ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ سیاسی مسائل کا حل سیاسی جماعتوں نے ہی نکالنا ہے، مذاکرات کے معاملات پر غور و فکر کر رہے ہیں، سپریم کورٹ میں بھی کیسز نمبروائز ہی چل رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بیرسٹر عقیل ملک نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی ایک ہی وقت میں کئی جگہ مذاکرات نہیں چلا سکتی۔ ایک نجی ٹی وی کے پروگرام  میں گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر عقیل ملک کا کہنا تھا کہ سیاسی مسائل کا حل سیاسی جماعتوں نے ہی نکالنا ہے، مذاکرات کے معاملات پر غور و فکر کر رہے ہیں، سپریم کورٹ میں بھی کیسز نمبروائز ہی چل رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عطا تارڑ نے پی ٹی آئی کی اپیل سے متعلق درست بات کی، قانون اور آئین سب کے لیے برابر ہے، کوئی شک نہیں 190ملین پاؤنڈ اوپن اینڈشٹ کیس ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم میں بھی طے ہوا تھا اپیلیں نمبر کے مطابق لگیں گی۔ پی ٹی آئی ایک ہی وقت میں کئی جگہ مذاکرات نہیں چلا سکتی، ان کے رابطوں سے متعلق ہمیں کوئی پریشانی نہیں۔ پی ٹی آئی کا پہلا مطالبہ جوڈیشل کمیشن بنانے کا ہے، پی ٹی آئی کے مطالبات دیکھنے کیلئے کمیٹی بنا دی گئی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی رہے ہیں

پڑھیں:

گورننس سسٹم کی خامیاں

پاکستان میں طرز حکمرانی اور داخلی و خارجی معاملات پر مسلسل سوالات اٹھائے جاتے ہیں، اس نظام پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔اسی کے ساتھ ملک کو سیکیورٹی و معاشی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ اصل میں حکمران طبقہ حکمرانی کی فرسودگی کو یا تو سمجھنے کا ادراک نہیں رکھتے یا ان کی ترجیحات میں ان مسائل کا حل شامل نہیں ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہم عملاً حکمرانی کے نظام کے تناظر میں متعدد تجربات کے باوجود ناکامی کا شکار ہیں۔ اسی طرح ہم دنیا میں ہونے والے بہتر حکمرانی کے تجربات کی بنیاد پر بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے تناظر میں طرز حکمرانی کے مسائل کی اسٹیبلشمنٹ نے بھی نشاندہی کی تھی اور ان کے بقول اگر ہم نے گورننس کے بحران کو ترجیح بنیادوں پر حل نہ کیا تو دہشت گردی سے نمٹنا بھی آسان نہیں ہوگا ۔

حالیہ دنوں میں آئی ایم ایف کے قانونی مشن نے اپنے 12 روزہ دورے کا اختتام کیا ہے۔ یہ تفصیلی رپورٹ اس برس اگست میں آنے کی توقع ہے۔یہ رپورٹ کرپشن کی امکانات کو ختم کر کے اور میرٹ کی بنیاد پر فیصلوں کے ذریعے زیادہ شفافیت کو یقینی بنا نے اور پبلک سیکٹر کے نتائج کو بہتر بنانے کے لیے اپنی سفارشات پیش کرے گی۔

آئی ایم ایف نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں سیاست زدہ بیورو کریسی،کمزور احتساب پر مبنی نظام،قلیل مدتی اہداف پاکستان کی اہم خامیاں ہیں۔ان کے بقول پاکستان کے انتظامی ڈھانچے میں اہم افراد یا عہدے دار سیاسی وفاداریاں رکھتے ہیں اور اداروں کے سربراہوں کی تقرری بھی سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے۔اسی طرح پاکستان پاکستان میں بدعنوانی کے خلاف بھی کوئی مستقل پالیسی نہیں ہے ۔

