اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور الاؤنسز سے متعلق ترمیمی بل 2025 منظورکرلیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
سینیٹ کے اجلاس کے دوران اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور الاؤنسز سے متعلق ترمیمی بل 2025 منظور کرلیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق سینیٹر دنیش کمار نے ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور الائونسز سے متعلق ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کیا، اس دوران وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے بل کی مخالفت نہیں کی۔اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ بل کی منظوری پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے، قومی اسمبلی نے حال ہی میں ہاؤس فنانس کمیٹی کو تنخواہوں اور الائونسز سے متعلق اختیار دیا۔
وزیرقانون نے کہا کہ سینیٹ میں بھی ہائوس فنانس کمیٹی کو تنخواہوں اور الائونسز سے متعلق اختیار دیا جارہا ہے، دونوں ایوانوں میں اب یکساں پالیسی ہوگی، اس لیے مخالفت نہیں کی۔بیان کے مطابق اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور الاؤنسز سے متعلق ترمیمی بل 2025 کا مقصد پارلیمنٹ کو اپنے اراکین کے مالی معاملات سے متعلق خود مختار بنانا ہے۔بل کے متن کے مطابق سینیٹ ہاؤس فنانس کمیٹی اراکین کے مالی معاملات کا جائزہ لے گی، ارکان کے مالی معاملات میں پارلیمنٹ بااختیار ہوگی۔
اجلاس کے دوران دیت سے متعلق سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری کا بل قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے سپرد کردیا گیا۔وزیرقانون نے کہا کہ دیت کی کم سے کم حد متعین ہے لیکن زیادہ سے زیادہ دیت کی حد مقرر نہیں، راضی نامے کی صورت میں دیت طے کرنے کا حق ورثا اور متاثرہ شخص کے پاس ہے۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ورثاء دیت کی رقم پچاس کروڑ اور ایک ارب بھی مانگ سکتے ہیں، عدالت نے طے کرنا ہے کہ کتنی دیئت آرڈر کرنی ہے۔
اس کے علاوہ سینیٹر محسن عزیز کا اسلام آباد صحت عامہ انضباط ترمیمی بل 2025 متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ خیبرپختونخوا سے ہمارے سینیٹرز نہ ہونے کا ہمیں ایوان میں نقصان ہے ، ایک سال ہوگیا ہے خیبرپختونخوا میں سینٹ کا انتخاب نہیں ہوا۔اجلاس کے دوران سینیٹر عبدالقادر کا دستور ترمیمی بل 2025 بھی متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔
اجلاس کے دوران قومی اسمبلی سیکرٹریٹ ملازمین ترمیمی بل 2024 سینیٹ سے منظور کرلیا گیا۔قومی اسمبلی پہلے ہی قومی اسمبلی سیکرٹریٹ ملازمین ترمیمی بل 2024 کی منظوری دے چکی ہے، بل سینیٹرز محسن عزیز کی جانب سے پیش کیا گیا۔سینیٹ اجلاس میں پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی ترمیمی بل سے متعلق تحریک مسترد کردی گئی۔
اسلام آباد میں سینیٹ اجلاس کےدوران شبلی فراز نے پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی ترمیمی بل کے متعلق تحریک پیش کی، جس میں کہا گیا کہ پاکستان کی بہت سی مصنوعات عالمی معیار کے مطابق نہیں۔سینیٹر شبلی فراز کا کہنا تھاکہ پاکستان کی مصنوعات برآمد کے لیے عالمی معیار کے مطابق نہیں ہوتیں، پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی ایک کرپٹ ادارہ بن چکا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اتھارٹی کو کراچی سے اسلام آباد لانے سے اس کی کارکردگی بہتر ہوگی۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اجلاس کے دوران قومی اسمبلی نے کہا کہ کے مطابق
پڑھیں:
نیشنل جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کا جبری گمشدگیوں اور کمرشل مقدمات پر مؤثر ردعمل کا فیصلہ
چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی—فائل فوٹونیشنل جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی نے جبری گمشدگیوں کے مقدمات پر موثر ادارہ جاتی ردعمل پر اتفاق کیا ہے۔
کمیٹی کا 56 واں اجلاس چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی زیرِ صدارت ہوا، جس میں وفاقی آئی ٹی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان، تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز نے بھی شرکت کی۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس میں جبری گمشدگیوں اور کمرشل مقدمات پر مؤثر ردعمل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
کمیٹی نے جبری گمشدگیوں کے مقدمات پر مؤثر ادارہ جاتی ردِعمل اور گرفتار ملزم کو 24 گھنٹے میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہ کرنے پر نیا میکنزم لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں دیگر اہم فیصلوں میں کمرشل مقدمات کے جلد فیصلوں کے لیے کمرشل لٹیگیشن کوریڈور کا نفاذ، مقدمات کے فیصلوں کے لیے مقررہ ٹائم لائنز پر سختی سے عمل درآمد اور عدالتوں میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے استعمال کے لیے قومی گائیڈ لائنز کی تیاری شامل ہیں۔
کمیٹی نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے 4 لاکھ 65 ہزار سے زائد مقدمات نمٹانے کے ریکارڈ کو سراہا جبکہ پشاور ہائی کورٹ کے وراثتی مقدمات کے نظام کی تعریف کی اور تمام ضلعی عدالتوں میں ای فائلنگ کے فوری آغاز کی منظوری دی۔
اجلاس میں 2019ء تک کے تمام پرانے وراثتی کیسز کو 30 دن میں نمٹانے کی ہدایت کی گئی اور جیل اصلاحات پر صوبائی حکومتوں سے مشاورت کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس میں جیل اصلاحات پر صوبائی حکومتوں سے مشاورت کا فیصلہ کیا گیا جبکہ خواتین اور خاندانی سہولت مراکز کے قیام کی اصولی منظوری دی گئی۔
اجلاس میں انصاف تک رسائی فنڈ کے تحت 2 ارب 58 کروڑ سے زائد کے فنڈز جاری کرنے اور عدالتوں کی سولرائزیشن کے لیے صوبائی حکومتوں سے اضافی فنڈز لینے کی ہدایت کی گئی۔