مرد اور عورت برابر نہیں، مرد کا درجہ زیادہ ہے، صبا فیصل
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
کراچی(شوبز ڈیسک)سینیئر اداکارہ صبا فیصل نے کہا ہے کہ مرد اور عورت کبھی برابر نہیں ہو سکتے، خدا نے مرد کا رتبہ اور درجہ بڑا رکھا ہے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
صبا فیصل نے حال ہی میں احمد علی بٹ کے پوڈکاسٹ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے مختلف معاملات پر کھل کر بات کی۔
پروگرام کے دوران ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شادی کے وقت انہیں ان کی والدہ نے ہدایت کی تھی کہ وہ ہمیشہ اپنے شوہر سے ایک قدم نیچے اور پیچھے رہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ نے انہیں ہدایت کی تھی کہ شوہر سے ایک قدم پیچھے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جب بھی پیچھے مڑ کر دیکھیں گی تو انہیں مدد کے لیے شوہر نظر آئیں گے۔
صبا فیصل کے مطابق اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مرد اور عورت برابر نہیں، خدا نے مرد کا رتبہ زیادہ رکھا ہے اور اس معاملے پر بات کرنے کو متنازع سمجھا جاتا ہے اور ان کی بات سے بھی بہت سارے لوگوں کو اختلاف ہوگا۔
اداکارہ نے کہا کہ انہوں نے والدہ کی بات پر عمل کرتے ہوئے شوہر کو ہمیشہ عزت دی، اسی وجہ سے ہی شوہر نے بھی انہیں عزت دی اور سر پر بٹھا کہ رکھا۔
صبا فیصل نے اعتراف کیا کہ شوہر نے انہیں ’سر‘ پر بٹھا رکھا ہے، کیوں کہ دونوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کی عزت دی۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے اور شوہر کے درمیان اختلافات بھی ہوتے ہیں لیکن کبھی ایک دوسرے کو بائی پاس نہیں کیا، انہوں نے کبھی شوہر کی رضامندی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا، وہ دلائل سے شوہر کو مطمئن اور راضی کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
سینیئر اداکارہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ شوہر کا رتبہ زیادہ ہے لیکن ایسے شوہروں کا درجہ بالکل بھی زیادہ نہیں جو کہ اپنی بیویوں کی عزت نہیں کرتے، انہیں برابر نہیں سمجھتے۔
اداکارہ نے اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے اپنی بیٹی سعدیہ فیصل کی تعریفیں کیں اور کہا کہ انہوں نے دیکھا ہے اور نوٹ کیا ہے کہ ان کی بیٹی بھی شوہر کو عزت دیتیں اور ان کے رتبے کا خیال کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی نہ صرف اداکاری اور شوبز کے معاملات دیکھتی ہیں بلکہ بچے کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے گھر کو بھی دیکھتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے داماد صبح ہوتے ہی دفتر چلے جاتے ہیں اور شام کو واپسی پر ان کی بیٹی شوہر کی خدمت کرتی ہیں اور پیشہ ورانہ زندگی کو بھی ساتھ ساتھ چلاتی ہیں۔
اسی پروگرام میں انہوں نے گھروں میں کام کرنے والی خواتین ملازماؤں کو گھروں میں ہونے والے فسادات کا سبب بھی قرار دیا اور کہا کہ کام والی خواتین گھر کے اہل خانہ کو الگ الگ اور غلط باتیں بتا کر ان کے درمیان اختلافات پیدا کرواتی ہیں۔
مزیدپڑھیں:نصرت ہدایت اللہ نے علی رحمٰن سے تعلقات پر خاموشی توڑ دی
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: برابر نہیں انہوں نے صبا فیصل نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
شوہر کے ظالمانہ طرزعمل پر خلع لینے والی خاتون کا حقِ مہر ساقط نہیں ہوتا، لاہور ہائیکورٹ
