Nai Baat:
2025-04-23@05:22:54 GMT

اور جرم جاری ہے

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

اور جرم جاری ہے

شاید جرم کبھی نہیں رکتا ، کسی نہ کسی طرح خود کو زندہ رکھتا ہی ہے کیونکہ اس کی پرورش اور اسے نشوونما فراہم کر نے والے عوامل کی شدت میں کمی نہیں آتی خاص طور پر ترقی پذیر ممالک اور سماج میں۔ جہاں عام شہریوں کی جان و مال کی حفاظت ریاست کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتی۔ یا ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ریاست اس حوالے سے اپنی مکمل رٹ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی کہ وہ اپنی کمزور اور ناتواں آبادی کو جبر کے خلاف تحفظ فراہم کر سکے۔ یا ہمارے ہاں دو ٹانگوں والے درندوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور چہرے پر نقاب چڑھائے یہ سماج میں رہ کر سماج کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ میرے بنیادی موضوعات سماجی مسائل ، برائیاں اور اس حوالے سے ریاست ، قانون ، آئین اور سماج کے کردار پر بحث شامل رہی ہے۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ مسلسل آگہی دینے کی ہماری جد و جہد تو تھکاوٹ کا شکار ہو گئی لیکن نہیں رک سکے تو محروم و مظلوم اور کمزور کے خلاف جرائم۔
جیسے پاکستان میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم میں اب بہت زیادہ شدت آ گئی ہے جبکہ پاکستان پینل کوڈ کے مطابق بچوں کے خلاف جنسی جرائم سیکشن 377 (غیر فطری جرائم) اور سیکشن 376 (ریپ) سمیت مختلف دفعات کے تحت قابل سزا ہیں۔پاکستان میں بچوں کے خلاف تشدد کی کئی اقسام (جسمانی، نفسیاتی، جنسی) ہیں جبکہ اور بھی کئی حوالوں سے وہ استحصال کا شکار ہیں، بشمول معاشی استحصال اور سمگلنگ۔ اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے کچھ اقدامات اٹھائے تھے جن میں زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری ایکٹ 2020 کا نفاذ، جس کا مقصد بچوں کے اغوا اور جنسی زیادتی کے کیسز پر فوری اور موثر کاروائی کرنا ہے۔نیشنل چائلڈ پروٹیکشن سنٹر کا قیام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا جو غیر انسانی سلوک کے شکار بچوں کو پناہ، مشاورت اور بحالی کی خدمات فراہم کرتا ہے۔ تاہم بچوں کے خلاف جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں عوامی بیداری میں اضافہ، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی تربیت اور اس بات کو یقینی بنانا کہ مجرموں کا احتساب کیا جائے گا ، اہم ہیں۔

اس کے علاؤہ حکومت نے غیر اخلاقی جرائم میں ملوث مجرموں کی ایک قومی رجسٹری بھی قائم کی ہے تاکہ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے اور حکومت نے لوگوں کو اس مسئلے کے بارے میں آگاہ کرنے اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات کی رپورٹ کرنے کی ترغیب دینے کے لیے عوامی بیداری کی مہم بھی شروع کی ہے۔ جبکہ مختلف این جی اوز اور تنظیمیں بھی بچوں کے کرائم کے بارے میں بیداری پیدا کرنے ،متاثرین اور ان کے خاندانوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جانب سے بچوں کے حقوق کے کنونشن (CRC) کی توثیق کے تقریباً 30 سال بعد، کوئی عوامی مربوط چائلڈ پروٹیکشن کیس مینجمنٹ اور ریفرل سسٹم، جیسا کہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق، قائم نہیں کیا گیا ہے۔ تقریباً 3.

3 ملین پاکستانی بچے چائلڈ لیبر میں پھنسے ہوئے ہیں، جو انہیں ان کے بچپن، صحت اور تعلیم سے دور کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 20-49 سال کی عمر کی تقریباً ایک چوتھائی خواتین کی شادی 15 سال کی عمر سے پہلے اور 31 فیصد کی اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ہو چکی تھی۔ پانچ سال سے کم عمر کے صرف 34% بچے پیدائش کے وقت قومی سطح پر رجسٹرڈ ہیں۔ (PDHS) 2012-2013 پیدائش کا اندراج تمام بچوں کا بنیادی حق ہے جو بچے کے وجود اور شناخت کے قانونی ثبوت ہیں۔ جو عمر کے درست ریکارڈ ،چائلڈ لیبر اور بچوں کی شادی کو روکنے میں مدد کر سکتا ہے، اور بچوں کو انصاف کے ایک مضبوط اور مربوط نظام کے ذریعے بدترین سلوک سے بچا سکتا ہے۔
پاکستان میں 2024 کے دوران بچوں کے خلاف ہونے والے جنسی جرائم کے بارے میں غیر سرکاری تنظیم ساحل نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ 2024 کے پہلے چھ ماہ کے دوران پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کل 1,456 واقعات رپورٹ ہوئے۔ متاثرین کی اکثریت (53%) لڑکیاں جبکہ 47% لڑکے تھے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ زیادہ تر غریب خاندانوں کے بچے بدسلوکی اور استحصال کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ بچوں کے حقوق اور تحفظ کے بارے میں محدود آگاہی کا ہونا اور گھر والوں کی جانب سے بدسلوکی اور نظر انداز کرنا بھی شامل ہے ، جو جرم کی شدت کو بڑھا دیتا ہے۔ اول تو بچہ ڈر اور خوف کے مارے بتاتا نہیں اور اگر بتا دے تو زیادہ تر گھر والے بچے کی شکایت کو نظر انداز کر کے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں، یہ سماجی خوف بچوں کے خلاف تشدد کو ختم نہیں ہونے دے رہے۔

