عامر خان کی نئی گرل فرینڈ کون ہے؟ سلمان خان کے سوال پر جنید خان کا دلچسپ جواب
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
بھارتی رئیلٹی شو بگ باس 18 کے گرینڈ فائنل میں سلمان خان اور عامر خان کی ہلکی پھلکی نوک جھونک اور عامر خان کے بیٹے جنید خان کے طنزو مزاح نے شائقین کے دل جیت لیے۔
عامر خان اپنے بیٹے جنید خان اور اداکارہ خوشی کپور کے ہمراہ فلم ’لوویاپا‘ کی تشہیر کے لیے شریک ہوئے۔ پروگرام کے دوران، سلمان نے مزاحیہ انداز میں عامر سے پوچھا کہ کیا ان کی کوئی نئی گرل فرینڈ ہے، جس پر جنید کے حاضر جواب تبصرے نے سب کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دیا۔
جنید خان نے کہا کہ ’کیا آپ ان (عامر خان) کو انکی دو سابقہ بیویوں سے گالیاں پڑوانا چاہتے ہیں‘۔
شو کے دوران عامر نے انکشاف کیا کہ وہ اور سلمان ایک دوسرے کے بچپن کے ساتھی ہیں۔ انہوں نے بتایا، ’بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سلمان اور میں نے دوسری جماعت میں ایک ہی اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔ بعد میں سلمان دوسرے اسکول منتقل ہو گئے۔‘
اس پر سلمان نے مزاحیہ انداز میں کہا، ’مجھے اسکول سے نکال دیا گیا تھا‘۔ عامر نے مسکراتے ہوئے کہا، ’آپ ہمیں بچپن کے دوست کہہ سکتے ہیں‘۔
یاد رہے کہ جنید خان جلد سری دیوی کی بیٹی خوشی کپور کے ہمراہ فلم لویاپا میں جلوہ گر ہوں گے جو 7 فروری کو سنیما گھروں میں ریلیز ہوگی۔
دوسری جانب بگ باس سیزن 18 کا تاج اداکار کرن کے نام ہوچکا ہے انہوں نے گھر کے اندر اور باہر سے بےشمار ووٹ حاصل کر کے بگ باس سیزن 18 کے فائنلسٹ کا ٹائٹل جیت لیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت
شیعہ علما کونسل گلگت کے جنرل سیکرٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا کہ کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل ضلع گلگت کے جنرل سکریٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مورخہ 19 اپریل 2025ء کو جاری ہونے والی مشیر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان مولانا محمد دین کی پریس ریلیز محض ایک بیان نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کی شناخت پرامن بقائے باہمی، مذہبی رواداری اور اجتماعی شعور ہے۔ ایسے میں کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے ہمارا سوال ہے کہ کیا مشیر موصوف کی یہ پریس ریلیز آپ کی منظوری سے جاری کی گئی؟ اگر ہاں، تو یہ طرز حکمرانی پر سوالیہ نشان ہے کہ ایک حکومت اپنے عوام سے اس انداز میں مخاطب ہو رہی ہے جو نفرت، تقسیم اور اشتعال کو ہوا دے رہا ہے۔ اور اگر یہ بیان آپ کی اجازت یا علم کے بغیر جاری کیا گیا ہے تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے غیر سنجیدہ اور نالائق مشیروں کو فوراً برطرف کریں تاکہ حکومت کی نیک نامی، شفافیت اور سنجیدگی پر عوام کا اعتماد قائم رہ سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشیر موصوف نے خطیب جامع مسجد امامیہ گلگت جناب آغا سید راحت حسین الحسینی جیسے محترم، سنجیدہ اور باوقار عالم دین کے خلاف جو زبان استعمال کی، وہ گلگت بلتستان کے مہذب سیاسی و سماجی کلچر سے متصادم ہے۔ ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو ذاتی حملے سمجھتے ہیں اور سنجیدہ تنقید کا جواب اخلاقیات کے دائرے سے باہر نکل کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور سوال اٹھانا ہر باشعور شہری، خصوصاً اہل علم کا آئینی، اخلاقی اور سماجی حق ہے۔ اگر حکومت کی پالیسیاں واقعی عوامی مفاد پر مبنی ہیں تو دلیل و حکمت سے عوام کو مطمئن کیا جائے، نہ کہ ان پر الزام تراشی کر کے ان کی زبان بند کرنے کی کوشش کی جائے۔ مشیر موصوف کا یہ کہنا کہ "دین کو سیاست سے الگ رکھا جائے" نہ صرف فکری گمراہی کی نشانی ہے بلکہ اس قوم کے نظریاتی اساس سے انحراف بھی ہے۔ پاکستان کا قیام ہی کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ“ کے نام پر ہوا تھا، اور اس ملک کی بقاء اسی وقت ممکن ہے جب دین اور سیاست کو ہم آہنگی سے مربوط کیا جائے۔