کولکتہ ڈاکٹر ریپ اور قتل کیس، جج نے مجرم کو پھانسی کی سزا کیوں نہیں سنائی؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
بھارت میں ایک عدالت نے کولکتہ میں ایک جونیئر ڈاکٹر سے زیادتی اور پھر اس کے قتل کے ہولناک واقعے کے مجرم پولیس اہلکار کوعمر قید کی سزا سناتے ہوئے قراردیا ہے کہ یہ’ایسا جرم نہیں ہے کہ اس پرمجرم کو پھانسی دی جا سکے۔
دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک بھارت میں خواتین کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے مسئلے کو اجاگر کرنے والے 31 سالہ خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے کیس نے پورے بھارت کو ہلا کررکھ دیا تھا۔
عوام کی جانب سے اس جرم میں ملوث افراد کو سرعام پھانسی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا تاہم پیرکو خاتون ڈاکٹر کے اہل خانہ نے روتے ہوئے کہا کہ وہ اس سزا پر ’حیران‘ ہیں اور انہیں امید تھی کہ ان کی بیٹی کے قاتل کو پھانسی دی جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا اور انہیں انصاف نہیں ملا۔
پیر کو جج انربان داس نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ سزائے موت کا نہیں ہے کیونکہ یہ ’ منفرد ترین کیسز میں سے ایک نہیں ہے اس لیے مجرم سنجے رائے کو اپنی ساری زندگی اب سلاخوں کے پیچھے گزارنی ہوگی۔
اگست 2024 میں بھارت کے مشرقی شہرکولکتہ کے ایک سرکاری اسپتال میں ٹرینی ڈاکٹر کی خون سے لت پت لاش ملنے کے بعد پورے بھارت میں غم وغصے کی لہردوڑ گئی تھی۔
اس قتل کے بعد سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں نے اضافی سیکیورٹی کا مطالبہ کیا اور کولکتہ اور بھارت کے دیگر حصوں میں ہزاروں شہریوں نے ڈاکٹرز کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پراحتجاج میں حصہ لیا۔
اس معاملے کے واحد ملزم 33 سالہ سنجے رائے، جو اسپتال میں تعینات تھے، کو خاتون ڈاکٹر کی لاش ملنے کے ایک دن بعد گرفتارکیا گیا تھا۔
بھارت کی سپریم کورٹ نے گزشتہ سال ایک قومی ٹاسک فورس کو حکم دیا تھا کہ وہ ہیلتھ کیئر ورکرز کی سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے طریقوں کا جائزہ لے اور قرار دیا تھا کہ اس قتل کی سفاکیت نے ’ قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے‘۔
مقتول ڈاکٹر کی ماں اور والد، جو پیر کو عدالت میں مبینہ مجرم سنجے رائے کے قریب بیٹھے تھے، نے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ سنجے رائے کو پھانسی دی جائے لیکن جج نے سنجے رائے کو عمر قید کی سزا سناتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ انہیں پھانسی نہیں دی جا سکتی بلکہ انہیں اپنے دفاع میں اپیل کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔
مقتول ڈاکٹر کے والد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں عدالت کے اس فیصلے سے سخت صدمہ پہنچا ہے، ہم انصاف کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور تحقیقات کو رکنے نہیں دیں گے۔ کچھ بھی ہو، ہم انصاف کے لیے لڑیں گے۔
