Islam Times:
2025-04-22@05:55:07 GMT

حماس اور عالمی طاقتوں کی تحقیر

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

حماس اور عالمی طاقتوں کی تحقیر

اسلام ٹائمز: غزہ کے شجاع عوام اور اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے مجاہدین نے خالی ہاتھ اور شدید ترین دباو کے باوجود غاصب صیہونی رژیم اور اس کے حامی مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے اور یہ ہمارے زمانے میں تلوار پر خون کی فتح کا بہترین مصداق ہے۔ غزہ کے واقعات سے ثابت ہو گیا ہے کہ کس طرح ایک شجاع قوم اپنی استقامت اور مزاحمت کے ذریعے جابر ترین طاقتوں کو جھکنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ غزہ میں ایک بے دفاع اور نہتی قوم نے صرف اور صرف محدود اسلامی ممالک جیسے ایران، یمن، لبنان، عراق اور ایک حد تک شام کی مدد کے ذریعے عالمی استکباری طاقتوں سے مقابلے کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر عباس مقتدائی
 
گذشتہ تقریباً ڈیڑھ سال کے دوران سامنے آنے والے حالات نے بہت سارے حقائق منظرعام پر لائے ہیں۔ اس دوران اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے ایسے ایسے انسان سوز جرائم انجام دیے جن کی مثال یا تو انسانی تاریخ میں نہیں ملتی اور اگر ملتی بھی ہے تو وہ ہلاکو خان، چنگیز خان اور ہٹلر جیسے بھیڑیا صفت انسانوں کے اقدامات میں ملتی ہے۔ ان واقعات نے ثابت کر دیا کہ اکیسویں صدی کی تہذیب یافتہ دنیا میں بھی وحشیانہ پن، بربریت اور درندگی پائی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں، صیہونی حکمرانوں نے غزہ میں گذشتہ تقریباً ڈیڑھ برس میں جو کچھ کیا ہے وہ اکیسویں صدی میں تہذیب و تمدن کے برخلاف اقدامات قرار پاتے ہیں۔ اسی طرح ان واقعات نے اقوام متحدہ کی عدم افادیت کو بھی ثابت کر دیا ہے۔
 
یاد رہے اقوام متحدہ ایسا بین الاقوامی ادارہ ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور تباہ کن جنگوں کی روک تھام کے لیے تشکیل پایا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں کے ذمہ داران غزہ جنگ کے دوران انجام پانے والی نسل کشی اور بربریت کے خلاف نہ صرف مناسب اقدامات انجام دینے میں ناکام رہے بلکہ انہوں نے ان انسان سوز جرائم پر غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مناسب ردعمل اور تادیبی کاروائیاں بھی انجام نہیں دیں اور یہ سہل انگاری خود کو دنیا میں جمہوریت کے محافظ قرار دینے والے مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کے دباو پر انجام پائی ہے۔ لیکن اب غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پا چکا ہے اور اس پر عملدرآمد بھی شروع ہو گیا ہے۔
 
غزہ کے شجاع عوام اور اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے مجاہدین نے خالی ہاتھ اور شدید ترین دباو کے باوجود غاصب صیہونی رژیم اور اس کے حامی مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے اور یہ ہمارے زمانے میں تلوار پر خون کی فتح کا بہترین مصداق ہے۔ غزہ کے واقعات سے ثابت ہو گیا ہے کہ کس طرح ایک شجاع قوم اپنی استقامت اور مزاحمت کے ذریعے جابر ترین طاقتوں کو جھکنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ غزہ میں ایک بے دفاع اور نہتی قوم نے صرف اور صرف محدود اسلامی ممالک جیسے ایران، یمن، لبنان، عراق اور ایک حد تک شام کی مدد کے ذریعے عالمی استکباری طاقتوں سے مقابلے کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ لہذا گذشتہ ڈیڑھ سال میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں درج ذیل چند نکات قابل غور ہیں:
 
