وزیراعلیٰ پنجاب کا لاہور کی سڑکوں پر سائیکل اور موٹر سائیکل سواروں کے لیے الگ بائیکرز لینز کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
لاہور(نیوز ڈیسک)وزیراعلیٰ پنجاب نے لاہور میں جدید معیار کی ٹریفک کے لیے ایک انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے سائیکل اور موٹر سائیکل سواروں کے لیے الگ راستے مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد سواروں کو حادثات سے محفوظ رکھنا اور ٹریفک کی روانی کو بہتر بنانا ہے۔
منصوبے کے تحت لاہور کی تمام بڑی سڑکوں پر مرحلہ وار بائیکرز لینز تعمیر کی جائیں گی۔ پہلے مرحلے میں فیروزپور روڈ پر کینال روڈ سے لاہور پل تک 10 کلومیٹر طویل بائیکرز لین کی تعمیر جاری ہے۔ یہ لینز عالمی معیار کے مطابق سبز رنگ سے تیار کی جا رہی ہیں، جس سے نہ صرف حادثات میں کمی آئے گی بلکہ ٹریفک کی تنظیم بھی بہتر ہوگی۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے اس منصوبے پر تعمیراتی معیار کو بہترین اور بین الاقوامی طرز کا بنانے کی ہدایت دی ہے۔ اس جدید اقدام کو لاہور میں ٹریفک کے نظام کی بہتری اور شہریوں کی حفاظت کے لیے ایک اہم پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
اجیت کور: لاہور کی سڑکوں پر جن کی یادوں کا سفر جاری رہا
پنجابی کی نامور مصنفہ اجیت کور کی لاہور سے جذباتی وابستگی کے بارے میں سب سے پہلے جو چیز میری نظر سے گزری وہ معروف ادیب آصف فرخی کی ان سے وہ گفتگو تھی جو ادبی جریدے سویرا (83) میں شائع ہوئی تھی، اس میں میرے لیے یہ نئی بات تھی کہ اجیت کور اور پنجابی کی مہان لکھاری امرتا پریتم کے خاندان ایک دوسرے کو تقسیم سے پہلے سے جانتے تھے، اجیت کور نے امرتا کے باپ گیانی کرتار سنگھ ہتکاری سے باقاعدہ پنجابی زبان کی تعلیم حاصل کی تھی، ادھر امرتا نے اجیت کے والد مکھن سنگھ بجاج سے جو ہومیو پیتھک ڈاکٹر تھے، دو سال علاج کرایا تھا۔
اس زمانے میں اجیت کور کے لیے امرتا قابلِ رشک ہستی کے سمان تھیں، انہوں نے امرتا کی خوب صورتی کے بارے میں آصف فرخی کو بتایا تھا:
’امرتا تو ہماری ہیروئن تھیں ناں، ان کو دروازے کے پیچھے سے دیکھتے تھے۔ اتنی سندر۔۔۔اس زمانے کی جو سندرتا تھی، پتلے ہونٹ، آنکھوں میں کجرے کی دھاری باہر نکلی ہوئی، گورا رنگ،chiselled features ، ٹھڈی کی نوک، اتنی خوب صورت تھیں کہ ہم کہتے تھے، ہائے ایسا ہونا چاہیے۔ ہمارے لوگ کیوں ایسے ہیں، الٹے جوتوں کی طرح، اتنے پتلے کیوں نہیں امرتا کی طرح۔‘
امرتا کی اس وقت پہلی کتاب شائع ہو چکی تھی جس کی وجہ سے ان کے والد کو اپنی بیٹی پر بڑا مان تھا، یہ بات اجیت کے لیے اس لیے بھی قابلِ رشک تھی کہ ان کے گھر کی فضا گھٹی گھٹی سی تھی اور اس میں امرتا کی طرح آزاد فضاؤں میں اپنی شخصیت کی تعمیر اور خوابوں کی تعبیر کے لیے گنجائش نہیں تھی۔