 آئی ایم ایف نے ابتدائی طور پر جن مسائل کی نشاندہی کی ہے وہ اہمیت رکھتے ہیں۔کیونکہ ہمارا بیوروکریسی پر مبنی نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے اور اس نظام کی موجودگی میں گورننس کے نظام کی شفافیت کی توقع رکھنا محض خوش فہمی ہے۔اس بات کی درست طورپر نشاندہی کی گئی ہے کہ جب حکمران طبقہ انتظامی اداروں کو سیاسی بنیادوں پر چلائے گا یا اہم عہدوں پر میرٹ سے زیادہ سیاسی بنیادوں کو بنیاد بنا کر تقرریاں اور تبادلے کیے جائیں گے تو پھر نظام کی شفافیت کا سوال بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔

آئی ایم ایف نے کمزور احتساب کے نظام کی بھی نشاندہی کی ہے۔ ہمارے بہت سے سیاسی پنڈت یا دانشور یا کاروباری طبقات کے بڑے افراد کرپشن کو ایک بڑا مسئلہ سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ان کے بقول سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن اس نظام کا حصہ ہے اور ہمیں اس کو قبول کرنا ہی ہوگا۔

یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں جب بھی کرپشن کی یا احتساب پر مبنی نظام کی بات کی جاتی ہے تو یہ سارا عمل سیاسی طور پر متنازعہ بن جاتاہے یا اس کو متنازعہ بنادیا جاتا ہے۔پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لیے جو بھی ادارے بنائے گئے ہیں وہ خود بھی کرپشن کا شکار ہیںیا ان پر اس حد تک سیاسی دباؤ ہے کہ وہ شفافیت کی بجائے سیاست کا شکار ہوتے ہیں۔

پاکستان میں گورننس کے مسائل محض آئی ایم ایف کی پیش کردہ نکات تک محدود نہیں ہیں بلکہ اور بھی مسائل ہمیں حکمرانی کے نظام میں درپیش ہیں۔مثال کے طور پر عدم مرکزیت کے مقابلے میں مرکزیت پر مبنی نظام جہاں اختیارات کا مرکز کسی ایک سطح تک محدود ہوتا ہے یا ہم سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔

اسی طرح سے پاکستان میں حکمرانی کے نظام میں موجود جو سائز آف گورننس ہے وہ ریاستی اور حکومتی نظام پر نہ صرف سیاسی اور انتظامی بوجھ ہے بلکہ اس کی بھاری مالیاتی قیمت بھی ہمیں ادا کرنی پڑ رہی ہے۔

بے تحاشہ ادارے،محکمے اور ان کے سربراہان کی فوج در فوج سے نہ تو عوام کے مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ یہ موجودہ نظام میں کوئی شفافیت کا عمل پیدا کر سکے ہیں۔دنیا کے جدید حکمرانی کے نظام میں نچلی سطح پر موجود مقامی حکومتوں کے نظام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔لیکن ہم مسلسل مقامی حکومتوں کو نظر انداز کررہے ہیں۔

حالانکہ پاکستان کے آئین میں اس وقت بھی تین سطحوں پر حکومت کا تصور موجود ہے یعنی وفاقی،صوبائی اور مقامی حکومتیں لیکن اس کے باوجود ہمارا ریاستی نظام مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی کا شکار نظر آتا ہے۔مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی بنیادی طور پر ریاست،حکومت اور عوام کے درمیان ایک بڑی خلیج کو پیدا کرتی ہے اور یہ خلیج ان فریقوں میں بد اعتمادی کے ماحول کو پیدا کرنے کا سبب بھی بنتی ہے۔

بااختیار مقامی حکومتی نظام معاشرے میں موجود کمزور اور محروم طبقات کے مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔لیکن ہمارا حکمرانی کا نظام طبقاتی تقسیم کا شکارہے اور اس تقسیم میں طاقتور طبقات کے مفادات کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔جب کہ اس کے مقابلے میں کمزور طبقات مختلف سطح پر استحصال کاشکار ہوتے ہیں۔

