کراچی:

امریکی جیل میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا طبی معائنہ کرنے والے پاکستانی پروفیسر اقبال آفریدی نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں صحت کے پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے جبکہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار بھی ہیں۔

پاکستان کے ذہنی امراض کے ماہر میری ٹوریس پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی نے پاکستان پہنچنے پر ایکسپریس ٹربیون سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی آئندہ چند روز میں رہائی کا امکان ہے لیکن امریکا میں 16 سال سے قید پاکستانی ڈاکٹر کو صحت کے پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی نے کہا کہ امید ہے امریکی صدر جوبائیڈن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی باقی سزا معاف کرکے انھیں 20 جنوری تک رہا کر دیں گے۔ اگر جوبائیڈن نے رہا نہ کیا تو نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے حکومتی سطح پر دوبارہ بات چیت کی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ حکومتی سطح پر تین رکنی پاکستانی وفد امریکا گیا تھا جس میں، میں خود بھی شامل تھا۔ ہم یہ چاہتے تھے ہم امریکی صدر جوبائیڈن سے ملاقات کرکے ڈاکٹر عافیہ کی ایڈوکیسی کرے لیکن ویزا پروسس میں تاخیر ہونے کی وجہ سے یہ ممکن نا ہو سکا لیکن ہمارے وفد نے متعدد امریکی سینیٹرز اور دفتر خارجہ سے ملاقاتیں کیں اور یہ موقف اختیار کیا کہ ڈاکٹر عافیہ کو رہا کیا جائے گا۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی نے بتایا کہ اس حوالے سے  پاکستان کے وزیراعظم نے بھی امریکی حکام کو خط لکھا تھا جس میں درخواست کی گئی تھی کہ ڈاکٹر عافیہ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کیا جائے۔ اقدام قتل کی سزا 10 سال تک ہوتی ہے لیکن ڈاکٹر عافیہ امریکا کی جیل میں 16 سال کی قید کاٹ رہی ہیں۔

مزید پڑھیں؛ نئے شواہد سامنے آنے کے بعد عافیہ صدیقی جو بائیڈن سے صدارتی معافی ملنے کے لیے پرامید

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کو 86 سال کی سزا سنائی گئی تھی اور وہ 20 سال سے اپنے بچوں سے دور ہیں، اب عافیہ کو قید میں رکھ کر امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسے کو بلاوجہ خرچ کر رہے ہیں۔ عافیہ صدیقی امریکی عوام میں مقبول نہیں جبکہ پاکستان میں 99 فیصد سے زائد لوگ عافیہ کو جانتے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی نے کہا کہ اگر امریکا ڈاکٹر عافیہ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کر دے گا تو ہاکستان کے 25 کروڑ عوام اور دنیا بھر کے 2 ارب سے زائد مسلمانوں میں امریکی امیچ بہتر ہو جائے گا۔

ایکسپریس ٹربیون کو انٹرویو میں انکشاف کیا کہ امریکا کے شہر ڈیلس کی جیل میں قید تنہائی پانے والی پاکستانی ڈاکثر عافیہ صدیقی کا تین گھنٹے تفصیلی طبی معائنہ کیا تھا جس پر معلوم ہوا کہ وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں جبکہ دیگر طبی پیچیدگیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی حکومت رہا کر دے اور ان کو پاکستانی ماحول میں رکھا جائے تو بہت جلد ان کے صحت کے مسائل ٹھیک ہو جائیں گے۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی مارچ 2003 میں کراچی سے اسلام آباد ایئرپورٹ جا رہی تھیں کہ راستے میں ٹیکسی روک کر انہیں ان کے تین بچوں سمیت گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد وہ پانچ سال تک لاپتا رہیں۔

سال 2008 میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ ایک پاکستانی خاتون بلگرام افغانستان کی جیل میں قید ہیں۔ بعدازاں، ڈاکٹر عافیہ کو امریکا منتقل کر دیا گیا تھا۔ سن 2010 میں نیویارک کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں امریکی سی آئی اے کے اہلکاروں کو ہلاک کرنے کی کوشش میں مقدمہ چلا جس میں ان کے بیٹے احمد اور بیٹی مریم کو بالترتیب 2008 اور 2010 میں رہا کر دیا گیا تھا۔ دونوں بچے کراچی آگئے تھے اگرچہ تیسرے بچے سلیمان کے بارے میں ابھی تک معلوم نہیں چلا جس کی عمر چھ ماہ تھی۔

جولائی اور اگست 2014 میں امریکا بھر سے ایک لاکھ 10 ہزار مسلم اور غیر مسلم امریکیوں نے وائٹ ہاوس کی ویب سائٹ پر ایک پٹیشن پر دستخط کیے تھے جس میں ڈاکثر عافیہ کی فوری رہائی اور پاکستان منتقلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس پٹیشن پر دستخط کرنے والوں میں سابق امریکی اٹارنی جنرل رامسے کلارک اور دیگر اہم شخیصات شامل تھیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جیل میں گیا تھا رہا کر کہا کہ تھا جس صحت کے

پڑھیں:

یمن میں امریکہ کو بری طرح شکست کا سامنا ہے، رپورٹ

اسلام ٹائمز: ایران کو تزویراتی گہرائی اور معاشی وسائل کی فراوانی اور ہتھیاروں کی مقدار اور معیار کے لحاظ سے حوثیوں پر برتری حاصل ہے اور اس کے پاس تیز رفتار اینٹی شپ میزائل ہیں جو امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو ہلاکت خیز دھمکی دینے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ جیسے جیسے امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت بتدریج ختم ہوتی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ اب اپنے عالمی مفادات کو پہلے جیسی آسانی کے ساتھ برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ خصوصی رپورٹ:

چینی ویب سائٹ SOHO کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کو فوجی طاقت اور وسیع فوجی سہولیات کے باوجود یمن کے انصار اللہ کے مقابلے میں بری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جیسا کہ کہاوت ہے کہ کاٹنے والا کتا کبھی نہیں بھونکتا اور حقیقی طاقتور اوچنا نہیں بولتا۔ امریکہ کی موجودہ فوجی طاقت کو دیکھتے ہوئے، اصولی طور پر یہ کہنا ممکن ہے کہ ایران کے ساتھ امریکہ کے تصادم پر یہ مقولہ صادق آتا ہے، جیسا کہ ابتدائی طور پر ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے طاقت کے استعمال کی بات کی، حوثیوں پر تابڑ توڑ حملے ایک ایسی ہی گھن گرج پر مبنی حکمت عملی ہے، جو امریکیوں کو معقول محسوس ہو رہی ہے، لیکن اس کے پیچھے مذکورہ مقولہ ہی سچ لگتا ہے۔

فی الحال، ریاستہائے متحدہ کے پاس دو طیارہ بردار بحری جہاز اور ان کے ساتھ بحیرہ احمر کے علاقے میں اسٹرائیک گروپس موجود ہیں، جن کے چاروں طرف تباہ کن کشتیوں اور اسکارٹ جہازوں کے بیڑے ہیں۔ اس کے علاوہ، واشنگٹن نے بڑی تعداد میں B-2 سٹیلتھ بمبار طیاروں کو اپنی سرزمین سے منتقل کر دیا ہے اور انہیں بحر ہند میں ایک اڈے پر تعینات کر دیا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر یہ فوجی تعیناتی واضح طور پر حوثیوں کے خلاف ہی ہے۔ لیکن حقیقت میں اس سے امریکہ کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ ایک ماہ سے زیادہ کی مسلسل فضائی بمباری کے باوجود حوثیوں نے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں۔

وہ پہلے کی طرح (غزہ کی حمایت میں) وقتاً فوقتاً جوابی حملے کرتے رہتے ہیں۔ تہران کے ساتھ مذاکرات کے وقت، واشنگٹن نے حوثیوں کے خلاف اپنی جنگ شروع کرنے کو ترجیح دی۔ اگرچہ یہ ایران کو مذاکرات کی شرائط ماننے اور براہ راست جنگ سے بچنے کے لیے مجبور کرنے کے لیے طاقت کا مظاہرہ لگتا ہے، لیکن یہ احتیاط سے تیار کی گئی امریکی چال کارگر ثابت نہیں ہوئی اور بالآخر ایک فسانہ اور جعلی شو میں بدل گئی۔ واشنگٹن کی اعلیٰ فوجی طاقت محدود صلاحیتوں کے ساتھ "یمن کی عوامی فوج" کے خلاف غالب آنے میں ناکام رہی۔ اگر حوثی ایسے ہیں، تو امریکہ ایران سے لڑنے کا فیصلہ کریگا تو حالات کیا ہوں گے؟

ایران کو تزویراتی گہرائی اور معاشی وسائل کی فراوانی سمیت کئی حوالوں سے ہتھیاروں کی مقدار اور معیار کے لحاظ سے حوثیوں پر برتری حاصل ہے اور اس کے پاس تیز رفتار اینٹی شپ میزائل ہیں جو امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو ہلاکت خیز دھمکی دینے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ جیسے جیسے امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت بتدریج ختم ہوتی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ اب اپنے عالمی مفادات کو پہلے جیسی آسانی کے ساتھ برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ امریکہ نے یوکرین کے بحران میں روس کا سر توڑ مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں اور وہ مشرق وسطیٰ میں یمن کی دلدل میں پھنس گیا۔

"واشنگٹن نے خطے میں اپنے سلسلہ وار اقدامات سے ایک مضبوط قوت کا مظاہرہ کرنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن اس کے بالکل برعکس ہوا، اور آج ایسا لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور سب کی نظریں اس طرف لگی ہوئی ہیں کہ کیا واشنگٹن اپنا کام جاری رکھے گا یا ذلت اور مایوسی میں پیچھے ہٹ جائے گا۔"

متعلقہ مضامین

  • امریکی حملے کا منصوبہ ایک اور چیٹ روم میں لیک ہونے کا انکشاف
  • وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سے کنوینئر پارلیمانی کاکس آن چائلڈ رائٹس ڈاکٹر نکہت شکیل خان کی سربراہی میں وفد کی ملاقات
  • امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ کو ایک بار پھر حساس فوجی معلومات کو غیر مجاز لوگوں سے شیئرکرنے کے الزمات کا سامنا
  • کراچی: صحت کے سنگین مسائل کے باوجود 80 سالہ طالبعلم نے پی ایچ ڈی کر لی
  • ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ایک ہمہ جہت شخصیت
  • چارٹر انسپیکشن کمیٹی کے چیئرمین کے لیے پروفیسر سروش لودھی کا انتخاب 
  • یمن میں امریکہ کو بری طرح شکست کا سامنا ہے، رپورٹ
  • توڑ پھوڑ کرنیوالے پاکستانی طلبہ ڈی پورٹ ہوں گے، امریکی ترجمان
  • یونیورسٹیوں میں توڑ پھوڑ کرنیوالے پاکستانی طلبہ ڈی پورٹ ہوں گے، امریکی ترجمان
  • پیچیدہ ٹیکس نظام،رشوت خوری رسمی معیشت کے پھیلاؤ میں رکاوٹ