لاہور ہائیکورٹ سے متعلق ایک اہم فیصلہ دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ شوہر کی بدسلوکی کی وجہ سے شادی ٹوٹنے سے اس خلع لینے والی خاتون کا حق ختم نہیں ہوتا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس راحیل کامران نے مؤخر شدہ طلاق کے ایک اہم پہلو پر کو واضح کیا کہ اسلامی قانون اور نکاح نامہ کے تحت شوہر پر حق مہر اس وقت تک واجب ہے، جب تک کہ بیوی اس کی جانب سے کسی غلطی کے بغیر خلع (شادی توڑنے) کی درخواست نہ کرے۔
اسی کیساتھ ہی جسٹس راحیل کامران نے نوٹ کیا کہ عدالت میں زیر سماعت خصوصی معاملے میں خاتون نے اپنے شوہر کی طرف سے ظلم اور توہین آمیز رویے کے قابل اعتماد ثبوت فراہم کیے، جس کی وجہ سے اسے علیحدگی کی درخواست کرنا پڑی۔
وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہجسٹس راحیل کامران نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ خلع کا تصور سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 228 اور 229 پر مبنی ہے۔ انہوں نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر بیوی صرف اپنے شوہر سے ناپسندیدگی کی بنیاد پر خلع حاصل کرتی ہے تو اسے ملنے والا حق مہر قابل واپسی ہے۔
وصول شدہ رقم کی واپسی کا مطالبہ کرنا جائز نہیںلاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ اگر بیوی شوہر کی غلطی کی وجہ سے معقول جواز فراہم کرکے خلع طلب کرتی ہے، تو اس سے پہلے سے وصول شدہ رقم کی واپسی کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں قرار دیا گیا ہے ایسی صورتحال میں یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ کیس کے حقائق اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے کہ بیوی کو کتنی رقم واپس کرنی چاہیے۔
نکاح نامہ ایک جائز اور پابند معاہدہجسٹس راحیل کامران کے مطابق نکاح نامہ بیوی اور شوہر کے درمیان ایک جائز اور پابند معاہدہ ہے، اور مؤخر کرنا شوہر کی جانب سے کیا جانے والا معاہدہ ہے۔
انہوں نے یہ بھی قرار دیا کہ جب تک اس معاہدے کی شرائط سے انحراف کرنے کی قانونی بنیاد نہ ہو، شوہر اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا پابند ہے۔
خلع مانگنے کی وجہجسٹس راحیل کامران کہا کہ صرف یہ حقیقت کہ بیوی نے خلع مانگی ہے، خود بخود اس معاہدے کی ذمہ داری کو ختم نہیں کرتا ہے، مؤخر شدہ حق مہر کے دعوے پر خلع مانگنے والی بیوی کے حق کا تعین کرنے کے لیے اہم غور و خوض اس کے خلع مانگنے کی وجہ ہے۔
جسٹس راحیل کامران نے وضاحت کی کہ جب بیوی اس بنیاد پر خلع طلب کرتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کو ناپسند کرتی ہے تو شوہر کی جانب سے کسی غلطی کے بغیر وہ مؤخر کرنے کا حق اسی طرح کھو دیتی ہے، جس طرح فوری طور پر طلاق دینے کے معاملے میں ہوتی ہے۔
جسٹس راحیل کامران نے کہا کہ اس کے برعکس اگر شوہر کا طرز عمل بیوی کو طلاق لینے پر مجبور کرتا ہے تو وہ مؤخر شدہ مہر کا حق برقرار رکھتی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں بیوی نے خلع کی بنیاد پر شادی توڑنے کا حکم نامہ حاصل کیا، شوہر پر بدسلوکی اور توہین آمیز رویے کے الزامات لگائے۔
مہر کی ادائیگی سے انکار ناانصافی ہوگیجسٹس راحیل کامران نے قرار دیا کہ چونکہ شادی 9 سال پر محیط ہے، اور بیوی نے اپنی ازدواجی ذمہ داریاں پوری کیں، لہٰذا اسے مؤخر کیے گئے مہر کی ادائیگی سے انکار ناانصافی ہوگی۔
انہوں نے اس کیس کو درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے پیش کیے گئے سابقہ فیصلوں سے الگ کر دیا، جہاں شوہر کی جانب سے ظلم ثابت نہیں ہوا تھا۔
شوہر کی درخواست مستردعدالت عالیہ نے ساہیوال کی ضلعی عدالتوں کی جانب سے سابق اہلیہ کے حق میں دیے گئے فیصلے کے خلاف شوہر کی درخواست مسترد کر دی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں