ٹک ٹاک نے ٹرمپ کے وعدے پر امریکی صارفین کے لیے سروس بحال کردی
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اپنے عہدے پر فائز ہونے کے پہلے دن ہی انتظامی حکم امتناع جاری کرنے کی کوشش کریں گے جس کے چند گھنٹوں بعد ہی امریکا میں ٹک ٹاک نے صارفین کے لیے اپنی سروس بحال کر دی ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ ٹک ٹاک کی چین میں قائم پیرنٹ کمپنی کو پابندی کے مکمل اطلاق سے قبل منظور شدہ خریدار تلاش کرنے کے لیے مزید وقت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ٹروتھ سوشل اکاؤنٹ پر اس اقدام کا اعلان اس وقت کیا جب لاکھوں امریکی ٹک ٹاک صارفین کو یہ پتا چلا کہ وہ اب ٹک ٹاک ایپ یا پلیٹ فارم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔
تاہم اتوار کی سہ پہر تک ایک پیغام میں ان لوگوں کا خیر مقدم کیا گیا جنہوں نے دستخط کیے اور ان کی حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ پیغام میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی کوششوں کے نتیجے میں ٹک ٹاک امریکا میں واپس آ گیا ہے۔ امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ پیر کے روز اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے امریکا میں ٹک ٹاک تک رسائی بحال کریں گے لیکن انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ مقبول سوشل میڈیا ایپ امریکی سرمایہ کاروں کی کم از کم آدھی ملکیت ہو۔
مزید پڑھیں: ٹک ٹاک پر ون بائٹ چیلنج نے لبنانی طالبعلم کی جان لے لی
ٹک ٹاک نے ہفتے کی رات اپنے 170 ملین امریکی صارفین کے لیے کام کرنا بند کر دیا تھا جس کے بعد اتوار کو قومی سلامتی کی بنیاد پر اسے بند کرنے کا قانون نافذ ہو گیا تھا۔ امریکی حکام نے خبردار کیا تھا کہ چینی پیرنٹ کمپنی بائٹ ڈانس کے تحت امریکیوں کے ڈیٹا کے غلط استعمال کا خطرہ ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ وہ قانونی پابندیوں کے نفاذ سے پہلے کی مدت میں توسیع کریں گے، تاکہ ہم اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ایک معاہدہ کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ امریکا ایک مشترکہ منصوبے میں 50 فیصد ملکیت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسا کرنے سے ہم ٹک ٹاک کو بچاتے ہیں، اسے اچھے ہاتھوں میں رکھتے ہیں اور اسے بولنے دیتے ہیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ ایگزیکٹو آرڈر میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی بھی کمپنی کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی جس نے ان کے حکم سے پہلے ٹک ٹاک کو بند ہونے سے بچانے میں مدد کی۔ اس سے قبل ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد ٹک ٹاک کو مکمل پابندی سے بچانے کے لیے قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے 90 دن کی مہلت دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا قانون نافذ کر دیا گیا ہے، بدقسمتی سے اس کا مطلب ہے کہ آپ فی الحال ٹک ٹاک استعمال نہیں کر سکتے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ صدر ٹرمپ نے اشارہ دیا ہے کہ وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد ٹک ٹاک کو بحال کرنے کے حل پر ہمارے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
مزید پڑھیں:چینی حکام نے ٹک ٹاک ایلون مسک کو فروخت کرنے پر غور شروع کردیا لیکن کیوں؟
