Al Qamar Online:
2025-04-22@01:36:12 GMT

امریکی صدور کی جان نشین کو خط لکھنے کی روایت کا اہم موڑ

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

امریکی صدور کی جان نشین کو خط لکھنے کی روایت کا اہم موڑ

ویب ڈیسک — 

اب سے چار دہائیاں قبل امریکہ کے صدر رونلڈ ریگن نے اپنے دور اقتدار کے اختتام پر اپنے جان نشین کے نام خط میں ایک نوٹ لکھنے کی روایت شروع کی جو اب تک تسلسل سے جاری ہے کیونکہ ہر سبکدوش ہونے والا صدر وائٹ ہاؤس کے نئے مکین کے لیے ایک خط چھوڑ کر جاتا ہے۔

اس سال جب 20 جنوری کو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی چار سالہ مدت صدارت کا آغاز کریں گے تو یہ امریکی تاریخ اور سیاست کا ایک انوکھا موڑ ہو گا۔

چار سال قبل ٹرمپ نے موجودہ صدر جو بائیڈن کے لیے صدارتی اوول آفس کے ڈیسک پر ایک نوٹ چھوڑا تھا۔

اور اب اگر صدر بائیڈن نئے صدر کے لیے ایک خط چھوڑیں گے تو یہ ایک بے مثال موڑ ہو گا۔




اس طرح بائیڈن تاریخ کے پہلے صدر ہوں گے جن کے لیے چار سال قبل ان کے پیش رو نے ایک نوٹ لکھا اور پھر چار سال بعد اب بائیڈن اسی پیش رو کے لیے جان نشین کے طور پر خط لکھیں گے۔

ٹرمپ انیسویں صدی کے طویل عرصے کے بعد چار سال کے وقفے کے بعد اپنے دوسرے صدارتی دور کا آغاز کرنے والے واحد امریکی صدر ہوں گے۔

ان نوٹس میں کیا کیا لکھا گیا؟

ریگن نے اپنے آٹھ سال تک ان کے ساتھ نائب صدر رہنے والے نو منتخب صدر ایچ ڈبلیو بش کے نام ایک نوٹ لکھنے اس روایت کا آغاز کیا لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ مستقل روایت بن جائے گی۔ خبر رساں ادارے "ایسوسی ایٹڈ پریس” نے مورخین کے حوالے سے ان نوٹس کی کچھ دلچسب تفصیلات رپورٹ کی ہیں۔

ریگن نے بش کے نام نوٹ لکھنے کے لیے ایک ایسے کاغذ کا انتخاب کیا جس پر کارٹونسٹ ساندرا بوانٹون کی ایک ہاتھی کی بنائی ہوئی تصویر تھی اور اس پر ری پبلیکن پارٹی کا ٹرکی پرندوں میں گھرا ہوا علامتی میسکاٹ بنا ہوا تھا جس پر لکھا تھا "ٹرکی (پرندہ) کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں۔”

اوول آفس کی صدارتی میز کے دراز میں رکھے اس خط میں ریگن نے بش سینئر کو مخاطب کر کے لکھا کہ انہیں بھی”اس قسم کی اسٹیشنری یا کاغذات استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ اسے اپنے پاس رکھیں۔”




نئے صدر کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے ریگن نے لکھا کہ وہ ان کے ساتھ کیےگئے لنچ یاد کیا کریں گے۔

بش سینیئر نے اپنے جان نشین بل کلنٹن کو 1992 کے الیکشن کے بعد ان کی صدارت کے آغاز سے قبل ایک نوٹ لکھ کر اس روایت کو برقرار رکھا۔

بش نے اس تمنا کا اظہار کیا کہ کلنٹن کا وائٹ ہاؤس میں قیام خوشگوار ہو گا۔

ساتھ ہی انہوں نے خبر دار کیا کہ مشکل وقت میں ان کو تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے حالات اور بھی دشوار بن جاتے ہیں۔ "لیکن آپ اپنے نقادوں کو اجازت نہ دیں کہ وہ حوصلہ شکنی کر کے آپ کو اپنے راستے سے ہٹا دیں۔”

انہوں نے مزید لکھا،”آپ کی کامیابی ہمارے ملک کی کامیابی ہے ۔ میں آپ کے ساتھ ہوں۔”




اسی طرح کلنٹن نے اپنے آٹھ سالہ دور اقتدار کے بعد نئے آنے والے صدر جارج ڈبلیو بش کے نام ایک نوٹ لکھا جس میں صدارت کے عہدے پر کام کرنے کو عزت کا عظیم مقام قرار دیتے ہوئے بش کی کامیابی اور مسرت کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

آٹھ سال بعد بش نے بھی نئے صدر اوباما کو مبارک باد کے پیغام کے ساتھ عہدہ صدارت کو اوباما کے لیے زندگی کے ایک عظیم باب سے تعبیر کیا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اس میں مشکلات بھی درپیش ہو سکتی ہیں جس دوران دوست انہیں مایوس کر سکتے ہیں اور ناقدین انہیں برہم کر سکتے ہیں۔

