حماس کی مزاحمت پر شرمندہ اہل قلم کے نام…
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
مذمت نہ کرنے والے کچھ اہل قلم کو اہل غزہ کا کھنڈرات پر کھڑے ہوکر جیت کا جشن منانا برا لگ رہا ہے۔ آئندہ سطور میں ہم معرکہ طوفان الاقصیٰ اور حالیہ جنگ بندی پر ان دانشوران کے خدشات کے حوالے سے بات کریں گے۔ان کے تجزیوں میں اکثر باتیں (درست یا غلط ہونے سے قطع نظر) محض اپنے تخیل کے زور پر لکھی گئی ہیں۔ ان تحاریر کی سطحیت اس بات کا پتا دے رہی ہوتی ہے کہ ان کی مغربی و انگریزی نشریاتی اداروں کی رپورٹس پر بھی کوئی اچھی نظر نہیں چہ جائیکہ وہ عرب اور عبرانی میڈیا دیکھتے ہوں۔ آن گراؤنڈ خبروں سے تو خیر سے بالکل ہی ناواقف ہیں۔ اوپر سے میرے مطالعے میں آنے والی ان دانشوروں کی ہر تحریر ہی دعووں اور جذبات سے لبریز ہے۔
ٹرمپ صاحب کی محبت میں امریکا کے شکر گزار بنے حضرات و خواتین سے گزارش ہے کہ یہ معاہدہ کوئی پہلی جنگ بندی نہیں ہے۔ 2006 سے آج تک 6 مرتبہ معاہدے ہوئے ہیں اور ہر مرتبہ امریکا کی ثالثی ہوتی ہے۔ یہ ثالثی کوئی احسان نہیں ہوتی بلکہ بڑھتے ہوئے پبلک پریشر اور مسلمانوں کی بے چینی کو کم کرنے کا واحد طریقہ ہے۔ یاد رہے پچھلے 35 سال میں امریکی سرزمینوں پر ہوئے سب بڑے حملوں کی وجہ الاقصی کا بہتا ہوا لہو ہی بیان کی جاتی تھی۔کچھ کو دکھ اس بات کا ہے کہ اتنے لوگوں کو مروانے کے بعد جنگ بندی کی۔ تو شاید جنگ شروع ہی نہیں کرتے۔ مگر وہ نہیں جانتے کہ غزہ میں ہونے والی اس سے پہلے کی پانچ جنگیں فلسطینیوں نے نہیں شروع کی تھیں۔ ان کی زمینوں پر غاصبانہ قبضہ کیا گیا تھا اور وہ بین الاقوامی قانون کے مطابق جواب دینے میں مصروف عمل ہیں۔
کامیابی یا شکست کا پیمانہ ضروری نہیں ہے کہ جانی و مالی نقصان ہی ہو۔ جنگ عظیم دوم میں اسٹالن گراڈ کے محاذ پر روسیوں کا نقصان جرمنی سے کہیں زیادہ تھا مگر میدان جنگ روسیوں کے نام رہا۔ انفرا اسٹرکچر کی تباہی بڑا نقصان تو ہوتا ہے مگر حوصلہ مند قوموں کو واپس اٹھ کھڑے ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ چینیوں کی مشہور زمانہ people’s war سے کون واقف نہیں جس نے ناصرف چین کو جاپانیوں کے ظالمانہ تسلط سے آزادی بخشی بلکہ جدید چین کی بنیاد رکھی۔ کشمیر کی آزادی کے لیے بھی 1965 میں چینیوں نے ہمارے دانشوران کے روحانی والد جنرل ایوب خان کو صلاح دی تھی کہ اگر پاکستان عوامی جنگ کے لیے تیار ہے تو چین بھی پوری طرح مدد کرے گا۔ مگر برطانوی ملٹری اکیڈمیوں کے پڑھے ہوئے پاکستانی افسران کو یہ منطق سمجھ میں نہ آئی۔ نتیجتاً کشمیر پر آج بھی بھارتی قبضہ ہے۔ جنگ لڑنے کا حوصلہ ہر قوم میں کہاں۔ان کا کہنا ہے کہ ایک ہلے میں آپ کی تمام قیادت اڑا دی۔ مگر انتفاضہ سے آج تلک کی تاریخ گواہ ہے کہ لیڈر شپ اور افرادی قوت کا یکے بعد دیگرے شہید ہونا مزاحمتی گروہ کے لیے اتنا نقصان دہ بھی نہیں رہا جتنا ایک ریاستی نظام کا کھوکھلا پن واضح ہونا ایک ریاست کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ کچھ افراد کا مشورہ ہے کہ فلسطینیوں کی سفارت کاری کو مضبوط کیا جائے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ سفارتی محاذ پر بات ان کی ہی سنی جاتی ہے جو میدان عمل میں کسی بھی قسم کا weightage رکھتے ہیں۔ پچھلے سوا سال میں چین، روس اور دیگر ممالک کے وزراء و سفراء سے جتنی ملاقاتیں حماس نے کی ہیں، وہ تو خود ایک ریکارڈ ہے۔ حماس کی شرائط پر ہونے والا موجودہ معاہدہ اور 2011 کا معاہدہ اگر فن ِ سفارت کی معراج نہیں تو اور کیا ہیں۔ بائیڈن کو کہنا پڑا کہ یہ مذاکرات اس کی زندگی کے مشکل ترین تھے۔
