ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری، اہم خارجہ پالیسی سے متعلق اہم فیصلوں کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جنوری 2025ء) 78 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے سینتالیسویں صدر کا حلف اٹھا لیا ہے۔ 2017ء میں ٹرمپ نے ملک کے پینتالیسویں صدر کے طور پر منصب سنبھالا تھا۔ گو کہ اس وقت وہ سیاسی طور پر مقابلتاً نئے اور ناتجربہ کار تھے، اب البتہ کئی اہم سیاسی شخصیات اور کاروباری میدان کے بڑے بڑے نام ان کے ساتھ ہیں۔
فرانس اور یورپ کو ٹرمپ کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے، فرانسیسی وزیر اعظم
ٹرمپ کی فتح ریلی: صدارت کے پہلے ہی دن ایگزیکٹو آرڈرز کے بہت سے وعدے
مستقبل کے یوکرینی بفر زون میں جرمن فوجی تعیناتی ممکن، وزیر دفاع
انتہائی سرد موسم کی وجہ سے پیر بیس جنوری کے روز حلف برداری کی تقریب دارالحکومت واشنگٹن میں یو ایس کیپیٹول کی عمارت کے اندر منعقد ہوئی۔
(جاری ہے)
کیپیٹول کے دروازے پر سبکدوش ہونے والے صدر جو بائیڈن نے ٹرمپ کا استقبال اور بائیڈن نے روایت کے مطابق انہیں وائٹ ہاؤس میں چائے پیش کی۔ بائیڈن اور فرسٹ لیڈی جل بائیڈن نے اس موقع پر ٹرمپ اور ان کی بیوی میلانیا کو خوش آمدید کہتے ہوئے 'ویلکن ہوم‘ کہا۔حلف برداری کی تقریب سے اپنے خطاب میں ٹرمپ نے اپنی خارجہ پالیسی کے کلیدی نکات پر روشنی ڈالی۔
اس تناظر میں کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے جلد ہی مزید کئی اہم اعلانات متوقع ہیں۔ٹرمپ نے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کہا کہ امریکا کا زوال اب ختم ہو چکا ہے۔ انہوں نے اقتدار میں واپسی کو 'بدعنوان اور انتہا پسند اسٹیبلشمنٹ‘ کو مسترد کیے جانے سے تعمبیر کیا۔ صدر کے بقول امریکہ کا سنہری دور شروع ہو چکا ہے البتہ ملک کو درپیش چیلنجز سے حقیقت پسندانہ انداز سے نمٹنا ہو گا اور اعتماد کے بحران جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پیرس معاہدے سے دستبرداریڈونلڈ ٹرمپ نے تحفظ ماحول سے متعلق پیرس معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ صدر نے کہا کہ وہ جنوبی سرحد پر ایمرجنسی نافذ کر دیں گے۔ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ لاکھوں 'غیر قانونی مہاجرین‘ کو ملک بدر کر دیں گے۔ ٹرمپ نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ مریخ کی جانب خلاباز روانہ کریں گے۔
نیا تجارتی نظامامریکی صدر نے کہا کہ وہ امریکیوں کے مفاد کے لیے دیگر ممالک پر ٹیکس لگائیں گے۔
ساتھی ہی انہوں نے تجارتی نظام کو از سر نو تبدیل کرنے کا بھی عندیہ دیا اور کہا کہ امریکا کئی نئے نظام متعارف کرائے گا۔نو منتخب امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت صرف دو جنسوں کو تسلیم کرنے کی پالیسی اپنائے گی، مرد اور عورت۔
عالمی رہنماؤں کی جانب سے مبارک باداسرائیلی وزیر اعظم بینجمن یاہو نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے ٹرمپ کو مبارک باد دی اور کہا کہ دونوں ملکوں کے اتحاد کے سب سے اچھے دن ابھی آنا باقی ہیں۔
ٹرمپ نے 2017 سے 2021 کے درمیان اپنی پہلی صدارت میں کئی سفارتی فیصلے ایسے لیے تھے، جنہیں اسرائیل کے مفاد میں قرار دیا جاتا ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا، "مجھے یقین ہے کہ دوبارہ مل کر کام کرنے سے ہم امریکہ اسرائیل اتحاد کو مزید بلندیوں تک لے جائیں گے۔"
یوکرین کے صدر وولودومیر زیلنسکی نے کہا، ''صدر ٹرمپ ہمیشہ فیصلہ کن ہوتے ہیں، اور انہوں نے طاقت کی پالیسی کے ذریعے جس امن کا اعلان کیا ہے، وہ امریکی قیادت کو مضبوط کرنے اور ایک طویل المدتی اور منصفانہ امن کے حصول کا موقع فراہم کرتا ہے، جو کہ اولین ترجیح ہے۔
‘‘نیٹو کے سربراہ مارک رٹے نے کہا کہ ٹرمپ کی واپسی اتحاد میں "دفاعی اخراجات اور پیداوار کو ٹربو چارج کرے گی"۔
’’یورپی یونین عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے آپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا منتظر ہے،‘‘ بلاک کی چیف ارزولا فان ڈیئر لاین نے ایکس پر لکھا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹرمپ کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا، ''میں ایک بار پھر ایک ساتھ مل کر کام کرنے، ہمارے دونوں ممالک کو فائدہ پہنچانے اور دنیا کے لیے ایک بہتر مستقبل کی تشکیل کا منتظر ہوں۔‘‘
ع س / ع ا (نیوز ایجنسیاں)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ٹرمپ کی کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ کا تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان دوبارہ جنگ بندی کرانے کا دعویٰ
واشنگٹن:امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے سربراہان نے کئی روز جاری رہنے والے تصادم کے بعد بالآخر جنگ بندی بحال کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تھائی لینڈ کے وزیراعظم اینوٹن چیرنویراکول اور کمبوڈیا کے وزیراعظم ہون مینیٹ سے ٹیلیفونک رابطے کے بعد دونوں ممالک کے جنگ بندی پر متفق ہونے کا اعلان اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل میں کیا۔
ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ انہوں نے مکمل جنگ بندی پر اتفاق کرلیا ہے جس کا اطلاق آج شام سے ہوگا اور ملائیشیا کے عظیم وزیراعظم انوار ابراہیم کی مدد سے ہمارے ساتھ کیے گئے اولین امن معاہدے پر عمل کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ انوار ابراہیم نے ایک مرتبہ پھر تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کو دوبارہ جنگ روکنے کے لیے راضی کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
امریکی صدر نے کہا کہ تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے وزرائے اعظم کے ساتھ کام کرنا میرے لیے فخر ہے اور یہ کام دو خوش حال اور شان دار ممالک کے درمیان ممکنہ سنگین جنگی تصادم روکنا ہے۔
یاد رہے کہ رواں برس جولائی میں ملائیشیا کے وزیراعظم انوار ابراہیم کی ثالثی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں سے تھائی لینڈ اور کمبوڈیا نے جنگ بندی معاہدہ کیا تھا اور سرحد پر امن قائم کیا تھا اور اس معاہدے کی مزید تفصیلات اکتوبر میں سامنے آئی تھیں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے ملائیشیا میں منعقدہ علاقائی سربراہی اجلاس میں شرکت کی تھی۔
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان امن معاہدے کے باوجود تعلقات کشیدہ ہیں اور گزشتہ ہفتے دوبارہ جنگ شروع ہوئی تھی، دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف بدترین پروپیگنڈا مہم بھی چلاتے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان تنازع تاریخی طور پر سرحدی علاقوں میں دعوؤں کی بنیاد پر ہے اور یہ دعوے بڑے پیمانے پر 1907 میں بنائے گئے نقشے کی وجہ سے سامنے آئے تھے جب یہ نقشہ بنا تھا تو کمبوڈیا فرانس کی نوآبادیات تھی جبکہ تھائی لینڈ اس نقشے کو غلط قرار دیتا ہے۔
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان کشیدگی میں 1962 میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی وجہ سے اضافہ ہوا، فیصلے میں کبموڈیا کی خودمختاری کو تسلیم کیا تھا جس کو تھائی لینڈ کی اکثریت آج تک تسلیم نہیں کر رہی ہے۔