اوباما نے ٹرمپ کے نام اپنے پیغام میں زبردست انتخابی مہم چلانے پر انہیں مبارک باد دی اور انہیں بتایا کہ دنیا کے لیے "امریکی قیادت ناگزیر” ہے اور "امریکی جمہوری اداروں اور روایات کے محافظ ہیں۔”

ٹرمپ نے بائیڈن کے نام جو نوٹ لکھا ہے اس کی تفصیل ابھی تک سامنے نہیں آئی۔

(اس خبر میں شامل تفصیلات اے پی سے لی گئی ہیں)

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان کھیل چار سال ایک نوٹ نے اپنے کے ساتھ ریگن نے کے بعد کے لیے کے نام

پڑھیں:

فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری

غزہ کی صورتحال، فلسطین کی صورتحال، دن بدن نہیں لمحہ بہ لمحہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتی جا رہی ہے اور اسرائیل تمام اخلاقیات، تمام قوانین، تمام معاہدات کو پامال کرتے ہوئے اس درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اس پر دنیا کی خاموشی بالخصوص عالمِ اسلام کے حکمرانوں پر سکوتِ مرگ طاری ہے۔ مجھے تو بغداد کی تباہی کا منظر نگاہوں کے سامنے آ گیا ہے، جب تاتاریوں کے ہاتھوں خلافتِ عباسیہ کا خاتمہ ہوا تھا، بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی، اور اس وقت بھی کم و بیش یہی صورتحال تھی، آج پھر ’’بغداد‘‘ کی تباہی کا منظر ہمارے سامنے ہے، اسرائیل اور اس کے پشت پناہ، آج وہ چادر جو انہوں نے اوڑھ رکھی تھی، مغرب نے، امریکہ نے، یورپی یونین نے، عالمی طاقتوں نے، انسانی حقوق کی، بین الاقوامی معاہدات کی، انسانی اخلاقیات کی، وہ آج سب کی چادر اسرائیلی درندگی کے ہاتھوں تار تار ہو چکی ہے۔لیکن اس سے زیادہ صورتحال پریشان کن، اضطراب انگیز یہ ہے کہ مسلم حکمران بھی اسی مصلحت کا، مصلحت نہیں بے غیرتی کا شکار ہو گئے ہیں۔ آج او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کو، عرب لیگ کو، مسلم حکمرانوں کو، جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ اس کے لیے مل بیٹھ کر سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اور امتِ مسلمہ، عالمِ اسلام سناٹے کے عالم میں اپنے حکمرانوں کو دیکھ رہی ہے کہ یہ ہمارے ہی حکمران ہیں، کون ہیں یہ؟لے دے کے دینی حلقوں کی طرف سے دنیا بھر میں کچھ نہ کچھ آواز اٹھ رہی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ملتِ اسلامیہ بحیثیت ملتِ اسلامیہ اپنے حکمرانوں کے ساتھ نہیں، اپنی دینی قیادتوں کے ساتھ ہے جو کسی نہ کسی انداز میں اپنی آواز بلند کر رہے ہیں، اس آواز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔میں اس موقع پر دنیا بھر کے دینی حلقوں سے، علماء کرام سے، یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ آج کی صورتحال کو سمجھنے کے لیے تاتاریوں کی یلغار اور بغداد کی تباہی کا ایک دفعہ پھر مطالعہ کر لیں، کیا ہوا تھا؟ کس نے کیا کیا تھا؟ اور کون سے حلقے تھے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کی تباہی کی راہ ہموار کی تھی اور کون سے لوگ تھے جنہوں نے اس وقت ملتِ اسلامیہ کو سہارا دیا تھا؟ مجھے اس وقت کی دو بڑی شخصیتیں ذہن میں آ رہی ہیں (۱) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ اور (۲) شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلام رحمہ اللہ تعالیٰ، دینی قیادت تھی، سامنے آئے تھے، امت کو سنبھالا تھا، مقابلہ کر سکے یا نہ کر سکے، امت کو سنبھالنا، امت کا حوصلہ قائم رکھنا، اور اپنے مشن کے تسلسل کو قائم رکھنا، یہ تو بہرحال بہرحال دینی قیادتوں کی ذمہ داری ہے، علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ حمیت کو باقی رکھیں، غیرت کو باقی رکھیں۔تو میری پہلی درخواست تو علماء کرام سے ہے، کسی بھی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی فقہی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، کہ آج شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلامؒ کے کردار کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ویسے تو فقہاء نے لکھا ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمان مظلوم ہوں، ذبح ہو رہے ہوں، تو دنیا بھر کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے، ہماری فقہی صورتحال تو یہ ہے، درجہ بدرجہ ’’   علی الاقرب فالاقرب‘‘  ،   ’’الاول فالاول‘‘۔ لیکن بہرحال مجموعی طور پر ہم امتِ مسلمہ پر جہاد کی فرضیت کا اصول اس وقت لاگو نہیں ہو گا تو کب لاگو ہو گا۔