اگرچہ ٹک ٹاک کی عارضی بندش امریکا اور چین کے تعلقات، امریکی سیاست، سوشل میڈیا مارکیٹ اور لاکھوں امریکیوں پر وسیع پیمانے پر اثرات مرتب کرے گی جو معاشی اور ثقافتی طور پر ایپ پر منحصر ہیں۔ امریکا نے کبھی بھی کسی بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پابندی عائد نہیں کی ہے۔ کانگریس کی جانب سے کثرت رائے سے منظور کیے گئے اس قانون کے تحت آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کو دیگر چینی ایپس کی فروخت پر پابندی عائد کرنے یا ان کی فروخت کا مطالبہ کرنے کا وسیع اختیار حاصل ہے۔
بائٹ ڈانس کی ملکیت والی دیگر ایپس بشمول ویڈیو ایڈیٹنگ ایپ کیپ کٹ اور لائف اسٹائل سوشل ایپ لیمن 8 بھی آف لائن تھیں اور ہفتے کی رات تک یو ایس ایپ اسٹورز میں دستیاب نہیں تھیں۔ گزشتہ سال منظور کیے گئے اور جمعے کو امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے متفقہ طور پر برقرار رکھے گئے قانون کے تحت پلیٹ فارم کے پاس اتوار تک چین میں قائم پیرنٹ کمپنی کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے یا قومی سلامتی کے لیے خطرہ پیدا ہونے کے خدشات کو دور کرنے کے لیے اپنے امریکی آپریشن کو بند کرنے کا وقت تھا۔
واشنگٹن میں چینی سفارت خانے نے جمعے کے روز امریکا پر الزام عائد کیا کہ وہ ٹک ٹاک کو دبانے کے لیے غیر منصفانہ ریاستی طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ چین اپنے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔ ایپ کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال نے صارفین زیادہ تر نوجوان لوگوں کو چین میں قائم ریڈ نوٹ سمیت متبادل کی طرف راغب کیا تھا۔ حریفوں میٹا اور اسنیپ نے پابندی سے پہلے رواں ماہ اپنے حصص کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا ہے، سرمایہ کار صارفین کی بڑی تعداد اور اشتہاری رقم کی آمد پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: جنت مرزا نے سنیما کے مقابلے میں ٹک ٹاک کا انتخاب کیوں کیا؟
ریڈ نوٹ پوسٹ میں ایک صارف نے ’ٹک ٹاک ریفیوج‘ اور ’اداس‘ کے الفاظ کے ساتھ لکھا کہ ’یہ اب میرا نیا گھر ہے۔‘ ٹک ٹاک کی امریکا میں بندش کے چند منٹ بعد، دیگر صارفین نے ایکس کا سہارا لیا، جسے پہلے ٹویٹر کہا جاتا تھا۔ نارڈ وی پی این، ایک مقبول ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک، یا وی پی این، جو صارفین کو دنیا بھر کے سرورز سے انٹرنیٹ تک رسائی کی اجازت دیتا ہے، نے کہا کہ اسے عارضی تکنیکی مشکلات کا سامنا ہے۔ گوگل ٹرینڈز کے مطابق امریکی صارفین کی ٹک ٹاک تک رسائی ختم ہونے کے چند منٹ بعد ’وی پی این‘ کے لیے ویب سرچ میں اضافہ ہوا۔
ٹک ٹاک پر انحصار کرنے والی مارکیٹنگ کمپنیوں نے ہنگامی منصوبے تیار کرنے کی کوشش کی ہے جسے ایک ایگزیکٹو نے کئی ماہ کی روایتی دانشمندی کے بعد انتہائی پریشان کن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایپ کو چلانے کے لیے ایک حل تلاش کیا جائے گا۔ ٹرمپ کی قیادت میں ٹک ٹاک کی واپسی کے اشارے مل رہے ہیں، جنہوں نے کہا ہے کہ وہ اس مسئلے کے سیاسی حل کی کوشش کرنا چاہتے ہیں اور گزشتہ ماہ سپریم کورٹ سے پابندی پر عمل درآمد روکنے کی درخواست کی تھی۔ ٹک ٹاک کے سی ای او شو زی چیو امریکی صدارتی حلف برداری کی تقریب میں شرکت اور اتوار کو ٹرمپ کے ساتھ ایک ریلی میں شرکت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں ٹک ٹاک مونیٹائزیشن کب تک ممکن ہے؟
لاس اینجلس ڈوجرز کے سابق مالک فرینک میک کورٹ سمیت دیگر افراد نے تیزی سے بڑھتے ہوئے کاروبار میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے جس کے بارے میں تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ اس کی مالیت 50 ارب ڈالر تک ہوسکتی ہے۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ بیجنگ نے ٹک ٹاک کے امریکی آپریشنز کو ارب پتی اور ٹرمپ کے اتحادی ایلون مسک کو فروخت کرنے کے بارے میں بھی بات چیت کی ہے تاہم کمپنی نے اس کی تردید کی ہے۔