خاتون ڈاکٹر کے قتل کی ہولناک نوعیت کا موازنہ 2012 میں دہلی کی بس میں ایک نوجوان لڑکی کی اجتماعی عصمت دری اور پھر اس کے قتل سے کیا گیا تھا، جس کے خلاف کئی ہفتوں تک ملک گیر احتجاج بھی جاری رہا۔ بھارت میں سزائے موت نافذ ہے، حالانکہ عملی طور پر اس پر شاذ و نادر ہی عمل کیا جاتا ہے۔
بھارت میں آخری بار مارچ 2020 میں 2012 کے دہلی بس میں ریپ کیس کے چارمجرموں پھانسی دی گئی تھی، سنجے رائے جس نے خود کو بے قصور قرار دیا تھا، کے خلاف مقدمے کی سماعت کوبھارت کے گلیشیئل قانونی نظام کے ذریعے تیزی سے آگے بڑھایا گیا۔
سزا سنائے جانے سے پہلے سنجے رائے نے پیر کو ایک بار پھر زور دے کر کہا کہ وہ بے قصور ہیں اور انہیں ’پھنسایا‘ گیا ہے۔ سنجے رائے کے وکیل کبیتا سرکار نے کہا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔
مقدمے کے فیصلے کے دوران پولیس کی جانب سے روکے جانے کے باوجود ہزاروں افراد عدالت میں جمع ہو گئے اور بہت سے لوگ نعرے لگا رہے تھے اور مطالبہ کر رہے تھے کہ اسے پھانسی دو، اسے پھانسی دو‘۔
مقدمے کی سماعت سے پہلے انصاف اور خواتین کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے متعدد عوامی ریلیاں نکالنے میں مدد کرنے والی 34 سالہ رمجھم سنہا نے کہا کہ وہ اس سزا سے شدید مایوس ہیں۔ یہ ایک شیطانی جرم تھا یہ ایک طرح سے ‘ریکلیم دی نائٹ’ تحریک کا حصہ ہے، اب وقت آگیا ہے کہ بھارت کے عوام عصمت دری اور قتل کی بڑھتے ہوئے واقعات کو روکیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انصاف اہل خانہ بھارت پولیس ٹرینی ڈاکٹر جج جونیر ڈاکٹر ڈاکٹر قتل ریپ ریپ کیس زیادتی سپریم کورٹ سزائے موت سنجے رائے عدالت قانون قتل کیس کولکتہ مجرم والدین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انصاف اہل خانہ بھارت پولیس ٹرینی ڈاکٹر جونیر ڈاکٹر ریپ ریپ کیس زیادتی سپریم کورٹ سزائے موت عدالت قتل کیس والدین بھارت میں بھارت کے ڈاکٹر کے دیا تھا کے خلاف قتل کی
پڑھیں:
پیکر کردار مثالی لوگ
حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اچھی بات دین اسلام کی گمشدہ میراث ہے ۔کیوں نہ ہو کہ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ انسانوں کے اخلاق سنوارنے کے لئے ہی تو مبعوث فرمائے گئے تھے ۔پوری انسانیت آج بھی میرے نبی آخرالزمان ﷺ کے جادہ اخلاق پر چل کر ہی دنیا و آخرت کی کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار ہوسکتی ہے کہ اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں جو انسانیت کی بھلائی اور فلاح کا ہو۔عمر رفتہ کی ساٹھویں دہائی میں اچانک سے کسی صالح اور پیکر حسن اخلاق دوست کا مل جانا کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں اس پر مستزاد یہ کہ وہ ایک درد مند مسیحا بھی ہو ۔ڈاکٹر محمد بلال ماہر اطفال ہیں، ایک عمر آئرلینڈ بسر کرنے کے بعد پاکستان آئے ہیں یہاں آنا اور یہاں کا ہورہنا بھی جان جوکھوں سے کم نہیں وہ ذہنی اور جسمانی سطح پر ہی نہیں روحانی سطح پر بھی یہاں کے ماحول سے لڑتے بھڑتے مہ وسال بسر کرنے میں لگے ہیں ۔