لیکن بہرحال ہمیں اپنے اپنے دائرے میں امتِ مسلمہ کا حوصلہ قائم رکھنے کے لیے، بیدار رکھنے کے لیے، فکری تیاری کے لیے۔اور دو تین محاذ ہمارے ہیں: ایک تو یہ ہے کہ علماء کرام ہر علاقے میں ہر طبقے میں ہر دائرے میں اپنے کردار کو اپنے حوصلے کو قائم رکھتے ہوئے امت کا حوصلہ قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج ایک محاذ میڈیا وار کا بھی ہے، لابنگ کا بھی ہے، اس میں جو لوگ صلاحیت رکھتے ہیں ان کو کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور تیسرا محاذ بائیکاٹ کا ہے، اب تو یہ مرحلہ آ گیا ہے، اسرائیل نہیں، اس کے سرپرستوں کے معاشی بائیکاٹ کی بھی ضرورت پیش آ رہی ہے، اور یہ معاشی بائیکاٹ کوئی نئی چیز نہیں ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں معاشی بائیکاٹ حضورؐ کا بھی ہوا ہے، حضورؐ نے بھی کیا ہے۔ شعبِ ابی طالب میں حضورؐ کا ہوا تھا، غزوہ خندق میں حضورؐ نے کیا تھا۔ اور اس کی مختلف مثالیں موجود ہیں۔تو لابنگ کی جنگ، میڈیا کی جنگ، حوصلہ قائم رکھنے کی جنگ، اور معاشی بائیکاٹ، اس میں جس قدر ہم زیادہ توجہ دے سکیں۔ کوئی لکھ سکتا ہے تو لکھے، بول سکتا ہے تو بولے، خرچ کر سکتا ہے تو خرچ کرے، کوئی لوگوں کے ساتھ رابطے کر سکتا ہے تو رابطے کرے۔ جو بھی کسی میں صلاحیت ہے، آج یہ وقت ہے، جو بھی کسی کے پاس موقع ہے، توفیق ہے، صلاحیت ہے، وہ اس کو اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے، فلسطین کی آزادی کے لیے، اسرائیلی درندگی کی مذمت کے لیے، اس میں رکاوٹ کے لیے، مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی آزادی کے لیے، جو بھی کر سکتا ہے وہ کرے۔ہمارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ ایک مثال دیا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو ایک چڑیا چونچ میں پانی ڈالتی تھی، ایک پرندہ تھا، اس سے کسی نے پوچھا، تیرے پانی ڈالنے سے کیا ہو گا؟ اس نے کہا، ہو گا یا نہیں ہو گا، میری جتنی چونچ ہے اتنا پانی تو میں ڈالوں گی۔ یہ کم از کم کہ جو ہم کر سکتے ہیں وہ تو کریں، میں دیانت داری کے ساتھ (کہوں گا) کہ مجھے، سب کو اپنے اپنے ماحول کو دیکھنا چاہیے، اپنی اپنی توفیقات کو دیکھنا چاہیے اور جو کر سکتے ہیں اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے مظلوم فلسطینی بھائیوں پر رحم فرمائے، ہم پر رحم فرمائے۔ مولا کریم! فلسطین کی آزادی، غزہ کے مسلمانوں کی اسرائیلی درندگی سے گلوخلاصی، اور اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی بدمعاشی سے نجات دلانے کے لیے اللہ پاک ہمیں توفیق عطا فرمائیں اور خود مہربانی فرمائیں، فضل فرمائیں کہ اس مرحلے پر عالمِ اسلام کی، امتِ مسلمہ کی دستگیری فرمائیں، ان کو اس عذاب سے نجات دلائیں۔

متعلقہ مضامین

  • وزیر اعظم کل ترکیہ دورے پر روانہ ہوں گے
  • شہباز شریف کی تقاریر لکھنے والے ارشد محمود ملک کا تبادلہ وزیراعظم آفس کر دیا گیا
  • شہباز شریف کی تقاریر لکھنے والے ارشد محمود ملک کا تبادلہ وزیراعظم آفس کر دیا گیا
  • ’بچے کو بچالیں‘، سڑک پر کھڑے گولڈن کڈ کو دیکھ کر گلوکار بلال مقصود کی سوشل میڈیا پر جذباتی پوسٹ
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • چین کی بحری، لاجسٹکس اور جہاز سازی کے شعبوں کو ہدف بنانے کے امریکی اقدامات کی سخت مخالفت
  • بابر سلیم سواتی کرپشن الزامات سے بری، احتساب کمیٹی کی رپورٹ سامنے آگئی
  • ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ سے ملاقات
  • غیر قانونی بھرتیاں، اسپیکر کے پی اسمبلی کیخلاف احتساب کمیٹی کی تحقیقات مکمل، رپورٹ جاری
  • ظلم و جبر بھارت سے آزادی کا راستہ ہرگز نہیں روک سکتا