سیاسی اختلافات کو انتقام کی آگ کیساتھ جان لیوا نہ بنایا جائے،لیاقت بلوچ
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
لاہو ر (نمائندہ جسارت ) نائب امیر جماعت اسلامی، سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ نے جماعتِ اسلامی لاہور کے نوتعمیر مرکزی دفاتر میں نشست سے خطاب کیا اور پروفیسر مظہر کی اہلیہ، دانش ور، کالم نویس پروفیسر رفعت مظہر کی نمازِ جنازہ میں شرکت اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حیدر علی کی بیٹی کی تقریب نسبت میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی اختلافات کو انتقام کی آگ کیساتھ جان لیوا نہ بنایا جائے۔ سماجی، معاشرتی تعلقات سماج میں ٹھیراؤ اور برداشت پیدا کرتے ہیں۔ مخالف سیاسی رہنماؤں کو عدالتوں سے متنازع سزاؤں پر ہمیشہ مخالفین خوشی کا اظہار کرتے ہیں لیکن سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی سیاسی رہنما کو قید کی سزا ہمیشہ متنازع ہوتی ہے، اِسے کسی صورت نیک شگون نہیں کہا جاسکتا۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت کے فیصلے، میاں نواز شریف اور عمران خان کے مقدمات دراصل طویل مدت سے جاری اسکرپٹ کا حصہ ہیں۔ ملک کو سیاسی بحرانوں سے نکالنے کے لیے قومی سیاسی قیادت کو جرأت مندانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا یونیورسٹیز میں طلبہ وطالبات سے خطاب مکمل سیاسی خطاب تھا۔ مستقبل کے معماروں کو ذاتی مفاداتی سیاست کی بھٹی میں جھونکنے کے بجائے طلبہ وطالبات کے جمہوری حقوق، طلبہ یونینز بحال کریں تاکہ طلبہ قومی سطح پر کردار ادا کرنے کے لیے تعلیمی اداروں کی نرسری سے انتخابی جمہوری تربیت حاصل کرسکیں۔ پاکستانی کوہ پیما ثمر علی، اسد خان کو بلند چوٹیاں سر کرنے پر مبارکباد۔ پاکستان کے پہلے الیکٹرو آپٹیکل EO-1 سیٹلائیٹ کی کامیاب لانچنگ پر ماہرین، انجینئرز کو مبارکباد۔ پاکستان کے نوجوانوں، سائنس دانوں، ہنرمندوں میں بے پناہ خداداد صلاحیتیں ہیں۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ غزہ جنگ بندی معاہدہ صیہونی اسرائیلی مقاصد کے حصول میں ناکامی اور غزہ کے مظلوم، بہادر فلسطینیوں کی استقامت پوری دنیا کو استعماری، ظلم اور جبر کی قوتوں کے مقابلے میں حق کے لیے کھڑے رہنے کا عظیم درس ہے۔امریکا، اسرائیل اور انڈیا کے انسانیت سوز، امن دشمن عزائم کے مقابلہ اور سدِباب کے لیے عالم اسلام کی قیادت کو سیاسی، اقتصادی، سفارتی اور عسکری سطح پر مضبوط اقدامات کرنا ہونگے، وگرنہ مصلحت کوشی اور بزدلی نئے خطرات کیساتھ بڑی تباہی لائے گی۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ 17 جنوری کو ‘بجلی سستی کرو’ ملک گیر احتجاج غزہ پر جنگ بندی کے تناظر میں مؤخر کیا گیا ہے۔عوامی مسائل کے حل کے لیے جماعتِ اسلامی عوامی جدوجہد جاری رکھے گی۔ حکمرانوں کی عیاشیوں، مفت خوری کے خاتمہ اور پیداواری لاگت کم کرانے کے لیے عوام کو ریلیف دِلانا ہماری جدوجہد کا اولین مقصد ہے۔لیاقت بلوچ نے کہا کہ نج کاری اور سرکاری ملازمین کے معاشی قتل کے لیے مسلم لیگ، پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کی اتحادی حکومت برابر کی ذمہ دار ہیں۔ اتحادی حکومت ملازمین و پنشنرز کے لیے عرصہ حیات تنگ کررہی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت
شیعہ علما کونسل گلگت کے جنرل سیکرٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا کہ کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل ضلع گلگت کے جنرل سکریٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مورخہ 19 اپریل 2025ء کو جاری ہونے والی مشیر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان مولانا محمد دین کی پریس ریلیز محض ایک بیان نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کی شناخت پرامن بقائے باہمی، مذہبی رواداری اور اجتماعی شعور ہے۔ ایسے میں کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے ہمارا سوال ہے کہ کیا مشیر موصوف کی یہ پریس ریلیز آپ کی منظوری سے جاری کی گئی؟ اگر ہاں، تو یہ طرز حکمرانی پر سوالیہ نشان ہے کہ ایک حکومت اپنے عوام سے اس انداز میں مخاطب ہو رہی ہے جو نفرت، تقسیم اور اشتعال کو ہوا دے رہا ہے۔ اور اگر یہ بیان آپ کی اجازت یا علم کے بغیر جاری کیا گیا ہے تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے غیر سنجیدہ اور نالائق مشیروں کو فوراً برطرف کریں تاکہ حکومت کی نیک نامی، شفافیت اور سنجیدگی پر عوام کا اعتماد قائم رہ سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشیر موصوف نے خطیب جامع مسجد امامیہ گلگت جناب آغا سید راحت حسین الحسینی جیسے محترم، سنجیدہ اور باوقار عالم دین کے خلاف جو زبان استعمال کی، وہ گلگت بلتستان کے مہذب سیاسی و سماجی کلچر سے متصادم ہے۔ ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو ذاتی حملے سمجھتے ہیں اور سنجیدہ تنقید کا جواب اخلاقیات کے دائرے سے باہر نکل کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور سوال اٹھانا ہر باشعور شہری، خصوصاً اہل علم کا آئینی، اخلاقی اور سماجی حق ہے۔ اگر حکومت کی پالیسیاں واقعی عوامی مفاد پر مبنی ہیں تو دلیل و حکمت سے عوام کو مطمئن کیا جائے، نہ کہ ان پر الزام تراشی کر کے ان کی زبان بند کرنے کی کوشش کی جائے۔ مشیر موصوف کا یہ کہنا کہ "دین کو سیاست سے الگ رکھا جائے" نہ صرف فکری گمراہی کی نشانی ہے بلکہ اس قوم کے نظریاتی اساس سے انحراف بھی ہے۔ پاکستان کا قیام ہی کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ“ کے نام پر ہوا تھا، اور اس ملک کی بقاء اسی وقت ممکن ہے جب دین اور سیاست کو ہم آہنگی سے مربوط کیا جائے۔