اسٹوڈنٹس یونین بحالی کیس میں وفاق و متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
آئینی عدالت نے اسٹوڈنٹس یونین بحالی کے معاملہ پر وفاق و متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کردیا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چھ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ قائد اعظم یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونین الیکشن کا شیڈول جاری ہوا ہے، یہاں کے الیکشن کو پائیلٹ پروجیکٹ کے طور پر دیکھا جائے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بار کے الیکشن میں سیاست آ گئی ہے جبکہ سیاسی جماعتوں نے تعلیمی اداروں میں اپنے سیاسی ونگز بنالیے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیا اسٹوڈنٹس یونین پر پابندی ہے؟ یہ پابندی کب لگائی گئی؟، کراچی یونیورسٹی میں سیاسی جماعتوں کے پولیٹیکل ونگز ہیں، اسٹوڈنٹس یونین کا مطلب سیاست نہیں اسٹوڈنٹس کی فلاح و بہبود ہے۔
جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونینز کی وجہ سے تشدد آیا جس کی وجہ سے وہاں 35 سال سے ریجنرز تعینات ہیں۔
وکیل عمر گیلانی نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی میں خاص حالات کی وجہ سے رینجرز تعینات کی گئی تھی، جسٹس حسن رضوی نے استفسار کیا کہ ایسے کیا خاص حالات تھے؟۔ پنجاب یونیورسٹی میں سابق وزیر اعظم کو اغواء کیا گیا جنہیں بعد ازاں اسٹوڈنٹس سے چھڑایا گیا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اسٹوڈنٹس یونین ایک نرسری ہے، انہی لوگوں نے بعد میں ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنا ہوتی ہے۔
جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ اچھے طلبا کیساتھ بیٹھ کر مسئلہ حل کریں، بھتہ خور کو مسئلہ کے حل کیلئے ساتھ نہ بٹھائیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ بچوں کو پڑھنے دیں انہیں سیاست میں کیوں ڈال رہے ہیں، ہمارے ملک میں سیاست جارحانہ ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: یونیورسٹی میں نے کہا کہ
پڑھیں:
ٹھٹھہ میں وزیرمملکت کی گاڑی پر حملہ، وفاقی و صوبائی حکومتوں کا نوٹس
ٹھٹھہ میں متنازع نہروں کے خلاف جاری احتجاج کے دوران وزیر مملکت برائے مذہبی ہم آہنگی کھیل داس کوہستانی کی گاڑی پر مشتعل مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ اور انڈے ٹماٹر پھینکنے کا واقعہ پیش آیا ہے۔
قوم پرست جماعتوں کے کارکنان نہری منصوبوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے کہ اس دوران وزیر مملکت کا قافلہ مظاہرے کے مقام سے گزرا تو مظاہرین نے قافلے کو دیکھتے ہی شدید نعرے بازی کی، انڈے اور ٹماٹر پھینکے، اور گاڑی پر پتھراؤ کیا۔ تاہم وزیر مملکت کا قافلہ بحفاظت وہاں سے روانہ ہو گیا۔
واقعے پر وفاقی وزیر اطلاعات عطاءاللہ تارڑ نے فوری نوٹس لیتے ہوئے اسے حملہ قرار دیا اور آئی جی سندھ غلام نبی میمن سے رابطہ کر کے تفصیلات طلب کیں۔ انہوں نے وزارت داخلہ سے بھی واقعے کی رپورٹ طلب کی ہے۔
عطاءاللہ تارڑ نے اپنے بیان میں کہا کہ عوامی نمائندوں پر حملے ناقابل برداشت ہیں، سندھ حکومت واقعے کی مکمل اور شفاف تحقیقات کرے اور ملوث عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی واقعے کا سختی سے نوٹس لیا اور کہا کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے ڈی آئی جی حیدرآباد کو فوری کارروائی کی ہدایت دی اور واقعے کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
پولیس ذرائع کے مطابق، مظاہرین کی شناخت اور گرفتاری کے لیے کارروائی جاری ہے۔
Post Views: 3