غزہ میں جنگ بندی سے قبل اسرائیلی فورسز کی کارروائیوں میں تیزی
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
غزہ میں جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل مغربی کنارے پر قابض اسرائیلی فورسز کی کارروائیوں میں تیزی آگئی جب کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسرائیلی فوج کو حکم دیا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی نہ کرے جب تک کہ حماس یرغمالیوں کے نام جاری نہیں کر دیتی۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ عربی نے اپنی اپنی تازہ ترین اپ ڈیٹس میں رپورٹ کیا کہ اسرائیلی فورسز نے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہروں اور قصبوں میں چھاپہ مار کارروائیاں تیز کردیں۔
ذرائع نے الجزیرہ عربی کو بتایا کہ نابلس میں اسرائیلی فورسز نے متعدد علاقوں کے ساتھ ساتھ شرفی مارکیٹ میں واقع جامع مسجد پر بھی دھاوا بول دیا۔
اسرائیلی فورسز نے مختلف علاقوں میں چھاپہ مار کارروائیاں کیں اور اس دوران فائرنگ بھی کی گئی لیکن کسی شخص کی گرفتاری یا زخمی ہونے کی اطلاع موصول نہیں ملی۔
رپورٹ کے مطابق تمون کے علاقے میں اسرائیلی افواج نے نئی فوجی چوکیاں بھی قائم کرلیں۔
ایک اور اپ ڈیٹ میں الجزیرہ عربی نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے وسطی اور جنوبی غزہ پر حملے شروع کر دیے، غزہ کی پٹی کے جنوب میں رفح کے شمالی اور مغربی علاقوں پر 4 چھاپے مارے گئے۔
رپورٹ کے مطابق فلسطینی میڈیا نے وسطی شہر دیر البلاح کے ساتھ ساتھ خان یونس شہر کے قریب اباسان کے جنوبی قصبے میں ایک گودام پر اسرائیلی فضائی حملے کی بھی اطلاع دی، جانی نقصان کے بارے میں فوری طور پر کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی۔
دوسری جانب سے کچھ دیر قبل غیر ملکی خبر رساں ادارے نے رپورٹ کیا کہ اسرائیلی فورسز نے رفح کے علاقوں سے انخلا شروع کردیا۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی افواج نے رفح کے علاقوں سے مصر اور غزہ کی سرحد کے ساتھ واقع فلاڈیلفی کوریڈور کی طرف انخلا شروع کر دیا ہے۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسرائیلی فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی نہ کرے جب تک کہ حماس یرغمالیوں کے نام جاری نہیں کر دیتی۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم نے آئی ڈی ایف کو ہدایت کی ہے کہ جنگ بندی جو کہ مقامی وقت کے مطابق صبح 8 بج کر 30 منٹ پر نافذ ہونی ہے، اس وقت تک نہیں ہو گی جب تک کہ اسرائیل کو رہائی پانے والوں کی فہرست نہیں مل جاتی جو حماس نے فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ 15 ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ آج سے نافذ ہو گا، جس سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی رکنے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔
اسرائیل کابینہ نے جنگ بندی معاہدے کی توثیق کے بعد غزہ میں اس بات کی تصدیق کر دی کہ معاہدہ مکمل طور پر عمل میں آئے گا۔
اسرائیلی وزیراعظم آفس نے بتایا کہ حکومت نے یرغمالیوں کی واپسی کے منصوبے کی منظوری بھی دے دی ہے، اور اس بات کی تصدیق کی کہ اسرائیل اپنے ثابت قدم مؤقف کی بدولت امن کے متلاشی فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔
جنگ بندی معاہدے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ ہم نے مشرقِ وسطیٰ کا چہرہ بدل دیا ہے۔ ہمارے بہن، بھائی اپنے گھروں کو واپس آ رہے ہیں، اور ان میں سے اکثریت زندہ ہے، یہ سب اسرائیل کے ثابت قدم مؤقف کے سبب ممکن ہوا ہے۔
نیتن یاہو نے اس بات کا اعادہ کیا کہ جنگ بندی معاہدے پر عمل اس وقت تک نہیں کیا جائے گا جب تک یرغمالیوں کی فہرست کی مکمل معلومات اسرائیل کے حوالے نہیں کی جاتیں۔