امریکی سرچ انجن اسٹارٹ اپ پرپلیسیٹی اے آئی نے ہفتے کے روز بائٹ ڈانس فار پرپلیکسیٹی کو ٹک ٹاک کے ساتھ امریکا میں ضم کرنے کی بولی جمع کرائی ہے۔ اس شخص نے مزید کہا کہ وہ ٹک ٹاک یو ایس کے ساتھ ضم ہوجائے گا اور ضم شدہ کمپنی کو دیگر شراکت داروں کے ساتھ ملا کر ایک نیا ادارہ تشکیل دے گا۔ نجی طور پر قائم بائٹ ڈانس قریباً 60 فیصد ادارہ جاتی سرمایہ کاروں جیسے بلیک راک اور جنرل اٹلانٹک کی ملکیت ہے جبکہ اس کے بانیوں اور ملازمین میں سے ہر ایک کے پاس 20 فیصد ہے۔ امریکا میں اس کے 7 ہزار سے زیادہ ملازمین ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایلون مسک ٹک ٹاک ڈونلڈ ٹرمپ فیس بک، میٹا، ایلون مسک.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایلون مسک ٹک ٹاک ڈونلڈ ٹرمپ ٹرمپ نے کہا امریکا میں مزید پڑھیں میں ٹک ٹاک بائٹ ڈانس ایلون مسک ٹک ٹاک کو نے کہا کہ ٹک ٹاک کی تک رسائی کریں گے کے ساتھ سے پہلے بحال کر کرنے کے کرنے کا کے بعد کے لیے تھا کہ گیا ہے
پڑھیں:
عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ
روس اور یوکرین نے ایک دوسرے پر صدر ولادیمیر پوتن کی طرف سے اعلان کردہ ایسٹرکی ایک روزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ فریقین نے کہا کہ اس دوران سیکڑوں حملے کیے گئے ہیں۔ اس سے قبل رواں ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ یوکرین اور روس کے مابین جنگ بندی مذاکرات کا وقت آن پہنچا ہے۔
روس، یوکرین جنگ چوتھے برس میں داخل ہوچکی ہے، جس میں60ہزار سے زاید یوکرینی اور روسی شہری اور فوجی ہلاک، جب کہ یوکرین میں شہرکے شہرکھنڈرات میں تبدیل ہوچُکے ہیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں دنیا میں مہنگائی کا ایک طوفان آیا۔ غریب ممالک کے عوام تو اِس تباہی میں پِسے ہی لیکن امیر ممالک کے شہری بھی توانائی، خوراک اور دوسری اشیائے صَرف کی آسمان سے چُھوتی قیمتوں سے اب تک نجات نہیں پاسکے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواں ہفتے روس اور یوکرین کے درمیان امن معاہدے کے لیے پرامید ہیں۔صدر ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ’’اگر جنگ بندی ہوجاتی ہے تو دونوں ممالک کے لیے امریکا کے ساتھ بڑے تجارتی مواقع دستیاب ہوں گے۔‘‘ تاہم انھوں نے ان امن مذاکرات کی تفصیلات نہیں بتائیں جنھیں امریکا جنوری میں ان کے صدارت سنبھالنے کے بعد سے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے روس کے ساتھ جنگ ختم کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کے فیصلے کے بعد یورپی طاقتیں بھی شامل ہونے کی کوشش کررہی ہیں۔ دوسری جانب ٹرمپ کی امن کی کوششوں کو جھٹکا لگا ہے،کیونکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے مکمل جنگ بندی کی تجویزکو مسترد کردیا ہے۔ دراصل ٹرمپ یوکرین کے مسئلے سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، وہ روس کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری بحال کرنا چاہتے ہیں، اور وہ نہیں چاہتے کہ یوکرین جیسا ’چھوٹا مسئلہ‘ ان کی راہ میں رکاوٹ بنے۔
عالمی امور کے ماہرین کے مطابق، روس، یوکرین جنگ میں توانائی کی ڈیمانڈ، سپلائی اور قیمتوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان بھی بری طرح متاثر ہوا ، آئی ایم ایف کے قرضوں کے مسلسل پروگرام اِسی جنگ کی براہِ راست مہربانی ہے۔ جب روس نے جنگ کے بعد تیل اورگیس کی سپلائی پر پابندی لگائی، تو یورپی ممالک تڑپ اُٹھے۔