اس تمہید کے بعد ہم اجیت کور کی لاہور سے محبت کا احوال بیان کرتے ہیں جس کا ایک اہم پڑاؤ اس شہر کی سڑکیں ہیں، ان کے بارے میں انہوں نے فکشن، نان فکشن اور انٹرویوز میں بڑے دل سے اظہارِ خیال کیا ہے، اس سلسلے کی پہلی مثال ان کی کہانی ’شہر یا گھونگا‘ سے ملاحظہ کیجیے جسے اردو میں خالد محمود نے منتقل کیا ہے:
’کیا کہنے لاہور کی سڑکوں کے، چاہے میں دنیا کے کسی بھی شہر میں چلی جاؤں وہاں کی سڑکیں مجھے لاہور کی سڑکوں کی طرح صاف اور ملائم نہیں لگ سکتیں، لاہور کی سڑکیں جیسے سرمئی ریشم کے تھان کھل کر پھیلے ہوں۔‘
اس افسانے میں انہوں نے کمال ہنر مندی سے ماضی اور حال کے لاہور کو جوڑ دیا ہے اور خود اس راوی کے طور پر موجود ہیں جس کے تصورات کے آبگینوں کو ٹھیس پہنچی ہو۔
تقسیم کے 42 سال بعد اجیت کور اپنے دل و دماغ میں نسبت روڈ اور چیمبرلین روڈ کی ایک خاص تصویر بسائے پہلی دفعہ لاہور آئیں تو بہت کچھ بدل چکا تھا، نسبت روڈ جو ان کے خیال میں بڑی خوب صورت اور شاندار سڑک تھی اب وہ پہلے جیسی نظر نہیں آتی تھی۔
نسبت روڈ سے بعض ایسی نسبتیں تھیں جو انہیں بھلائے نہ بھولیں، یہاں بچپن میں اجیت کے والد ان کی ماں سے چوری انہیں سینما میں ’انمول گھڑی‘ دکھانے لے گئے تھے۔
اجیت کور کو نسبت روڈ پر ملنے والی تلی ہوئی مچھلی کبھی نہیں بھولی، ان کے بقول ’ایسی مچھلی میں نے پھر کبھی کھائی نہیں، اس کو بہت ڈھونڈا ویسی مچھلی نہیں ملی۔‘
نسبت روڈ سے گزر کر وہ چیمبرلین روڈ کے تذکرے پر آجاتی ہیں جہاں ان کی رہائش تھی، یہ ان کی دانست میں لاہور کی شاہانہ سڑکوں میں سے ایک تھی، اس پر ڈاکٹروں کے گھر اور کلینک تھے، اس زمانے کی سڑکوں پر صفائی ستھرائی کے معیار اور 1989 میں ان کی حالتِ زار کے بارے میں انہوں نے آصف فرخی کو بتایا:
’ساری رات صفائی ہوتی تھی سڑکوں کی، سڑکیں دلہنوں کی طرح صبح تک سجی ہوتی تھیں، چار پانچ بجے ماشکی مشک لے کر جھوم جھوم کر ترکاؤ کرتا تھا، چھڑکاؤ کرتا تھا، وہ ماشکی کہاں گئے؟ ان کی مشکیں کہاں گئیں؟ سڑکوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، چیمبرلین روڈ کو کیا ہوا؟ کہاں ہے؟ چیمبرلین روڈ تو نہیں ہے یہ، یہ تو کوئی اجڑی ہوئی سڑک ہے۔‘
یہ باتیں کھوئی ہوئی جنت سے التفات کی وجہ سے نہیں ہیں درحقیقت تقسیم سے پہلے کے زمانے میں یہ علاقہ اسی وضع کا تھا کیوں کہ اس کی گواہی دوسرے لکھاریوں نے بھی دی ہے۔
ترقی پسند مصنف اور ناشر عبد الرؤف ملک نے اپنی کتاب ’سرخ سیاست‘ میں نسبت روڈ کو اعلیٰ اور صاف ستھرا علاقہ قرار دیا ہے جہاں شام کو نوجوان لڑکے لڑکیاں چہل قدمی کرتے تھے، دیال سنگھ کالج اور دیال سنگھ لائبریری کے یہاں ہونے سے بھی اس کی وقعت بڑھ گئی تھی، رؤف ملک اس سڑک پر کتابوں کی دکانوں کا تذکرہ بھی کرتے ہیں جن میں سے ایک پر امرتا پریتم کا بھی آنا ہوتا تھا:
’ان کتابوں کی دکانوں میں ایک دکان پریت لڑی والوں کی تھی، غالباً اس کا نام جہاں تک مجھے یاد ہے لاہور بک شاپ تھا، یہ زیادہ تر پنجابی (گورمکھی) ہندی، انگریزی اور چند اردو کتابیں رکھتے تھے، امرتا پریتم کا اس دکان پر آنا جانا رہتا کیوں کہ ان کے ابتدائی مجموعے اسی دکان کی طرف سے شائع ہوتے تھے جو سب پنجابی میں گورمکھی رسم الخط میں چھپتے تھے۔‘
چیمبرلین روڈ سے جڑے گوالمنڈی کے بارے میں ایک سطر آغا بابر کی ’خدو خال‘ سے ملاحظہ کیجیے:
’گوالمنڈی کا علاقہ ان دنوں لاہور کا بڑا صاف ستھرا علاقہ ہوتا تھا۔‘
سڑکوں پر ہی کیا موقوف 42 برسوں میں لارنس گارڈن، نہر، راوی اور شملہ پہاڑی سب کے حال میں اس قدر تغیر آگیا تھا کہ ماضی میں جس رنگ میں ان مقامات کو اجیت کور نے دیکھا تھا وہ اب خواب و خیال تھا۔
آصف فرخی نے اجیت کور سے 2005 میں انٹرویو کیا تھا جب ان کی سربراہی میں انڈین لکھاریوں کا وفد سارک ممالک کے ادیبوں کی کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آیا تھا، اس سے 16 برس پہلے پنجابی کے مشہور لیکھک اور ’پنچم‘ رسالے کے ایڈیٹر مقصود ثاقب نے ان سے انٹرویو کیا تھا جب وہ بابا فرید انٹرنیشنل کانفرنس میں مقالہ پڑھنے لاہور آئی تھیں۔ یہ انٹرویو پہلے 1992 میں ماہانہ ’ماں بولی‘ میں شائع ہوا اور اب مقصود ثاقب کے مختلف شخصیات سے کیے گئے انٹرویوز پر مبنی کتاب ’پچھاں دساں‘ میں شامل ہے۔
آصف فرخی کے انٹرویو کی طرح مقصود ثاقب سے گفتگو میں بھی اجیت کور لاہور میں گزرے دنوں کا تذکرہ کرتی ہیں، اس میں ان سے جب پوچھا گیا کہ گھر میں درخت بھی تھے تو وہ کہتی ہیں ’گھر میں کوئی نہیں تھا لیکن گھر کے باہر بڑے درخت ہوتے تھے ساری سڑک پر، نسبت روڈ اور ایبٹ روڈ ساری درختوں سے بھری ہوتی تھیں۔‘
اس انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ لاہور کو کلچر کے اعتبار سے پیرس سمجھا جاتا تھا۔
اجیت کور اس گفتگو میں اپنے گھر کا نقشہ بھی کھینچتی ہیں جس کے نچلے حصے میں ان کے والد کلینک چلاتے تھے اور اوپر کی ایک منزل میں ان کا کنبہ رہتا تھا، اس بات چیت میں 47 کے فسادات میں بھڑکائی آگ کا حوالہ بھی موجود ہے، ان کے والد آزادی کے دنوں میں بیوی بچوں کے ساتھ شملہ میں تھے لیکن گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود وہ 28 اگست 1947 کو جان ہتھیلی پر رکھ کر امرتسر کے راستے لاہور آئے کیوں کہ ان کے والدین اور ساس سسر ابھی اسی شہر میں پھنسے تھے۔ ڈی اے وی کالج میں ریفیوجی کیمپ میں انہیں ماں باپ مل گئے، ان کے مسلمان دوست ڈاکٹر محمد یوسف نے اجیت کے نانا نانی کو اپنے داماد سے ملا دیا، حالات اس قدر پرخطر تھے کہ اجیت کے والد کے لیے اپنے گھر جانے کے راستے مسدود تھے اس لیے ڈاکٹر محمد یوسف نے وہاں سے گرو گرنتھ صاحب کی بیڑ انہیں لا کر دی اور کہاکہ اب اس گھر میں جس قماش کے لوگ قابض ہیں ان کے ہوتے ہوئے باقی چیزیں بھول جائیں۔ ڈاکٹر یوسف انہیں واہگہ تک چھوڑنے گئے اور دونوں یار گلے مل کر ایک دوسرے سے رخصت ہوئے۔ وحشتوں کے زمانے میں دوستی کے اس جذبے کے بارے میں انہوں نے مقصود ثاقب کو جو کچھ پنجابی میں بتایا اس کی ہم اردو میں ترجمانی کی کوشش کرتے ہیں:
’سو یہ جو دوستیاں ہیں انہوں نے کہاں جانا ہے، یہ جنون کی حالت میں ان دنوں بھی قائم رہیں، جو انسانی دوستی ہے وہ تو ہل ہی نہیں سکتی، جنون والے جو بندے ہوتے ہیں وہ اور ہی چیز ہوتے ہیں نہ جانے سیاست دان انہیں کہاں سے اگا لیتے ہیں اور کس طرح ان کے سر میں جنون بھر دیتے ہیں۔ یہ کھیل اس وقت بہت بڑے پیمانے پر کھیلا گیا اس کے بعد یہ کھیل چھوٹے پیمانے پر ہندوستان اور پاکستان میں آج بھی کھیلا جا رہا ہے۔‘
کیسی کھری باتیں ہیں جو بدقسمتی سے آج پہلے سے بڑھ کر ہمارے لیے حسبِ حال ہیں، لاہور کو انہوں نے کن حالات میں چھوڑا تھا اس کا تذکرہ ’خانہ بدوش‘ میں پڑھ کر آپ اس کا اندازہ کر سکتے ہیں:
’پہاڑ پر جانے سے پہلے سارے شہر میں لگنے والی آگ کا خوف ابھی سالم تھا جب ساری رات لوگ اپنے کوٹھوں پر بدحواس کھڑے رہتے اور ایک دوسرے کو آوازیں دے دے کر کہتے ’شاہ عالمی جل رہی ہے، وہ شعلے تو بھاٹی دروازے کی طرف لگتے ہیں، یہ نعروں کی آواز تو گوالمنڈی سے آتی ہوئی لگتی ہے۔‘
اجیت کور کی آپ بیتی ’خانہ بدوش‘ کو معروف مترجم یاسر جواد نے گورمکھی سے اردو میں منتقل کیا ہے، اس کے جس باب میں لاہور میں گزرے دنوں کی بپتا ہے، بچپن میں سہیلیوں سے ربط ضبط کے قصے ہیں، فسادات، تقسیم اور ہجرت کے بعد کے مسائل کا بیان ہے اسے مصنفہ نے ’خانہ بدوش‘ کا عنوان دیا ہے۔ ہجرت کے وقت ان کی عمر ساڑھے بارہ برس تھی لیکن یہ عرصہ ان کے اندر رچ بس گیا اور یہ خانہ بدوش اس شہر کی طرف پلٹ پلٹ کر دیکھتی رہیں جہاں ان کی نال گڑی تھی کہ بقول افتخار عارف :
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں
ان کے افسانہ ’شہر یا گھونگا‘ کی اس سطر میں دیکھیے کیا کچھ نہیں سما گیا :
’دنیا کے جس شہر میں گئی تھی، اسی لاہور والے گھر کو اپنے کلیجے میں اٹھائے پھرتی رہی تھی، لاہور والا گھر، لاہور کی سڑکیں، لاہور کے آسمان۔‘