 18 ویں ترمیم کی منظوری کہ باوجود بھی ہم صوبائی یا مقامی سطح پر حکمرانی کے نظام سے جڑے مسائل حل نہیں کر سکے ہیں۔ماضی میں وفاق کا نظام مرکزیت پر مبنی تھا تو آج صوبائی حکومتوں کا نظام صوبائی مرکزیت کا شکار نظر آتا ہے۔

اس طرز عمل کی وجہ سے صوبوں میں موجود ضلعوں کا نظام نہ صرف کمزور ہے بلکہ اپنی افادیت کھوتا جا رہا ہے۔ایک طرف سیاسی نظام میں موجود سیاسی طاقتور افراد ہیں جو قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی صورت میں سیاسی نظام پر قابض نظر آتے ہیں تو دوسری طرف بیوروکریسی ہے جو نظام کی شفافیت میں خود بھی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

اسی طرح سے ہمیں سیاسی اور بیوروکریسی پر مبنی نظام کا ایک ایسا کٹھ جوڑ بالادست نظر آتا ہے جو عوامی مفادات سے زیادہ اپنے ذاتی سطح کے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ہمارے ہاں وفاقی،صوبائی اور مقامی حکومتوں کے ادارے اپنے اپنے سیاسی، آئینی اور قانونی دائرہ کار میں کام کرنے کے عادی نہیں ہیں۔

ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت کرنا ہمارے نظام کی اہم خصوصیت بن چکی ہے۔قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی دلچسپی قانون سازی یا پالیسی سازی کی شفافیت کی بجائے ترقیاتی فنڈ تک محدود ہوتی ہے اور اس وجہ سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان خود بھی ایک مضبوط اور مربوط مقامی حکومتوں کے نظام کے عملی طور پر خلاف ہیں ۔

ایک طرف ہم اپنے نظام کو عوام کے منتخب نمائندوں کی بنیاد پر چلانا چاہتے ہیں تو دوسری طرف ہماری ترجیحات عوام کے منتخب نمائندوں کے مقابلے میں بیوروکریسی پر حد سے بڑھتا ہواانحصار ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ خود ارکان اسمبلی موجودہ نظام سے ناخوش نظر آتے ہیں۔ 

ہم عملاًحکومتوں کے مقابلے میں یا منتخب نمائندوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بجائے کمپنیوں اوراتھارٹیوں کی بنیاد پر صوبوں کے نظام کوچلانااپنی ترجیح سمجھتے ہیں۔یہ دوہرے معیارات اورمختلف تضادات پر مبنی پالیسیوں نے حکمرانی کے نظام کواور زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔

یہ نظام جہاں اپنی افادیت کھوتا جا رہا ہے وہیں اس کی ساکھ پر بھی بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔حکمران طبقات کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں یا ان کی پسند پر مبنی حکمرانی کا یہ نظام لوگوں کو سیاسی اور معاشی طور پر تنہا کر رہا ہے۔ان کو لگتا ہے کہ اس نظام میں بہتری کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے ۔لیکن اس کے برعکس اگر ہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے طرز عمل کو دیکھیں توان کے بقول ملک ترقی کی جانب گامزن ہے۔حکمرانوں اور عوام کی سوچ و فکر میں یہ تضاد ہمارے حکمرانی کے نظام کی خرابی کواور زیادہ نمایاں کرتاہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں سیاسی استحکام کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے، طلال چودھری
  • ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، شیخ وقاص اکرم
  • ایران کا جوہری پروگرام(3)
  • ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات جاری نہیں ہیں، شیخ وقاص اکرم
  • گورننس سسٹم کی خامیاں
  • مشہور ریسلر رے مسٹیریوں سے متعلق بری خبر!
  • مذاکرات کیلئےپی ٹی آئی کس کے اشارے کی منتظر؟اعظم سواتی کا انکشاف
  • ریاست نے بہت مرتبہ بھٹکے ہوئے لوگوں سے مذاکرات کیے، سرفراز بگٹی
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان سکیورٹی اور امن و سلامتی سے متعلق مذاکرات شروع
  •  سیاست میں دشمنی کا ماحول پی ٹی آئی نے پیدا کیا : طارق فضل چوہدری