ماہرین کے مطابق غیر سماجی شخصیت کے حامل افراد پرتشدد رویے کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں بشمول بچوں کے خلاف جرائم کے بھی۔ایسے بالغ افراد جنہوں نے اپنے بچپن میں اس قسم کی بدسلوکی کا سامنا کیا ہو، وہ پیڈوفلیا میں مبتلا ہو کر بچوں کے خلاف اسی طرح کے جرائم کرتے ہیں حالانکہ انہیں ان کا محافظ ہونا چاہیے تاکہ وہ کسی دوسرے کو بچا سکیں لیکن زیادہ تر کیسز میں ایسے افراد ہی ان جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں اور وہ یہ کام بڑی پلاننگ سے کرتے ہیں۔نفسیاتی ماہرین نے چند مزید وجوہات پر بھی روشنی ڈالی ہے جیسے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی تک آسان رسائی، جیسے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا، آن لائن پر تشدد غیر اخلاقی مواد نے بھی خطرے کو بڑھا دیا ہے۔ اس کے علاوہ شہری علاقوں کے بچے یا وہ لوگ جنہوں نے نقل مکانی کی ہے، سپورٹ نیٹ ورکس کی کمی کی وجہ سے استحصال اور بدسلوکی کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں۔ مزید برآں قدرتی آفات یا تنازعات سے متاثرہ بچے بھی بدسلوکی اور استحصال کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں۔ یعنی کہ پْراثر اور ناکافی قوانین اور پالیسیاں، غیر فعال آگاہی مہم، والدین اور سماجی لاپرواہی بچوں کو مناسب تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں جس سے جرائم کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کا زیادہ شکار ہو بچوں کے خلاف پاکستان میں کے بارے میں فراہم کر سکتے ہیں کے مطابق نہیں ا اور اس کے لیے

پڑھیں:

دوسری شادی کرنے کی صورت میں بچے کی کسٹڈی کا حق دار کون؟ عدالت کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا  

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ایس رضا کاظمی نے بچوں کی حوالگی کے حوالے سے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے دوسری شادی کرنے کے باوجود ماں کو ہی بچے کی کسٹڈی کا حق دار قرار دے دیا۔

جسٹس احسن رضا کاظمی نے نازیہ بی بی کی درخواست پر 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا، عدالت نے دوسری شادی کی بنیاد دس سالہ بچے کو ماں سے لیکر باپ کو دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

فیصلے میں کہا کہ بچوں کے حوالگی کے کیسز میں سب سے اہم نقطہ بچوں کی فلاح وبہبود ہونا چاہیے، عام طور پر ماں کو ہی بچوں کی کسٹڈی کا حق ہے، اگر ماں دوسری شادی کر لے تو یہ حق ضبط کر لیا جاتا ہے۔

اس میں کہا گیا کہ یہ کوئی حتمی اصول نہیں ہے کہ ماں دوسری شادی کرنے پر بچوں سے محروم ہو جائے گی، غیر معمولی حالات میں عدالت ماں کی دوسری شادی کے باوجود بچے کی بہتری کی بہتری کےلیے اسے ماں کے حوالے کرسکتی ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ کیس میں یہ حقیقت ہے کہ بچہ شروع دن سے ماں کے پاس ہے، صرف دوسری شادی کرنے پر ماں سے بچے کی کسٹڈی واپس لینا درست فیصلہ نہیں، ایسے سخت فیصلے سے بچے کی شخصیت پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔

 جج نے قرار دیا کہ موجودہ کیس میں میاں بیوی کی علیحدگی 2016 میں ہوئی، والد نے 2022 میں بچے کی حوالگی کے حوالے سے فیصلہ  دائر کیا،  والد اپنے دعوے میں یہ بتانے سے قاصر رہا کہ اس نے چھ سال تک کیوں دعوا نہیں دائر کیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ والد نے بچے کی خرچے کے دعوے ممکنہ شکست کے باعث حوالگی کا دعوا دائر کیا، ٹرائل کورٹ نے کیس میں اٹھائے گئے اہم نقاط کو دیکھے بغیر فیصلہ کیا، عدالت ٹرائل کورٹ کی جانب سے بچے کی حوالگی والد کو دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتی  ہے۔

متعلقہ مضامین

  • محکمہ موسمیات کی ہیٹ ویو ختم ہونےکے بعد گرمی کی شدت میں مزید اضافے کی پیشگوئی
  • چین کی بجلی پیدا کرنے کی نصب شدہ صلاحیت میں 14.6 فیصد اضافہ
  • امریکی جرائم کے بارے میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کو یمن کا خط
  • جامشورو: مسافر وین پہاڑی سے گر گئی، خواتین اور بچوں سمیت 16 افراد جاں بحق
  • مانتے ہیں ہمارا مڈل آرڈر زیادہ مضبوط نہیں: روی بوپارہ
  • کینالز نکالنے کے خلاف احتجاج جاری، وکلا کا ببرلو بائی پاس پر چار روز سے دھرنا
  • پاکستان میں پولیو کے خلاف سال کی دوسری قومی مہم کا آغاز
  • دوسری شادی کرنے کی صورت میں بچے کی کسٹڈی کا حق دار کون؟ عدالت کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا  
  • آئی ایس او کے زیراہتمام ملتان پریس کلب کے اسرائیل کے خلاف احتجاجی ریلی
  • بی جے پی عدلیہ کی توہین کرنے والے اپنے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی، جے رام رمیش