انگریزی میں لاہور کے بارے میں طویل عرصے سے ڈان اخبار میں کالم لکھنے والے معروف قلم کار مجید شیخ نے چند سال پہلے اپنے ایک کالم میں بتایا تھا کہ ایک دفعہ کیمبرج لائبریری کے باہر موبائل فون پر انہیں لاہوری پنجابی میں اپنے بھائی سے گفتگو کرتے ہوئے دیکھ کر ایک بزرگ خاتون نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ لاہور سے ہیں؟ اس سے پہلے کہ وہ اس سوال کا جواب دیتے، اجیت کور ان کے ساتھ بیٹھ گئیں اور چھوٹتے ہی کہا کہ ’جب وہ کسی لاہوری کو بولتے سنتی ہیں تو ان کی ساری نفرت کافور ہو جاتی ہے، آخر ایک دوسرے سے نفرت کی ہی کیوں جائے، یہ کام تو سیاست دانوں اور پروہتوں کے کرنے کا ہے۔‘ اس گفتگو میں انہوں نے لاہور اور چیمبر لین روڈ پر اپنے گھر کا تذکرہ کیا اور تقسیم کے دنوں کے ان تلخ تجربات کے بارے میں بتایا جس سے ان کا خاندان گزرا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں کہ منصفانہ ذہن رکھنے والے پنجابی راتوں رات قصائی بن جائیں گے۔
اس نفسا نفسی اور غارت گری کے زمانے میں ڈاکٹر یوسف کے حسنِ عمل کا حوالہ مجید شیخ سے گفتگو میں بھی انہوں نے دیا ہے۔
اجیت کور 42 سال بعد ڈھونڈتے ڈھانڈتے اپنے گھر پہنچیں تو اس کا نقشہ بھی بدل چکا تھا، اس کا شیرازہ بکھر چکا تھا، بڑے بڑے کمرے اور فراخ صحن سکڑ چکے تھے، چھت کا رخ کیا کہ شاید وہ پرانے ڈھب پر ہو لیکن کہاں، ان کے بقول ’چھت کی ممٹی پر، جہاں کبوتر بیٹھ کر دانہ چگا کرتے تھے، جہاں مرچیں سکھائی جاتی تھیں، وہ ممٹی بھی نہیں تھی، کہاں گئی، معلوم نہیں۔‘
چیمبرلین روڈ کے گھر کے بعد وہ سب سے زیادہ اپنی نانی کے گھر کا تذکرہ کرتی ہیں جہاں ان کا جنم ہوا تھا، یہ گھر راوی روڈ پر پیر مکی دربار کے پاس تھا، باپ کے گھر کی طرح یہاں بھی بچپن میں ان پر روک ٹوک بہت تھی، چھجے سے چق ہٹا کر باہر دیکھنے پر ہی کلاس ہو جاتی تھی، منڈیر کی جالیوں میں پاؤں کی انگلیاں پھنسا کر باہر کی کھلی فضا پر نظر دوڑانے کی کوشش پر بھی گوشمالی ہوتی۔ اپنے گھر کی تیسری منزل سے سڑک کی چہل پہل دیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔
دسہرے کے میلے کا بیتابی سے انتظار رہتا جہاں سے ایک دفعہ والد نے گانی دلائی، گلے میں پہننے لگیں تو کہا
’اس طرح نہیں میلوں میں گانیاں گلے میں پہنتے گھر جا کر پہننا‘
’اور میرا آدھا شوق مر گیا‘
ابھی گھر پہنچ کر خوشی کا ایک اور در بند ہونے کی بجلی گرنی تھی:
’اس شام جب دار جی اور میں اور جسبیر میلے سے واپس لوٹے، بی جی بہت ناراض ہوئے ’لڑکی بڑی ہوگئی ہے، میلوں میں لے کر جانے کا کیا کام؟ ہر بات وقت کے لحاظ سے اچھی لگتی ہے۔‘
اس گھر میں زندگی کا خلاصہ اجیت کے ان لفظوں میں سمٹ آیا ہے:
وہ گھر مجھے بچپن میں بھی کبھی اپنا نہیں لگا تھا، کیونکہ چق سے باہر نہیں جھانکنا، یہ نہیں کرنا، وہ نہیں کرنا، دھمک دھمک سے سیڑھی نہیں چڑھنی ہے، آنکھ نیچی رکھنی ہے، کسی سے بولنا چالنا نہیں ہے، آس پاس بات نہیں کرنی ہے۔
اس گھر میں اجیت کور کے لیے گوشہ عافیت بس ان کا کمرہ ہی تھا جو ان کے لیے جہان دیگر تھا، تقسیم کے بعد جہاں ایک طرف ان کے والد کو اپنی چھوڑی ہوئی جائیداد کا رہ رہ کر خیال آتا تھا تو ان کی دختر کے ذہن میں بس اپنے کمرے کی یادیں مرتسم تھیں: ’مجھے بس اپنی مچھلی، گانیاں، کتابیں اور نبوں والی قلمیں یاد آتیں، لاہور بھی یاد آتا لیکن لاہور کا مطلب تھا میرا کمرہ۔‘
اپنے دادا کی زندگی اور فلسفہ حیات کے پس منظر میں انہوں نے ’سورج، چڑیاں اور رب’ کے عنوان سے کہانی لکھی ہے جس میں وہ تقسیم سے پہلے اپنے دادا کے بھیرہ میں پشتینی کاروبار چھوڑ کر لاہور بیٹے کے پاس آجانے کا بتاتی ہیں:
’دادا جی اور دادی کو ایک بڑا سا کمرہ دے دے گیا، دادی بھیرے کو نہیں بھول پائی تھیں وہاں ان کی جڑیں تھیں جنہیں دادا جی اکھاڑ کر لاہور لے آئے تھے۔‘
اردو اور پنجابی کے نامور لکھاری اور محقق احمد سلیم کی امرتا پریتم اور اجیت کور سے دوستی تھی، ان کی یادوں اور مکالموں کی کتاب ’ملاقاتوں کے بعد‘ میں ان دونوں ادیبوں کے ذہن میں جھانکنے کا موقع ملتا ہے، اجیت کور نے مجید شیخ کے طرزِ کلام سے ان کے لہوریا ہونے کا پتا چلا لیا تھا اسی طرح ایک دن احمد سلیم کا پنجابی لہجہ مانوس لگا تو پوچھ لیا کہ وہ کہاں کے رہنے والے ہیں۔ جب ان کے علم میں آیا کہ وہ بھیرے سے ہیں تو یہ جان کر بہت خوش ہوئیں۔ احمد سلیم کے بقول ’اس رات وہ بتاتی رہیں کہ ان کی دادی کا تعلق بھی بھیرہ سے تھا، پھر وہ لاہور کے بارے میں بتاتی رہیں جہاں انہوں نے جنم لیا تھا، راوی روڈ والے اپنے ننھیال کے گھر کی باتیں کرتی رہیں۔ اپنے گھر کی اس چھت کا ذکر کرتی رہیں جہاں خالی چارپائی پر لیٹ کر وہ گھنٹوں آسمان پر اڑتے ہوئے کوؤں کو دیکھا کرتی تھیں۔‘
لاہور کے بارے میں اجیت کور کی مختلف جگہوں پر بیان کی گئی یادیں تقسیم کے وقت کی سیاست کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں، ان کی زندگی کس ترتیب سے آگے بڑھ رہی تھی یہ جاننے کا موقع فراہم کرتی ہیں، اور لاہور کی اس رہتل کے بارے میں بتاتی ہیں جس کا حصہ رہنے والی نسل اب ختم ہوتی جارہی ہے جیسا کہ شناور اسحاق نے کہا ہے :
اب تو وہ نسل بھی معدوم ہوئی جاتی ہے
جو بتاتی تھی فسادات سے پہلے کیا تھا
ثقافتی حوالے سے اجیت کور کے خیالات کی کیا اہمیت بنتی ہے اس کے لیے تھڑا کلچر اور بسنت کے بارے میں ان کے تاثرات جان لیتے ہیں۔