کچھ احباب کو شوق ہے کہ وہ حماس و حزب اللہ کا تقابل کریں۔ پچھلے معرکوں میں حزب اللہ کی پچھلی شاندار فتوحات کے متعلق لکھتے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ وہ 2000 کی بات کررہے ہیں یا 2006 کی مگر اگر وہ فتح تھی تو ایسی فتح تو 2005 یا 2014 میں فلسطینی بھی غزہ میں حاصل کرچکے تھے کیونکہ تقریباً تمام پیمانوں پر یہ معرکہ ایک جیسے ہی نتائج لائے۔ دانشوران کو بہرحال یہ دکھ ہے کہ ایران اور حزب اللہ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ وہ بشار حکومت کا بھی غم منا رہے ہیں حالانکہ حالیہ معرکے میں اس کا کردار نہ ہونے کر برابر رہا۔ شدید نقصان کا جواب وہی ہے کہ مزاحمت کی اپنی ایک ذہنیت ہے جو بزدلی اور مایوسی سے کوسوں دور رہتی ہے۔ ایران نے مدد ضرور فراہم کی مگر فلسطینی مقاومت کا سارا دارومدار ایک ہی قوت پر نہیں تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ ابھی جنگ بندی طے ہوئی ہے۔ جنگ ختم نہیں ہوئی۔ ظفر مند اور شکست خوردہ ہونے کا تعین جنگ ختم ہونے کے بعد ہی ہوگا۔ اور جنگ ختم تب ہوگی جب مکمل آزادی نصیب ہوگی۔پھر بھی اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہار جیت کا فیصلہ کریں تو فریقین کے لڑائی شروع کرنے کے وقت کے دعوے اور اہداف دیکھ لیجیے۔ کس کو کیا اور کتنا حاصل ہوا، یہ دیکھ لیجیے۔ مزید دیکھنا ہو یہ بھی دیکھ لیجیے کہ کون جشن منا رہا ہے اور کہاں ماتم کدہ ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے عربی و عبرانی میڈیا دیکھنا پڑے گا۔ OSINT کے بنیادی اصولوں اور آلات کو استعمال کرتے ہوئے آن گراؤنڈ خبروں تک رسائی حاصل کرنی ہوگی۔ دانشوری آسان اور محنت بہرحال مشکل کام ہے۔یقینا جنگ میں کسی کی بھی جیت نہیں ہوتی مگر جیت تو ہوتی ہے۔ امن پسند ہونے کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ آپ ظلم برداشت کریں۔ عدل و انصاف کی بنیاد پر جنگ لڑنی پڑتی ہے اور لڑنی چاہیے بھی۔
آخری بات یہ ہے کہ بزدلوں کے محلے کا بچہ اگر قوی دشمن کی آنکھ پھوڑ آئے۔ نتیجتاً اپنے ہاتھ پیر تڑوا بیٹھے تو محلے والوں کو چاہیے کہ بچے کا علاج کروائیں، اس کے لڑنے کے واسطے اگلی بار ڈنڈے کا بندوبست کریں۔ اس لڑکے کے ساتھ ان کے اپنے بچے جو بدمعاش کو منہ چڑاتے ہیں، ان کی گوشمالی نہ کریں کہ وہ بھی تو کچھ کرتے ہیں۔ مزید ایک احسان یہ کریں کہ اس بیچارے بچے کو اپنے مشوروں سے نہ نوازیں۔ (حکمت سے عاری بزدلوں کے مشورے کا ویسا بھی وہ بچہ اچار ہی ڈالے گا) اور اگر واقعی محلہ والوں میں سے کسی کو بدمعاش کے خلاف کوئی نیا کام کرنا ہے تو پھر اپنا روڈ میپ پیش کرے اور اس پر محنت کرے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
غزہ امن منصوبے کا دوسرا مرحلہ مؤخر، صدر ٹرمپ نے وجہ بھی بتا دی