1)۔ بنجمن نیتن یاہو، جس نے حماس کو نابود کرنے کا دعوی کیا تھا عملی طور پر خود حماس سے ہی دوبارہ جنگ بندی معاہدہ انجام دینے پر مجبور ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حماس زندہ ہے اور نیتن یاہو اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پایا۔
2)۔ فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس یہ ظاہر کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ وہ ایک مزاحمتی گروہ ہونے کے ناطے امریکہ سمیت اسرائیل کی حامی عالمی طاقتوں کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہ ان مغربی طاقتوں کی تحقیر ہے جو خود کو دنیا کی سپر پاورز کے طور پر متعارف کرواتی پھرتی ہیں۔
3)۔ دنیا بھر کے انسان اور عالمی رائے عامہ غزہ جنگ کے دوران بہت اچھی طرح امریکی حکمرانوں اور ان کے دیگر اتحادی ممالک کے دوغلے معیاروں کو پہچان چکے ہیں۔
 
4)۔ اس وقت ایک عالمی ادارہ ہونے کے ناطے اقوام متحدہ اس اہم سوال سے روبرو ہے کہ کیا وہ اپنی ان ذمہ داریوں کی انجام دہی میں کامیاب رہی ہے جو اقوام متحدہ کے منشور میں بیان ہوئی ہیں یا اس میں ناکام رہی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اقوام متحدہ عملی طور پر فلسطینی قوم کے خلاف انجام پانے والے بہیمانہ جرائم جیسے نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم، قتل عام اور انہیں جبری طور پر جلاوطن کر دینا وغیرہ کی روک تھام میں بری طرح ناکامی کا شکار رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیاسی رہنما اور ممالک جو ہر عالمی مسئلے میں اقوام متحدہ کے ذریعے اقدامات انجام دینے پر زور دیتے ہیں اس وقت موجودہ حالات کے جوابدہ ہیں اور انہیں ان تمام نقصانات کا ازالہ کرنا چاہیے۔
 
5)۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کو مختلف پہلووں سے شدید نقصان پہنچا ہے۔ مثال کے طور پر قانونی میدان میں وہ بہت کمزور ہو گیا ہے اور گوشہ نشین کا شکار ہو چکا ہے۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سمیت کچھ صیہونی حکمرانوں پر عالمی عدالت انصاف کی جانب سے غزہ میں نسل کشی جیسے جنگی جرم کا ثابت ہو جانا اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے نیتن یاہو اور یوآو گالانت کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو جانا اس کی واضح دلیل ہے۔ سیاسی لحاظ سے بھی غاصب صیہونی رژیم بحرانی ترین حالات کا شکار ہے۔ عالمی رائے عامہ میں اسرائیل آئندہ طویل عرصے تک ایک نسل پرست، جنگ طلب اور جرائم پیشہ رژیم کے طور پر جانا جائے گا۔ مذکورہ بالا تمام اسباب اسرائیل کی جعلی رژیم کی نابودی اور خاتمے میں تیزی کا باعث بنیں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: غاصب صیہونی رژیم اقوام متحدہ نیتن یاہو ہو گیا ہے کے دوران کے ذریعے کے خلاف رہی ہے اور یہ جنگ کے غزہ کے ہے اور کر دیا اور اس

پڑھیں:

اسرائیل کی غزہ میں جنگ روکنے کے لیے ناقابلِ قبول شرائط

ایک اسرائیلی میڈیا آؤٹ لیٹ نے اتوار کو غزہ میں نسل کشی روکنے کے لیے چار ناقابل قبول اسرائیلی شرائط کا انکشاف کیا۔ اسلام ٹائمز۔ آج بروز اتوار، ایک اسرائیلی میڈیا چینل نے غزہ میں نسل کشی کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی چار ناقابلِ قبول شرائط کو بے نقاب کیا۔ فارس نیوز مطابق، اسرائیلی چینل i24NEWS نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ میں جنگ کا خاتمہ اسرائیل کی درج ذیل چار شرائط کی تکمیل پر منحصر ہے، تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، حماس کا مکمل طور پر اقتدار سے دستبردار ہونا، غزہ پٹی کا مکمل غیر مسلح ہونا اور حماس کے درجنوں رہنماؤں کو ملک بدر کرنا۔ یہ شرائط ایسے وقت میں پیش کی جا رہی ہیں جب حماس کئی بار واضح طور پر اعلان کر چکی ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی جنگ کے خاتمے سے مشروط ہے، اور وہ مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح کرنے یا اپنے رہنماؤں کو وطن سے نکالنے کی شرائط کو قبول نہیں کرے گی۔

اس سے قبل، حماس کے ایک رہنما نے المیادین ٹی وی کو بتایا تھا کہ حماس کو غیر مسلح کرنا اور اس کی غزہ میں واپسی کو روکنا اسرائیل کے پیش کردہ جنگ بندی کے منصوبے کا مرکزی نکتہ ہے، جبکہ اس میں مستقل جنگ بندی یا اسرائیلی افواج کی مکمل واپسی جیسے بنیادی مطالبات شامل نہیں ہیں۔ اسرائیل صرف حماس سے قیدیوں کا کارڈ چھیننے کی کوشش کر رہا ہے۔ حماس نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ وہ ایک جامع قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ جنگ مکمل طور پر بند کی جائے، اسرائیلی فوج غزہ سے نکل جائے، باریکے کی تعمیر نو کا آغاز ہو، اور محاصرہ ختم کیا جائے۔

دوسری جانب، اسرائیلی وزیراعظم نے گزشتہ شب مظاہروں اور طوماروں کے باوجود جن پر عام شہریوں، ریزرو فوجیوں اور ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں نے دستخط کیے تھے تاکہ قیدیوں کی واپسی کے لیے جنگ بندی کی جائے کہا کہ ہمارے پاس فتح تک جنگ جاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہم ایک نازک مرحلے میں ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ حماس نے زندہ قیدیوں میں سے نصف اور کئی ہلاک شدگان کی لاشوں کی رہائی کی پیشکش کو مسترد کر دیا اور جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا، جو ناقابلِ قبول ہے۔ یہ دعویٰ ایسی حالت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے جمعرات کی شب اعلان کیا کہ حماس اسرائیل کے ساتھ فوری طور پر ایک جامع پیکیج مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

اس پیکیج میں تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، متفقہ تعداد میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی، مکمل جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی انخلاء، تعمیر نو کی بحالی اور محاصرہ ختم کرنا شامل ہیں۔ خلیل الحیہ، جو مذاکراتی ٹیم کے سربراہ بھی ہیں، نے کہا کہ غزہ سے متعلق جزوی معاہدے دراصل نیتن یاہو کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہیں، جو جنگ، نسل کشی اور بھوک کے تسلسل پر مبنی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
  • گلگت، آئی ایس او طالبات کے زیر اہتمام صیہونی مظالم کیخلاف احتجاجی ریلی
  • ارشد محمود ملک کا تبادلہ، وزیراعظم سیکرٹریٹ میں بطور سپیچ رائٹر تعینات
  • وزیر اعظم کے اسپیچ رائٹر ارشد محمود ملک کا تبادلہ
  • نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی، غزہ میں جارحیت جنگ کا ’نازک مرحلہ‘ قرار
  • اسرائیل کی غزہ میں جنگ روکنے کے لیے ناقابلِ قبول شرائط
  • یہودیوں کا انجام
  • صیہونی حملے کے بعد اسرائیلی نژاد امریکی قیدی کا کوئی علم نہیں، ایک محافظ شہید ہو چکا ہے، القسام بریگیڈ
  • غزہ، صیہونی فوج کی بمباری سے مزید 64فلسطینی شہید
  • صیہونی سوشل میڈیا پر مسجد اقصیٰ کو گرانے کی مذموم مہم شروع