اسرائیلی وزیراعظم نے مزید کہا کہ اسرائیل کو 33 یرغمالیوں کی فہرست موصول ہونے تک معاہدہ آگے نہیں بڑھے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو اسرائیل لڑائی دوبارہ شروع کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
یہ جنگ بندی معاہدہ فلسطین میں کئی ماہ سے جاری خونریزی کے خاتمے کی ایک اہم کوشش ہے، جس سے نہ صرف اسرائیل بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے حوالے سے بھی نئے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسرائیلی فورسز نے جنگ بندی معاہدے رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو نے کہ اسرائیلی کہ اسرائیل
پڑھیں:
اسرائیل کی غزہ میں جنگ روکنے کے لیے ناقابلِ قبول شرائط
ایک اسرائیلی میڈیا آؤٹ لیٹ نے اتوار کو غزہ میں نسل کشی روکنے کے لیے چار ناقابل قبول اسرائیلی شرائط کا انکشاف کیا۔ اسلام ٹائمز۔ آج بروز اتوار، ایک اسرائیلی میڈیا چینل نے غزہ میں نسل کشی کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی چار ناقابلِ قبول شرائط کو بے نقاب کیا۔ فارس نیوز مطابق، اسرائیلی چینل i24NEWS نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ میں جنگ کا خاتمہ اسرائیل کی درج ذیل چار شرائط کی تکمیل پر منحصر ہے، تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، حماس کا مکمل طور پر اقتدار سے دستبردار ہونا، غزہ پٹی کا مکمل غیر مسلح ہونا اور حماس کے درجنوں رہنماؤں کو ملک بدر کرنا۔ یہ شرائط ایسے وقت میں پیش کی جا رہی ہیں جب حماس کئی بار واضح طور پر اعلان کر چکی ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی جنگ کے خاتمے سے مشروط ہے، اور وہ مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح کرنے یا اپنے رہنماؤں کو وطن سے نکالنے کی شرائط کو قبول نہیں کرے گی۔
اس سے قبل، حماس کے ایک رہنما نے المیادین ٹی وی کو بتایا تھا کہ حماس کو غیر مسلح کرنا اور اس کی غزہ میں واپسی کو روکنا اسرائیل کے پیش کردہ جنگ بندی کے منصوبے کا مرکزی نکتہ ہے، جبکہ اس میں مستقل جنگ بندی یا اسرائیلی افواج کی مکمل واپسی جیسے بنیادی مطالبات شامل نہیں ہیں۔ اسرائیل صرف حماس سے قیدیوں کا کارڈ چھیننے کی کوشش کر رہا ہے۔ حماس نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ وہ ایک جامع قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ جنگ مکمل طور پر بند کی جائے، اسرائیلی فوج غزہ سے نکل جائے، باریکے کی تعمیر نو کا آغاز ہو، اور محاصرہ ختم کیا جائے۔
دوسری جانب، اسرائیلی وزیراعظم نے گزشتہ شب مظاہروں اور طوماروں کے باوجود جن پر عام شہریوں، ریزرو فوجیوں اور ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں نے دستخط کیے تھے تاکہ قیدیوں کی واپسی کے لیے جنگ بندی کی جائے کہا کہ ہمارے پاس فتح تک جنگ جاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہم ایک نازک مرحلے میں ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ حماس نے زندہ قیدیوں میں سے نصف اور کئی ہلاک شدگان کی لاشوں کی رہائی کی پیشکش کو مسترد کر دیا اور جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا، جو ناقابلِ قبول ہے۔ یہ دعویٰ ایسی حالت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے جمعرات کی شب اعلان کیا کہ حماس اسرائیل کے ساتھ فوری طور پر ایک جامع پیکیج مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
اس پیکیج میں تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، متفقہ تعداد میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی، مکمل جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی انخلاء، تعمیر نو کی بحالی اور محاصرہ ختم کرنا شامل ہیں۔ خلیل الحیہ، جو مذاکراتی ٹیم کے سربراہ بھی ہیں، نے کہا کہ غزہ سے متعلق جزوی معاہدے دراصل نیتن یاہو کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہیں، جو جنگ، نسل کشی اور بھوک کے تسلسل پر مبنی ہے۔