لاہور میں تھڑے بازی کے کلچر کی بات ہو تو اس پر منڈلی جمانے کو عام طور پر مردوں سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن شہر میں یہ کلچر گلیوں میں خواتین میں بھی مقبول تھا جس کی سند یشپال کے ناول ’جھوٹا سچ‘ میں بھی موجود ہے اور اس کا حوالہ اجیت کور نے بھی دیا ہے جن کے خیال میں تھڑا لاہور کا سوشل فینومینا تھا اور گھر کا ایک لازمی حصہ ہوا کرتا تھا۔ ان کے بقول ’پڑوس میں ایک دوسرے سے ملنا ہے تو تھڑا ہے، صبح کی دعا سلام کرنی ہے تو تھڑا ہے، دوپہر کو عورتوں نے اکٹھا ہو کر چرخہ کاتنا ہے تو تھڑا ہے، پھلکاری کاڑھنی ہے تو تھڑا ہے، سوشل گوسپ کے لیے تھڑا ہے۔‘
انٹرنیٹ پر پارٹیشن میوزیم کی ویب سائٹ پر لاہور کی بسنت کے بارے میں اجیت کور کی خوبصورت گفتگو سنی جا سکتی ہے، ان کے مطابق بسنت شہر کا اہم تہوار تھا اور اس کی پیشگی تیاریوں کا تعلق پتنگوں اور گڈیوں کے ساتھ ساتھ پیلے رنگ کے صافے اور چنیوں سے بھی ہوتا تھا، اجیت کور کی گوٹے دار پیلی چنی کی تیاری بسنت سے پندرہ دن پہلے شروع ہو جاتی تھی، بسنت پنچمی کے دن چھتوں پر ہر طرف پیلے دوپٹے اور پگیں دکھائی دیتی تھیں، پیلے چاول بنائے جاتے تھے، اجیت کور نے مزید بتایا کہ آسمان گڈیوں اور پتنگوں سے بھر جاتا اورصبح سے ‘بو کاٹا بوکاٹا‘ کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی تھیں۔
اجیت کور کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جو ادبی و ثقافتی معاملات میں ہی نہیں سیاسی معاملات میں بھی کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان پرامن تعلقات کے قیام کے لیے ان کی کوششیں اپنی جگہ مستحسن سہی لیکن امن کے بارے میں ان کو کبھی خوش فہمی نہیں رہی جس کی وجہ انہوں نے 2003 میں انڈین ادیبوں کے پاکستان میں پہلے غیر سرکاری وفد کے سربراہ کی حیثیت سے بتائی تھی۔ ان کی گفتگو آج پہلے سے کہیں زیادہ بر محل محسوس ہوتی ہے۔ بی بی سی اردو کی رپورٹ کے اس اقتباس پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں:
’ہندوستان میں پنجابی کی مصنفہ اجیت کور نے کہاکہ ادھر کی حکومت اور نہ اُدھر کی حکومت امن چاہتی ہے لیکن ہم پانیوں میں اور طوفانوں میں چراغ جلارہے ہیں، اب جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ جن کے ہاتھوں میں ہماری قسمتیں ہیں وہ امن نہیں چاہتے۔
اجیت کور نے کہاکہ امن کی امید تو بہت کم ہے اور انہیں اپنی زندگی میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا لیکن وہ مستقبل کے بچوں کے لیے بنے ہتھیاروں کے لفظوں سے ایک پرامن مستقبل کے لیے سرمایہ کاری کررہی ہیں۔‘
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔
wenews اجیت کور پاک بھارت تعلقات تقسیم سیاست سیاستدان محمودالحسن نامور مصنفہ وی نیوز