یوکرین کا بیشتر رقبہ سرسبز و شاداب ہے۔ اس میں کوئی ایسا بڑا پہاڑ نہیں جو برف پوش ہو۔یہاں برف باری تو ہوتی ہے لیکن اس کی وجہ سطح سمندر سے بلندی ہے جیسا کہ براعظم ایشیاء کے بعض ملکوں میں ہم دیکھتے ہیں۔ یوکرین کے پہاڑی سلسلے کم بلند ہیں، زیادہ علاقہ میدانی ہے۔ اس کی مٹی اتنی زرخیز ہے کہ اس میں اگنے والی گندم پاکستان سمیت دوسرے ملکوں کو بھی برآمد کی جاتی ہے۔ پاکستان کا رقبہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ مربع میل ہے اور ہماری آبادی 24کروڑ نفوس سے زیادہ ہے جبکہ یوکرین کا رقبہ تقریباً اڑھائی لاکھ مربع میل ہے اور اس کی آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے اور وہ تین برس سے دنیاکی دوسری بڑی سپرپاور (روس) سے نبرد آزما ہے۔
اس کی اسلحہ ساز فیکٹریاں بھی دن رات چل رہی ہیں اور دوسرے ممالک بھی اس کو دھڑا دھڑ اسلحہ برآمد کررہے ہیں۔ اب تک طرفین کے لاکھوں سولجرز اور سویلینز اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، لیکن یوکرین کو نیٹو ممالک کی طرف سے جو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم ہو رہا ہے، یوکرینی سولجرز اس کو استعمال کرکے روس کو بھی اتنا ہی جانی نقصان پہنچا چکے ہیں جتنا روس، یوکرین کو پہنچا چکا ہے ، یعنی چوٹ برابرکی ہے۔ جنگوں میں صرف گولہ بارود اور چھوٹے بڑے ہتھیار ہی کام نہیں آتے۔ ان ہتھیاروں کے باعث ماحول کی جو تباہی دیکھنے کو ملتی ہے، وہ حیرت انگیز بھی ہے اور حسرت ناک بھی۔جیسا کہ باور کیا جا رہا ہے، امریکی صدر ٹرمپ کی مداخلت سے یہ روس یوکرین تنازعہ شاید آنے والے چند ہفتوں میں ختم ہو جائے، لیکن توپوں، ڈرونوں، بارودی سرنگوں اور میزائلوں سے جو بربادی اس سرزمین کا مقدر بن چکی ہے وہ آنے والے کئی برسوں تک بھی برقرار رہے گی۔ یوکرین، روس کے بعد، یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے۔
اس پر جو بربادی اس جنگ کی وجہ سے وارد ہو چکی اس کے اثرات شاید آنے والے کئی عشروں تک بھی برقرار رہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی، پولینڈ اور اردگرد کے ممالک میں چھے برسوں میں جو تباہی مچی، اس کو امریکا نے دو تین برسوں ہی میں ختم کردیا تھا، لیکن اگر یوکرین میں یہ جنگ بند بھی ہوگئی تو اس کی زمین، اس کی بندرگاہوں بحیرہ اسود اور بحیرہ آزوف اور اس کی آب و ہوا کی تباہی کو معمول پر آنے کے لیے کئی برس درکار ہوں گے۔ آج یوکرین کے میدان ہائے جنگ کا حال یہ ہے کہ وہاں کی زمینوں میں توپوں کے گولوں سے پڑنے والے گڑھوں کی تعداد، لاتعداد ہو چکی ہے، تمام فضا زہرآلود ہے اور بارود کی بُو یوکرین کے طول و عرض میں پھیل چکی ہے۔
صدر ٹرمپ کے اقدامات، بیانیے اور مطالبات کو جوڑیں تو ایک پریشان کن منظر ابھرتا ہے۔ وہ احساس جوکبھی قومی ذمے داری کو نبھانے یا اس عالمی نظام برقرار رکھنے یا اس کی مرمت کے لیے تھا، جس کے قیام میں کبھی امریکا اور برطانیہ نے مدد کی، اب مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ روایتی اتحادیوں اور اتحادوں سے وفاداری ختم ہوچکی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی تجارتی تنظیم جیسے اداروں کی مفلوج حالت، عالمی معیشت کے زوال کو تیزکر رہی ہے۔ صدر ٹرمپ ایک نئے دورکا آغاز دیکھ رہے ہیں جہاں ہر ملک اپنی بقا کی جنگ خود لڑے گا۔ اس تصور میں پرانے بین الاقوامی نظام کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ بریٹن ووڈز سسٹم کو فرسودہ بوجھ سمجھا جا رہا ہے اور طاقت کو علاقائی اثر و رسوخ کے دائروں میں دوبارہ تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اس منطق کے تحت گرین لینڈ اور پانامہ امریکا کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں جب کہ یوکرین کو روس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسی دوران یورپ،کینیڈا اور میکسیکو اب معاشی حریف سمجھے جاتے ہیں۔
