریلوی عالم دین علامہ سید ابوالحسنات قادری نے کی لیکن خواجہ ناظم الدین کے ظلم نے فی الوقت تحریک کو دبا دیا۔ مفتی طاہر مکی نے کہا 1974ء میں تحریک ختم نبوت کا آغاز فیصل آباد سے مولانا تاج محمود فیصل آبادی نے کیا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: تحریک ختم نبوت تاج محمود

پڑھیں:

قلم فروشی کا نوحہ

اسلام ٹائمز: ہم بحیثیت انسان ہمیشہ قلم فروشی کے قبیح اور مضر اثرات سے نبرد آزما رہے ہیں۔ شاہ پرستی، بے جا ستائش، کذب نویسی نے آنے والی نسلوں کو فکری اور نظری اندھیروں میں داخل کیا ہے اور نسلوں کی نسلیں ان تحریوں کے شکنجے میں زندگی برباد کرکے رخصت ہوئی ہیں، انسانی تہذیب کا جتنا نقصان اس قلم فروشی نے کیا ہے، شائد ہی کسی اور چیز نے کیا ہو۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے مابین ہمیشہ فیض جیسے سر پھرے موجود رہتے ہیں، جن کا کہنا ہے: "ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے، جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے" تحریر: سید اسد عباس

خداوند کریم نے سورۃ قلم میں کی آیت نمبر ایک میں عجیب قسم کھائی "ن اور قلم کی قسم۔" قلم سے جو کچھ بھی مراد لیا جائے، تاہم اس کا ظاہری معنی بہرحال خارج از امکان نہیں قرار دیا جاسکتا۔ قلم کی قسم یہ واضح کرتی ہے کہ قلم اور تحریر کی بڑی عظمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے علم، ہدایت اور انسانی ترقی کی بنیاد قرار دیا ہے۔ قلم وہ آلہ ہے، جس سے علم محفوظ ہوتا ہے، نسل در نسل منتقل ہوتا ہے اور انسانی تہذیب قائم ہوتی ہے۔ تحریر انسانوں کے درمیان حقوق و فرائض کو واضح کرتی ہے، اس لیے قلم انصاف کے قیام کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم سکھایا اور قلم اس علم کا سب سے اہم وسیلہ ہے۔ اسی لیے سورۃ علق میں فرمایا "جس نے قلم کے ذریعے سکھایا۔" شائد یہی وجہ ہے کہ ادب اور بالخصوص صحافت میں قلم کی حرمت پر بہت زور دیا جاتا ہے۔

آج لکھنے والوں پر تحقیق کے باقاعدہ علوم تشکیل پا چکے ہیں۔ علم الرجال ہمیں لکھاریوں کی صداقت، امانت اور دیانت کا علم عطا کرتا ہے۔ زیر نظر تحریر قلمبند کرنے کا سبب پاکستانی اخبارات کے کالم نویسوں کی تحریریں ہیں۔ میں ایک طویل عرصے سے پاکستان میں شائع ہونے والے اردو اور انگریزی اخبارات کے کالم نویسوں کی تحریریں دیکھ رہا ہوں، جنھیں دیکھ کر مجھے شدت سے احساس ہوتا ہے کہ حرمت تحریر و قلم اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ یقیناً حق لکھنا ایک مشکل کام ہے، تاریخ انسانی میں بہت سے ایسے انسانوں کا تذکرہ موجود ہے، جن کی حق گوئی کے سبب انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سقراط کو نوجوانوں کو سوال سکھانے پر زہر کا پیالہ پینا پڑا، ارسطو کو حق گوئی کے سبب ایتنز سے جلاوطنی برداشت کرنی پڑی، جوردانو برونو کو چرچ نے زندہ جلا دیا، نیلسن مینڈیلا اپنی تحریروں کے سبب 27 برس قید رہے۔

