حماس کی جانب سے رہا کی جانے والی تین اسرائیلی خواتین قیدی کون ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
GAZA:
حماس نے قطر، مصر اور امریکا کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی معاہدے کے تحت ابتدائی طور پر 3 اسرائیلی خواتین قیدیوں کے نام جاری کیے ہیں اورایک اسرائیلی فوج تک پہنچ گئی ہیں۔
غیرملکی خبرایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی حکومت نے آخری وقت تک رہائی پانے والی تینوں خواتین کے ناموں کی تصدیق نہیں کی کیونکہ انہیں حماس کی جانب مذکورہ قیدیوں کی حوالگی تک یقین نہیں ہے۔
دوسری جانب قیدیوں کے اہل خانہ کی جانب سے ان افراد کے نام بتائے گئے ہیں۔
رومی گونین
حماس نے 23 سالہ اسرائیلی ڈانسر کو 7 اکتوبر 2023 کو نووا میوزک فیسٹول سے حراست میں لیا تھا تاہم گونین نے قید میں جانے سے چند لمحے پہلے فون پر اپنے دوستوں کو بتایا کہ وہ مسلح افراد کی آمد تک اپنے متعدد دوستوں کے ہمراہ چھپ کر بیٹھی رہیں۔
انہوں نے بتایا کہ فائرنگ کے نتیجے میں ان کے ہاتھ میں گولی لگی ہے۔
رومی گونین جب اپنے گھروالوں سے بات کر رہی تھی تو اسی دوران انہیں کہتے ہوئے سنا گیا کہ میں آج مرنے جا رہی ہوں تاہم گھروالوں کو حملہ آوروں کی آواز سنائی دی کہ جو عربی میں بات کر رہے تھے کہ یہ زندہ ہیں انہیں اٹھا لو۔
رپورٹ کے مطابق بعد ازاں جب ان کے موبائل کو ٹریس کیا گیا تو لوکیشن غزہ کی پٹی کی آئی تھی۔
ڈورون اسٹینبریشر
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ڈورون اسٹینبریشر 30 سالہ ویٹرنری نرس ہیں جنہیں غزہ سے اٹھالیا گیا تھا۔
انہوں نے حملے کے چند گھنٹے بعد اپنے والدین کو فون کیا اور بتایا کہ وہ خوف زدہ ہیں اور مسلح افراد ان کی عمارت میں داخل ہوگئے ہیں۔
اس کے بعد انہوں نے اپنے دوستوں کو پیغام بھیجا کہ وہ پہنچ گئے ہیں اور ہمیں گرفتار کرلیا ہے۔
ایملی داماری
برطانوی نژاد 28 سالہ اسرائیلی کو بھی غزہ سے گرفتار کرلیا گیا تھا، ایملی لندن میں پیدا ہوئی، وہی پلی بڑھی اور انگلش پریمیئر لیگ کی ٹیم ٹوٹنہم ہوٹسپر کی مداح ہیں۔
ایملی داماری کی والدہ نے بتایا کہ ان کے ہاتھ میں گولی لگی تھی اور پاؤں میں چھرے لگنے سے زخم آگئےتھے تاہم ان کی آنکھوں میں پٹی باندھ کر ان کی کار میں غزہ پہنچا دیا گیا تھا۔
حماس نے اب تینوں قیدیوں کو اسرائیلی حکومت کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں رہا کردیا ہے اور ریڈکراس نے تینوں خواتین کو اسرائیل فوج کے ذریعے ان کے اہل خانہ تک پہنچا دیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
علاقے میں پائی جانے والی خاموشی کو ہرگز امن کا نام نہیں دیا جا سکتا
سرینگر اور دیگر علاقوں میں شہریوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی فوجیوں اور پیرا ملٹری اہلکاروں نے جبر و استبداد کی کارروائیوں کے ذریعے علاقے میں خوف و دہشت کا ماحول قائم کر رکھا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں سرینگر اور دیگر علاقوں میں شہریوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے میں پائی جانے والی خاموشی کو ہرگز امن کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فوجیوں اور پیرا ملٹری اہلکاروں نے جبر و استبداد کی کارروائیوں کے ذریعے علاقے میں خوف و دہشت کا ماحول قائم کر رکھا ہے، قابض بھارتی اہلکار طاقت کے بل پر لوگوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے اگست 2019ء میں علاقے کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد کشمیریوں کے خلاف اپنی پرتشدد مہم میں تیزی لائی، میڈیا پر قدغیں عائد کیں اور صحافیوں کو سچائی سامنے لانے سے روکا۔ شہریوں نے کہا کہ علاقے میں اس وقت جو خاموشی کا ماحول نظر آ رہا ہے اور جسے بھارت امن کا نام دے رہا ہے یہ دراصل امن نہیں بلکہ خوف و دہشت ہے جو طاقت کے بل پر یہاں پھیلایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف ”یو اے پی اے“ جیسے کالے قوانین کا استعمال، این آئی اے اور ایس آئی اے جیسے بدنام زمانہ تحقیقاتی اداروں کے ذریعے ڈرانے دھمکانے کی کارروائیاں یہاں پائی جانے والی خاموشی کا اصل سبب ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاسی مبصرین کا بھی کہنا ہے کہ بھارت جبر و ستم کی کارروائیوں کے ذریعے مقبوضہ علاقے میں آزادی کی آوازوں کو خاموش کرانے کی کوشش کر رہا ہے اور خوف و دہشت کو امن کا نام دے رہا ہے۔ ایک سابق پروفیسر نے انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ”یہ وحشیانہ فوجی طاقت کے ذریعے قائم کی گئی خاموشی ہے، لوگ پہلے کی طرح سب کچھ محسوس کر رہے ہیں لیکن انہوں نے ڈر کے مارے اپنے جذبات کا اظہار کرنا چھوڑ دیا ہے۔“