اگر تجارتی معاہدے ایسے شرائط پر نہ ہو سکیں جو مکمل طور پر امریکا کے حق میں ہوں، تو پھر جوابی محصولات کے لیے تیار رہیں۔ اس نئے عالمی انتشار کو کارآمد بنانے کے لیے پوتن کو بحال کرنا ضروری ہے اور روس کو دوبارہ بین الاقوامی نظام میں شامل کرنا ہوگا۔ پابندیاں ختم کرنی ہوں گی، اور معاہدے کرنے ہوں گے۔وسیع تر تناظر میں، دنیا پہلے ہی دو مخالف کیمپوں میں بٹ رہی ہے۔ مغرب کے مقابلے میں چین، جسے بڑھتی ہوئی تعداد میں ریاستوں کی حمایت حاصل ہے، جو کھلم کھلا اس نازک عالمی نظام کو مسترد کر رہی ہیں جسے ہم نے طویل عرصے سے یقینی سمجھ رکھا تھا، اگر یورپ اور امریکا ایک پیج پر نہ ہوئے، جب چین ٹیکنالوجی، معیشت اور عسکری برتری کے لیے امریکا کو چیلنج کر رہا ہے، تو یہ خارج از امکان نہیں کہ دنیا ایک بار پھر جنگ کی دہلیز پر پہنچ جائے۔
ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ جتنی دیر ہم امریکا میں جاری اس خطرناک سیاسی تجربے سے نظریں چراتے رہیں گے، اتنا ہی کم وقت ہمارے پاس اس کا جواب دینے کے لیے باقی بچے گا۔ ایک عالمی طاقت کی جانب سے بین الاقوامی معاملات پر توجہ نہ دینے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ باقی دنیا کے تنازعات اسی طرح برقرار رہیں اور ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے جیسا کہ غزہ میں حماس اور اسرائیل کی جنگ جو فی الحال ایک معاہدے کے تحت جنگ بندی پر منتج ہوئی تھی لیکن اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کی پاسداری نہیں کی گئی۔ اسرائیلی مغویوں کی رہائی میں کچھ تاخیر ہونے کی وجہ سے اسرائیل نے غزہ پر پھر بمباری شروع کر دی ہے، وہاں یہ کیسے ممکن ہوگا کہ معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے معاملات تھوڑے بھی آگے پیچھے ہوئے تو اسرائیلی قیادت آپے سے باہر نہیں ہو جائے گی؟
دوسری جانب اسرائیل اور ایران کے تعلقات میں بھی کشیدگی پہلے سے زیادہ پائی جاتی ہے اور ٹرمپ ایران کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں یہ بھی سب پر واضح ہے، چنانچہ اگر خدانخواستہ اسرائیل اور ایران کے مابین غزہ یا لبنان کے تنازع اور شام کی جنگ کو لے کر اختلافات بڑھے تو امریکی صدر خاموش تماشائی کے سوا کوئی اور کردار ادا نہیں کرسکیں گے، البتہ صدر ٹرمپ یوکرین کی جنگ بند کرانے میں سرگرم کردار ادا کرنے کی ضرور کوشش کریں گے، وجہ یہ ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے امریکی معیشت براہ راست متاثر ہو رہی ہے۔
یہ جنگ یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے تنازع پر شروع ہوئی تھی جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ امریکا کو نیٹو اتحاد سے نکل جانا چاہیے۔ امریکا کے نیٹو اتحاد سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ نیٹو کا خاتمہ ، جب نیٹو تنظیم موجود ہی نہیں ہوگی یا مکمل غیر فعال ہو جائے گی تو اس کو وسعت دینے کی بنیاد پر شروع ہونے والی جنگ کے جاری رہنے کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ لگتا یہی ہے کہ ٹرمپ دور میں بھی بین الاقوامی تنازعات کا ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رہے گا۔