امریکا اور اسرائیل کا پُرزور اصرار ہے کہ غزہ کی تعمیر نو تب ہی شروع ہوسکتی ہے، جب حماس مکمل طور پر غیر مسلح ہو جائے۔ تاہم امریکا اب تک کسی بھی ملک کو قائل نہیں کرسکا کہ وہ غزہ کے مشرقی حصے میں اسرائیلی فوج کی جگہ لینے والی انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (ISF) میں شمولیت اختیار کرے، کیونکہ اکثر ممالک حماس سے براہِ راست ٹکراؤ سے ہچکچا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے آغاز اور عمل درآمد سے متعلق ایک بڑا اعلان کرکے سب کو حیران کر دیا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر نے کہا کہ غزہ کے انتطامی امور کو سنبھالنے کے لیے بنائے جانے والے بورڈ آف پیس کا اعلان فی الحال روک دیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ اب بورڈ آف پیس کے ارکان کا اعلاں رواں ماہ کے بجائے آنے والے سال 2026ء کے شروع میں کیا جائے گا۔ جس کا مطلب ہے کہ غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد کا آغاز اب کرسمس اور سال نو کی چھٹیوں کے بعد شروع ہوگا۔ قبل ازیں امریکی حکام نے بتایا تھا کہ کرسمس سے پہلے ہی غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے اور بورڈ آف پیس کے اراکین کے ناموں کے اعلان کی امید رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس تاحال مذاکرات ابتدائی مرحلے میں ہی رکے ہوئے ہیں، خاص طور پر حماس کے مکمل غیر مسلح کیے جانے کا معاملہ تاحال حل طلب ہے۔
امریکا اور اسرائیل کا پُرزور اصرار ہے کہ غزہ کی تعمیر نو تب ہی شروع ہوسکتی ہے، جب حماس مکمل طور پر غیر مسلح ہو جائے۔ تاہم امریکا اب تک کسی بھی ملک کو قائل نہیں کرسکا کہ وہ غزہ کے مشرقی حصے میں اسرائیلی فوج کی جگہ لینے والی انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (ISF) میں شمولیت اختیار کرے، کیونکہ اکثر ممالک حماس سے براہِ راست ٹکراؤ سے ہچکچا رہے ہیں۔ اگرچہ امریکا نے آذربائیجان کو اس فورس میں شامل کرنے کا عندیہ دیا تھا مگر آذربائیجان نے انکار کر دیا۔ اس کے برعکس ترکیہ جو حماس سے رابطے اور ثالثی کی صلاحیت رکھتا ہے، متعدد بار اس فورس میں شامل ہونی کی خواہش کا اظہار کرچکا ہے، لیکن اسرائیل نے ویٹو کر دیا۔ اس وجہ سے بھی متعدد ممالک غزہ پیس فورس میں شامل ہونے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ امریکا کی اسرائیل کے مؤقف کو نرم کرانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔
دوسری جانب حماس کے سینیئر رہنماء خالد مشعل نے الجزیرہ کو انٹرویو میں کہا کہ مکمل غیر مسلح ہونا ناقابلِ قبول ہے، البتہ ہتھیار کو محفوظ رکھنے یا عارضی طور پر ذخیرہ کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حماس کو غیر مسلح کرنے کا مطلب اس کی تنظیم کی روح چھین لینا ہے۔ البتہ غیر جانبدار فسطینی فورس کے قیام کے بعد سوچا جا سکتا ہے۔ خالد مشعل نے غیر ملکی فوجوں کے غزہ میں تعیناتی کو "قبضے" سے تعبیر کرتے ہوئے متبادل طریقے اپنانے کی تجویز دی۔ حماس رہنماء نے سرحدوں پر بین الاقوامی فورس کی تعیناتی پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے لبنان میں UNIFIL کی مثال بھی دی۔ یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ بورڈ آف پیس کی سربراہی وہ کریں گے، جس میں ٹونی بلیئر سمیت متعدد عالمی رہنماء شامل ہوں گے۔