واشنگٹن:

نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھانے سے پہلے واشنگٹن میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ جو بائیڈن کے تمام ایگزیکٹو آرڈرز کو منسوخ کر دیں گے۔

انہوں نے ٹک ٹاک کو بحال کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ مجھے یہ ایپ پسند ہے ۔ اسکے پچاس فیصد شیئر امریکہ کو ملنا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے الیکشن میں بڑی مشکل سے کامیابی حاصل کی ہے، امریکہ کو ایک بار پھر عظیم بنانے جارہے ہیں۔ملک کو بدنام اسٹیبلشمنٹ سے نجات دلائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکی سرحدوں کو محفوظ بنائیں گے اور دراندازی روکیں گے۔

میرے صدارت سنبھا لنے سے پہلے ہی تبدیلیاں آرہی ہیں، ہم تاریخی رفتار اور طاقت سے کام کریں گے۔

غزہ میں جنگ بندی مشرق وسطیٰ میں امن کےلئے ایک اہم قدم ہے ۔ ایران کے پاس اب حماس کی مدد کے لئے پیسہ نہیں ہے۔ اس موقع پر ایلون مسک نے بھی خطاب کیا۔  

غیر ملکی میڈیا کے مطابق اپنی صدارت کے پہلے دن نو منتخب صدر متعدد ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کچھ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ امیگریشن سمیت دیگر امور پر درجنوں احکامات پر دستخط کرسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کا ہر بنیاد پرست اور احمقانہ انتظامی حکم میرے عہدے کا حلف اٹھانے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی منسوخ کر دیا جائے گا۔'

نو منتخب صدر نے کہا کہ آپ کو کل ٹیلی ویژن دیکھنے میں بہت مزہ آئے گا۔

یہاں کچھ اقدامات ہیں جو انہوں نے بیان کیے ہیں جو وہ ایگزیکٹو احکامات کے ذریعہ کریں گے۔

ان احکامات میں امریکی تاریخ کا سب سے بڑا جلاوطنی پروگرام شروع کرنا، ماحولیاتی قوانین میں کمی کا اعلان، مصنوعی ذہانت (اے آئی) میں اضافے کا فیصلہ شامل ہے۔

نو منتخبت صدر ممکنہ طور پر حلف اٹھاتے ہی ڈوگے نامی نیا محکمہ بنانے کا اعلان بھی کریں گے، اس کے علاوہ سابق صدور کے قتل سے متعلق ریکارڈ کی فراہمی کی ہدایات بھی دیں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ فوج کو عظیم "آئرن ڈوم" میزائل بطور دفاعی ڈھال بنانے کی ہدایت کریں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کریں گے کہا کہ

پڑھیں:

ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل

اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔ تحریر: آتوسا دینیاریان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے من پسند پالیسیوں پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً چین کے خلاف ٹیرف کی ایک وسیع جنگ شروع کی ہے، اس طرزعمل کے نتائج نے موجودہ امریکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عوام کے عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ریاستہائے متحدہ میں معاشی حالات خراب ہوئے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے امریکی صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تحفظ پسند پالیسیوں کو نافذ کرکے اور چین اور دیگر ممالک کے خلاف تجارتی محصولات میں اضافہ کرکے "عظیم امریکی خواب" کے نظریے کو بحال کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، معاشی ترقی کی رفتار میں کمی اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔

ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی:
اس وقت صرف 44% امریکی ان کے معاشی انتظام سے مطمئن ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آئے گا۔

افراط زر اور بڑھتی ہوئی قیمتیں:
افراط زر کی شرح 3% تک پہنچ گئی ہے، جبکہ فیڈرل ریزرو کا ہدف 2% ہے۔ یہ وہ علامات ہیں، جو کسی ملک میں کساد بازاری کو دعوت دینے کے مترادف سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی کی رفتار رک جاتی ہے اور سست اقتصادی ترقی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ تجارتی پالیسی کے عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کار طویل مدتی سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگتے ہیں۔

بڑے پیمانے پر احتجاج:
 ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں امریکیوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے متوسط ​​طبقے اور محنت کشوں کی ان پالیسیوں سے عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں، جو دولت مند اور بڑی کارپوریشنز کے حق میں ہیں۔ ادھر فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیرف مہنگائی اور سست اقتصادی ترقی کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کے معاشی فیصلے ظاہری طور پر امریکی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ملکی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے دعوے کے ساتھ کیے گئے تھے، لیکن عملی طور پر وہ مسابقت میں کمی، قیمتوں میں اضافے، معاشی ترقی میں سست روی اور مارکیٹ میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل
  • روس اور یوکرین رواں ہفتے معاہدہ کرلیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • روس اور یوکرین رواں ہفتے معاہدہ کر لیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز
  • چینی، بھارتی طلبا کی ویزا قوانین پر ٹرمپ کے خلاف قانونی جنگ
  • ’ امریکا میں کوئی بادشاہ نہیں‘ مختلف شہروں میں ٹرمپ مخالف مظاہرے
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکا میں 700 مقامات پر ہزاروں افراد کے مظاہرے
  • ہفتے کی چھٹی منسوخ کرنے کا اعلان
  • ٹرمپ انتظامیہ شام پر عائد پابندیوں میں نرمی پر غور کر رہی ہے،امریکی اخبار