مسلم مولفین میں امام احمد بن حنبل، امام ابو حنیفہ، امام مالک بن انس، امام حاکم کو حکومتی سختیوں کو برداشت کرنی پڑیں۔ انگریز دور  کے لکھاریوں میں سر سید احمد خان، مہاتما گاندھی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ابو الکلام آزاد، عبد اللہ سندھی، مولانا حسین احمد مدنی، سید سلمان ندوی، پریم چند، اکبر الہ آبادی، عبد الماجد دریابادی، ڈپٹی نذیر احمد، مہر چند کھتری، بال گنگا دھر تلک، آنند موہن بوس، سبھاش چندر بوس مختلف صعوبتوں کا نشانہ بنے۔ پاکستان بننے کے بعد سید ابو الاعلی مودودی، فیض احمد فیض، حبیب جالب، جمیل الدین عالی، احمد ندیم قاسمی، جوش ملیح آبادی، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، کرشن چندر، عبد اللہ ملک، مولانا چراغ حسین حسرت، مولانا ظفر علی خان مشکلات سے دوچار رہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

تاہم جو صورتحال اس وقت پاکستانی اخبارات میں دیکھنے کو مل رہی ہے، میرے لیے حیران کن ہے۔ ویسے تو تاریخ انسانی میں قلم فروشوں کی کمی نہیں ہے، تاہم جس تعداد میں آج ہمیں قلم فروشوں کا سامنا ہے، شائد ہی کبھی رہا ہو۔ حق بات نہ کہہ سکنا یا نہ لکھ سکنا الگ بات ہے اور باطل کی خوشامد اور ترجمانی کرنا ایک الگ قصہ۔ میں کسی بھی ایسے لکھاری کا نام نہیں لکھنا چاہتا، جو دوسری صنف سے ہے، مگر ہمارے پرنٹ میڈیا پر ان کی بہتات ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ان قلم فروشوں کی علمی زندگی بہت کم ہوتی ہے اور حرمت قلم و تحریر کا پاس رکھنے والے تادیر یاد رکھے جاتے ہیں، تاہم تحریر کے آئندہ نسلوں پر اثرات سے خوف آتا ہے۔

ہم بحیثیت انسان ہمیشہ قلم فروشی کے قبیح اور مضر اثرات سے نبرد آزما رہے ہیں۔ شاہ پرستی، بے جا ستائش، کذب نویسی نے آنے والی نسلوں کو فکری اور نظری اندھیروں میں داخل کیا ہے اور نسلوں کی نسلیں ان تحریوں کے شکنجے میں زندگی برباد کرکے رخصت ہوئی ہیں، انسانی تہذیب کا جتنا نقصان اس قلم فروشی نے کیا ہے، شائد ہی کسی اور چیز نے کیا ہو۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے مابین ہمیشہ فیض جیسے سر پھرے موجود رہتے ہیں، جن کا کہنا ہے:
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

متعلقہ مضامین

  • ٹنڈو جام : گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول میں بچوں میں گرم جیکٹس کی تقسیم کے بعد پرنسپل اخترآرائیں کے ساتھ گروپ فوٹو
  • ٹنڈو جام : سینٹرل ویٹرنری ریسر چ لیبارٹری میں موجو د جانور ۔دوسری تصویر میں منگوائے گئے نمک کا لیٹر
  • ٹنڈو جام گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول میں طلبہ میں گرم جیکٹس کی تقسیم
  • ٹنڈو جام،سینٹرل وینٹری ریسرچ لیبارٹری میں بے ضابطگی کا انکشاف
  • ٹنڈو الہیار میں میں ای ٹکٹنگ اورای چالان کا آغاز
  • حیدر آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کا آگاہی سیمینار
  • قلم فروشی کا نوحہ
  • عمران خان نے مذاکرات کا اختیار محمود اچکزئی اور علامہ راجہ ناصر عباس کو دیا ہے، سہیل آفریدی
  • بھارت مقبوضہ کشمیر میں سنگین جنگی جرائم میں ملوث ہے، مقررین
  • شاہ محمود قریشی ہسپتال سے ڈسچارج، کوٹ لکھپت جیل منتقل