یہاں کی فضا ان کے مزاج کے لئے ساز گارنہ سہی مگر وہ بہرصورت نبرد آزماہیں اور ہارنے والے نہیں لگتے ۔انہوں نے ہمسایہ ملک کے ایک ریٹائرڈ افسر(جو صدر ڈاکٹر عبدالکلام کے دور میں ان کے سیکرٹری تھے) کے ایک ٹی وی انٹر ویو کے کچھ حصے انگریزی میں مجھے مرحمت فرمائے ہیں جنہیں اپنے حلقہ احباب تک پہنچانا ایک فرض اور قرض گردانتا ہوں ، کہ شائد رلادینے والے اس انٹر ویو کا خلاصہ ہمارے ارباب بست و کشاد میں بھی کوئی ایسا جذبہ بیدار کردے ۔یہ تحریر شائد کچھ لوگوں کے لئے دہرائی ہوئی ہو مگر پھر دہرائی جانے کے قابل ہے کہ ایسی ہستیاں صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں ،جن کے واقعات ہر بار سننے کے لائق ہوتے ہیں ۔ دنیا کے ہر ملک کے سربراہ ملکوں ملکوں دورے کرتے ہیں اور یہ ایک دیرینہ روایت رہی ہے کہ جس ملک بھی جاتے ہیں اس ملک کی طرف سے انہیں بیش قیمت تحائف پیش کئے جاتے ہیں ۔ڈاکٹر عبدالکلام کو بھی بیرونی دوروں پر تحائف دیئے جاتے اور وہ لینے سے انکار نہ کرتے کہ یہ ان کے ملک کے وقارکا تقاضا تھا،مگر وطن واپسی پر وہ ان تحائف کی تصاویر کھنچواتے ،فہرست بنواتے اور انہیں راشٹرپتی بھون کے آرکائیوز میں جمع کروادیتے ۔حتیٰ کہ صدارتی محل چھوڑتے وقت بھی ایک پنسل تک اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔2002 ء میں رمضان المبارک آیا تو روایت کے مطابق افطار پارٹی کی تیاریاں ہونے لگیں ،ڈاکٹر کلام نے اپنے سیکرٹری مسٹر نائرسے کہا ’’ہم ان لوگوں کو کیوں کھلائیں جوپہلے ہی کھاتے ہیں‘‘ معلوم ہوا کہ اس پر 22لاکھ روپے خرچ اٹھے گا،ڈاکٹر صاحب نے حکم دیا کہ یہ رقم یتیم خانوں میں کھانا ،کپڑے اور کمبل دینے پر لگا دی جائے۔ مزید یہ کہ اپنے ذاتی بچت سے ایک لاکھ روپے کا چیک دیا اور کہا ’’کسی کو نہ بتانا‘‘۔ ڈاکٹر کلام جی حضورکہنے والوں کے سخت خلاف تھے ،ایک بار چیف جسٹس کی موجودگی میں ڈاکٹر صاحب نے رائے دی اور مسٹر نائر سے پوچھا ’’تم متفق ہو ؟‘‘ مسٹر نائر بولے ’’نہیں سر میں متفق نہیں ہوں‘‘ چیف جسٹس ششدر رہ گئے ۔ڈاکٹر کلام بعد میں وجہ پوچھتے اور اگر دلیل میں وزن ہوتا تو99 فیصد اپنی رائے بدل لیتے۔ڈاکٹر کلام نے اپنے پچاس کے قریب رشتہ داروں کو دہلی بلوایا،ایک نجی بس کا انتظام کیا ،جس کا کرایہ خود ادا کیا ۔تمام اخراجات کا حساب ہوا، دو لاکھ روپے اور وہ بھی اپنی جیب سے ادا کئے ،حتی کہ اپنے بڑے بھائی کے ایک ہفتہ تک کمرے میں قیام کا کرایہ بھی دینا چاہا۔مگر عملے نے کہا ’’سریہ تو حد ہوگئی‘‘ جب مسٹر کلام کی مدت صدارت ختم ہوئی ،ہر ملازم نے آکرالوداع کہا۔ مسٹر نائر کی اہلیہ کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی ۔ڈاکٹر کلام نے خبر سنی تو اگلے دن ان کے گھر پہنچے ،ان کی اہلیہ کی مزاج پرسی کی اور کچھ وقت ساتھ گزارا ۔مسٹر نائر کہتے ہیں ’’دنیا کے کسی ملک کا صدر سرکاری ملازم کے گھر یوں نہیں آتا‘‘ ڈاکٹر عبدالکلام کی کل ملکیت 6پتلون ( 2ڈی آر ڈی آو کی یونیفارم )4 قمیص (ڈی آر ڈی کی یونیفارم ) 3سوٹ ،2500کتب 1فلیٹ(عطیہ کردیا) 1پدم شری۔1۔پدم بھوشن ۔1بھارت رتن۔16 ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں۔1۔ویب سائٹ 1۔ٹیوٹراکائونٹ۔1ای میل آئی ڈی۔نہ کوئی گاڑی ،نہ زیور،نہ زمین ،نہ بنک بیلنس۔حتیٰ کہ اپنی آخری 8سال کی پنشن بھی گائوں کی ترقی کے لئے دے دی۔