واشنگٹن: ڈاکٹر عافیہ صدیقی رہائی اور وطن واپسی کیلئے سینیٹر محمد طلحہ محمود ، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی امریکا میں متحرک ہیںاورگزشتہ   ایک ہفتہ سےمختلف امریکی حکام سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں، ان ملاقاتوں کا مقصدامریکی صدر جو بائیڈن کے دفتر میں سزا کے خاتمے کے لیے جمع کرائی گئی درخواست (Clemency Petition) کی منظوری حاصل کرنا ہے اس موقع پر وکیل کلائیو اسمتھ اور ماریہ کاری بھی انکے ہمراہ ہیں، قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے آن لائن پٹیشن پر ڈیڑھ ملین سے زائدافرادنے دستخط کر دیئے۔ سینیٹر محمد طلحہ محمود کا کہنا تھا کہ عافیہ صدیقی معصوم ہیں ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں، اگر بالفرض ان الزامات کو مان بھی لیا جائے تب بھی ان جرائم کی سزا امریکی قانون کے مطابق 10 سال ہے مگر عافیہ صدیقی کو امریکی جیلوں میں 16 سال ہوچکے۔  لہذا ہماری کوشش ہے کہ صدر جوبائیڈن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا معاف کریں اور ان کو رہا کریں تاکہ وہ اپنی آخری عمر اپنے خاندان کے ساتھ گزار سکیں اس وقت انکی عمر50 سال سے زیادہ ہوچکی، اپنی جوانی کی عمر انہوں نے جیلوں میں مصائب جھیلتے گزار دی۔انہوں نے کہاکہ  ہمیں امریکی حکام سے بھرپور امید ہے کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر لائیں گے اور جلد عافیہ صدیقی کی رہائی کو یقینی بنائیں گے۔  ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نےوکلا کے ہمراہ اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے جیل میں ملاقات کی ان کا بھی کہنا تھا کہ ہمیں بھرپور یقین ہے کہ امریکی حکام، صدر بائیڈن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور سزا معافی کی اپیل کو قبول کریں گے اور عافیہ صدیقی کو رہا کریں گے ۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستانی قوم سے دعاؤں کی بھی درخواست کی اور اپیل کی کہ وہ اپنے طور پر بھی آواز اٹھائیں تاکہ عافیہ صدیقی کی رہائی ممکن ہوسکے۔ سینیٹر محمد طلحہ محمود کا مزید کہنا تھا کہ ہم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں اور یہ کوششیں ہر سطح پرجاری رہیں گی،انشاءاللہ

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: عافیہ صدیقی کی رہائی ڈاکٹر عافیہ صدیقی

پڑھیں:

عمران خان کیلئے امریکی دبائو؟ فسانہ یا حقیقت

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بین الاقوامی مداخلت کوئی نئی بات نہیں۔ جب بھی ملک میں سیاسی کشیدگی عروج پر ہوتی ہے، عالمی طاقتیں خصوصاً امریکی حکومت اپنی خارجہ پالیسی کے تحت مداخلت کرتی نظر آتی ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بعد کے سیاسی حالات نے عالمی سطح پر خاصی توجہ حاصل کی ہے۔ اس حوالے سے یہ سوال ابھر رہا ہے کہ کیا عمران خان کی رہائی کے لیے امریکہ کسی قسم کا دبائو ڈال رہا ہے؟ اگر ہاں، تو اس دبائو کی نوعیت، وجوہات اور ممکنہ اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟
امریکہ کا جنوبی ایشیا میں ایک اہم اسٹرٹیجک کردار ہے۔ پاکستان ایک نیوکلیئر ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ افغانستان کے حوالے سے بھی اہم جغرافیائی حیثیت رکھتا ہے۔ سی پیک روٹ نے اس اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے، عمران خان کی بطور وزیراعظم خارجہ پالیسی نسبتاًخود مختار اور مغرب سے کچھ فاصلہ رکھنے کی حامل رہی، جس میں چین، روس اور اسلامی دنیا کے ساتھ تعلقات کو کسی حد تک فوقیت دینے کی کوشش کی گئی۔ ان پالیسیوں نے واشنگٹن میں کچھ حلقوں کو پریشان ضرور کیا، مگر عمران خان کی مقبولیت اور عوامی حمایت نے انہیں نظر انداز کرنا مشکل بنا دیا۔
امریکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق اور جمہوریت کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری اور ان پر مقدمات کو اکثر بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں متنازع قرار دیتی رہی ہیں۔ اس تناظر میں امریکی حکام نے کچھ مواقع پر پاکستان کی حکومت سے انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا، جسے عمران خان کے حامی ان کی ’’رہائی کے لیے دبائو‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ اس حوالے سے تاحال یقین سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
حال ہی میں امریکی کانگریس کے رکن جیک برگ مین کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطح کے کانگریسی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا، جسے مبصرین نے عمران خان کے کیس اور انسانی حقوق کی صورتحال کے تناظر میں خاصی اہمیت دی۔ اس وفد نے حکومتی و عسکری حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں سیاسی استحکام، عدالتی شفافیت اور انسانی حقوق کے احترام پر زور دیا۔ اگرچہ ان ملاقاتوں کی تفصیلات مکمل طور پر سامنے نہیں آئیں، لیکن بعض ذرائع یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ عمران خان کی طویل قید اور ان کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر بھی غیر رسمی طور پر گفتگو کی گئی۔ اس دورے کو عمران خان کی رہائی کے لیے عالمی دبا ئو کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکہ میں کئی قانون ساز اور ٹرمپ ٹیم کے کچھ لوگ اپنے ٹویٹس اور بیانات میں عمران خان کی حراست کو جمہوری اقدار کے منافی قرار دے چکے ہیں۔
کئی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ امریکہ پسِ پردہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے ساتھ ایسے رابطے رکھتا ہے جن کے ذریعے وہ اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بناتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عمران خان جیسے مقبول لیڈر کی جیل میں موجودگی پاکستان کے سیاسی منظرنامے کو غیر متوازن کر دے، جس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہو۔ امریکہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے کسی ’’نرم مداخلت‘‘ کی پالیسی اپنا سکتا ہے۔
اگر واقعی امریکہ عمران خان کی رہائی کے لیے دبائو ڈال رہا ہے تو اس کے دو بڑے اثرات ہوسکتے ہیں۔
-1سیاسی ریلیف: عمران خان کو کسی عدالتی یا سیاسی ڈیل کے ذریعے ریلیف مل سکتا ہے، جس سے وہ ایک بار پھر سیاسی میدان میں فعال ہو جائیں گے۔
-2 عوامی تاثر: امریکی دبائو سے رہائی کی صورت میں عمران خان کی عوامی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ ’’ بین الاقوامی حمایت رکھنے والے قومی لیڈر‘‘کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔
عمران خان کی رہائی کے لیے امریکی دبائو ایک حقیقت بھی ہو سکتا ہے اور محض سیاسی بیانیہ بھی۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ عمران خان کی شخصیت اور مقبولیت نے پاکستان کی سیاست کو عالمی سطح پر ایک نئے تناظر میں پیش کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اگر عمران خان کو رہائی ملتی ہے، تو یہ جانچنا ضروری ہوگا کہ اس میں بین الاقوامی سفارت کاری کا کتنا عمل دخل تھا۔ اس معاملے کا ایک اور پہلو خود عمران خان اور ان کی سیاست کیلئے مہلک بھی ثابت ہو سکتا ہے، کپتان کی سیاست کی بنیاد ان کا یہ بیانیہ رہا ہے کہ پاکستان کے سیاسی معاملات میں بین الاقوامی مداخلت نہیں ہونی چاہیئے، اس حوالے سے ایک جلسہ عام میں مبینہ سائفر لہرانا ایک بڑا واقعہ تھا، لیکن اگر اب وہ خود امریکی دبا ئوکے ذریعے جیل سے رہائی پاتے ہیں یا اقتدار میں واپس آتے ہیں تو یہ عمل خود ان کے اپنے بیانیہ کی نفی ہوگا۔
دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا دعویٰ ہے کہ جیک برگ مین کی قیادت میں پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی وفد نے عمران خان کی رہائی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی، حکومت اسے دوٹوک انداز میں پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے رہی ہے، لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب ایسے دو اندرونی معاملات میں پہلے بھی مداخلت کرچکے ہیں، میاں نواز شریف کے حوالے سے سعودی عرب نے دوبار مداخلت کی اور دونوں بار انہیں جیل سے رہائی پاکر بیرون ملک جانے کی سہولت مہیا کی گئی، محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کیلئے اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف کے ساتھ ان کی ڈیل کروانے میں بھی امریکہ کا کردار نمایاں رہا، اس لئے یہ کہنا بے جا نہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی بھی وقت کوئی بھی معاملہ طے پا سکتا ہے اور اس میں گارنٹر کا کردار کون ادا کرتا ہے یہ تو وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا، تاہم اس حوالے سے 3ممالک امریکہ ، سعودی عرب اور چین کا نام لیا جا رہا ہے۔ واللہ اعلم باالصواب

متعلقہ مضامین

  • ڈیڑھ لاکھ ماہانہ تنخواہ، پی ایچ ڈی طلبہ کیلئے خوشخبری
  • اسلام آباد میں یونیورسٹی طالبہ کا قتل، قاتل ہاسٹل میں ڈیڑھ گھنٹے تک کیا کرتا رہا؟
  • وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سے کنوینئر پارلیمانی کاکس آن چائلڈ رائٹس ڈاکٹر نکہت شکیل خان کی سربراہی میں وفد کی ملاقات
  • طلبا و طالبات کے لئے روزگار، ماہانہ ڈیڑھ لاکھ تنخواہ
  • خاندان کی موت، 4 سالہ بچی کئی دن تک چاکلیٹ کھا کر زندہ رہی
  • ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ایک ہمہ جہت شخصیت
  • کل جماعتی حریت کانفرنس کا حریت قیادت سمیت تمام کشمیری نظربندوں کی رہائی کا مطالبہ
  • عمران خان کیلئے امریکی دبائو؟ فسانہ یا حقیقت
  • بیک ڈور رابطوں میں بڑی ڈیل، 45 روز میں عمران خان کی رہائی، بڑی خبر سامنے آگئی
  • 4 بچوں کی ماں اپنی بیٹی کے سسر کے ساتھ بھاگ گئی