آؤٹ ہے یا ناٹ آؤٹ؟ پاک ویسٹ انڈیز ٹیسٹ میچ میں دلچسپ صورت حال، ویڈیو دیکھیں
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
ملتان:
پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان کھیلے گئے سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ میں آخری روز فیلڈنگ کا ایک دلچسپ منظر دیکھنے میں آیا۔
دوسری اننگز کے آخری روز یہ موقع 34.4 اوور میں اُس وقت آیا جب ابرار احمد بولنگ کررہے تھے۔
ابرار احمد نے بول کرائی تو گیند ویسٹ انڈیز کے بیٹسمین سنکلیئرکے بلے کا اوپری کنارہ چھو کو سلپ کی جانب نکلی جہاں سلمان علی آغا نے ڈائیو لگا کر سیکنڈ سلپ میں کیچ لیا۔
سلمان علی آغا نے کیچ لینے کے بعد قلابازی کھاتے ہی گیند کو زمین پر پھینکا اور پھر کھلاڑی ایک ساتھ کھڑے ہوکر جشن منانے لگے۔
اس موقع پر ویسٹ انڈیز کے بلے باز حیران ہوئے اور وہ خود کو ناٹ آؤٹ سمجھتے رہے تاہم تھوڑی ہی دیر میں امپائر نے انہیں صورت حال سے آگاہ کیا تو وہ پویلین لوٹ گئے۔
شائقین کرکٹ سلمان علی آغا کے اس کیچ کو اُن کے اب تک کے کیریئر اور پہلے ٹیسٹ کا بہترین کیچ قرار دے رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ویسٹ انڈیز
پڑھیں:
دوسری شادی کرنے کی صورت میں بچے کی کسٹڈی کا حق دار کون؟ عدالت کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ایس رضا کاظمی نے بچوں کی حوالگی کے حوالے سے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے دوسری شادی کرنے کے باوجود ماں کو ہی بچے کی کسٹڈی کا حق دار قرار دے دیا۔
جسٹس احسن رضا کاظمی نے نازیہ بی بی کی درخواست پر 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا، عدالت نے دوسری شادی کی بنیاد دس سالہ بچے کو ماں سے لیکر باپ کو دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
فیصلے میں کہا کہ بچوں کے حوالگی کے کیسز میں سب سے اہم نقطہ بچوں کی فلاح وبہبود ہونا چاہیے، عام طور پر ماں کو ہی بچوں کی کسٹڈی کا حق ہے، اگر ماں دوسری شادی کر لے تو یہ حق ضبط کر لیا جاتا ہے۔
اس میں کہا گیا کہ یہ کوئی حتمی اصول نہیں ہے کہ ماں دوسری شادی کرنے پر بچوں سے محروم ہو جائے گی، غیر معمولی حالات میں عدالت ماں کی دوسری شادی کے باوجود بچے کی بہتری کی بہتری کےلیے اسے ماں کے حوالے کرسکتی ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ کیس میں یہ حقیقت ہے کہ بچہ شروع دن سے ماں کے پاس ہے، صرف دوسری شادی کرنے پر ماں سے بچے کی کسٹڈی واپس لینا درست فیصلہ نہیں، ایسے سخت فیصلے سے بچے کی شخصیت پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔
جج نے قرار دیا کہ موجودہ کیس میں میاں بیوی کی علیحدگی 2016 میں ہوئی، والد نے 2022 میں بچے کی حوالگی کے حوالے سے فیصلہ دائر کیا، والد اپنے دعوے میں یہ بتانے سے قاصر رہا کہ اس نے چھ سال تک کیوں دعوا نہیں دائر کیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ والد نے بچے کی خرچے کے دعوے ممکنہ شکست کے باعث حوالگی کا دعوا دائر کیا، ٹرائل کورٹ نے کیس میں اٹھائے گئے اہم نقاط کو دیکھے بغیر فیصلہ کیا، عدالت ٹرائل کورٹ کی جانب سے بچے کی حوالگی والد کو دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتی ہے۔