Express News:
2025-04-22@14:24:48 GMT

دو راستے، فیصلہ آپ کا

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

مجموعی طور پر انسانوں کی اکثریت اپنی زندگی میں مشکلات کے مقابلے میں آسانیوں کو ترجیح دیتی ہے لیکن اپنی زبان سے اس بات کا اقرار کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہے کیونکہ کوئی انسان اگر محنت پسند نہ ہو تو بھی دنیا کے سامنے ’’ محنت میں عظمت ہے‘‘ کا راگ الاپنا بطورِ انسان اپنا فرض سمجھتا ہے۔

ہر انسان کو دنیا کی سرزمین پر اپنی کامیابی کا جھنڈا گاڑنے کے لیے ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کی محنت درکار ہوتی ہے۔ ذہنی تھکاوٹ بہ نسبت جسمانی مشقت انسان کے اعصاب کو زیادہ متاثرکرتی ہے۔ انسان کی طاقت کا سارا انحصار اُس کے اعصاب پر منحصر ہوتا ہے، اعصابی طور پرکمزور انسان کو کسی صورت طاقتور تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اپنی پیدائش سے لے کر دنیا سے رخصت ہونے تک زندگی کے تمام ادوار میں انسان کے قابلِ توجہ ہر ادھورے کام کو تکمیلی مراحل تک پہنچانے کے لیے دو طرح کے راستے اُس کے منتظر ہوتے ہیں، ایک آسان تو دوسرا تندہی کا تقاضا کرنے والا۔

اکثر انسانوں کا ایسا ماننا ہے کہ صرف کٹھن راہوں کی منزل ہی کامیابی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ جب اُن کا کوئی مقصد یا مطلوبہ شے باآسانی حاصل ہو جائے تو اُنھیں اُس کو پانے کے عمل پر ہی شک ہونے لگتا ہے۔ دراصل قومِ انسانی کی بڑی تعداد کا دشواریوں سے پاک راستوں کی منزل کو ناکامی کی دلدل سمجھنا ایک غلط سوچ کے سوا کچھ نہیں ہے۔

 آسان اور مشکل راستے آگے قدم بڑھاتے ہوئے صحیح اور غلط میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ صحیح اور غلط یا اچھے اور برے راستوں کے کئی معنی نکلتے ہیں، ہر انسان کا صحیح اور غلط کے حوالے سے اپنا ایک الگ نظریہ ہوتا ہے جب کہ یہاں اخلاقی اعتبار سے کیا اچھا اورکیا برا ہے پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انسان بن کر زندگی جینا، انسانی حدود کی خلاف ورزی سے گریز کرنا، اپنے ذاتی فائدے کے لیے دوسرے انسانوں کے حقوق کو ہرگز پامال نہ کرنا، انسانیت کی عالمگیر تعریف ہے۔ صحیح اور غلط دراصل ہر اچھائی اور برائی کی بنیاد بنتے ہیں، وجود کی خوبصورتی اور بدصورتی کا سارا دارومدار اُس کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے۔

صحیح اور غلط راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے، اس معاملے میں دوسرے کا دخل بالکل حیثیت نہیں رکھتا ہے۔ انسان اپنی زندگی قاعدے اور ضابطے کے مطابق گزارنا چاہے تو راہوں کے کنکر بے معنی ہو جاتے ہیں، لیکن اگر وہ خاردار جھاڑیوں سے اپنے وجود کو زخمی کرنے پر تُلا ہو تو اُسے کوئی روک بھی نہیں سکتا ہے۔

انسان اپنی عادتوں کا غلام ہے، انسان کی عادات ہی اُس کی فطرت کو تشکیل دیتی ہیں۔ اچھی اور بری عادتیں کئی قسم کی ہوتی ہیں اور ہر ایک قسم میں شدت کے اعتبار سے کمی اور زیادتی کا عنصر پایا جاتا ہے۔

صحیح اور غلط راستوں کو اچھے اور برے میں منتقل کرنے کی پہلی سیڑھی سچ اور جھوٹ ہے اور یہی دونوں انسانی زندگی میں رمق یا افلاس لانے کا باعث بھی ثابت ہوتے ہیں۔ سچ زندگی میں ہمیشہ خیر لاتا ہے، ہمارے دینِ اسلام میں سچ کہنا اور سچائی کا ساتھ دینا فرض قرار دیا گیا ہے۔

تلخ سچ محض آغاز میں انسان کے لیے دقت پیدا کرتا ہے مگر بعد میں راحت ہی راحت پہنچاتا ہے جب کہ جھوٹ صرف وقتی طور پر مصیبت سے بچاتا ہے لیکن زندگی بھر بے چینی اور بے سکونی اعصاب پر سوار رکھتا ہے۔ جس انسان کو جھوٹ کا سہارا لینے کی لت پڑ جائے تو وہ نادانستہ بات بہ بات بِلا ضرورت غلط بیانی کرتا پھرتا ہے۔

ایک جھوٹ سو جھوٹ کی وجہ بنتا ہے اور زندگی سے خیرکو رخصت کرتا ہے ساتھ کئی دوسری برائیوں کو جنم دیتا ہے۔ سچ اور جھوٹ جب اپنی حدوں سے تجاوزکر جائیں تو وہ انسان کی فطرت کو ایمانداری یا بے ایمانی کا چوغہ پہنا دیتے ہیں۔ سچائی کے در سے گزرکر جب انسان ایمانداری کے اصول کو دل و جان سے اپناتا ہے تو اُس کے وجود پر ہمہ وقت سکون کا ڈیرا اور زندگی میں روشنی کا راج رہتا ہے۔

دوسری جانب جھوٹ کا کم مدتی سحر کب بے ایمانی کے اندھیرے میں ضم ہو جاتا ہے انسان کو معلوم ہی نہیں چلتا ہے اور جب اُسے ہوش آتا تب تک وہ اندھیرا وحشت ناک ذہنی اذیت میں بدل چکا ہوتا ہے۔

روشنی اور اندھیرے کی یہ جنگ ستائش اور حسد کی خلق کی وجہ بنتی ہے۔ ستائش کی شروعات رشک سے ہوتی ہے جو خالصتاً ایک مثبت احساس ہے۔ ستائش، رشک، سراہنا اور دوسروں کی خوشیوں میں مسرور ہونا انسانیت کی حقیقی ترجمانی کرتا ہے جب کہ حسد انسان کا منتخب کیا گیا ہیجان خیز تجربہ ثابت ہوتا ہے جو اُس کے وجود میں آگ کو سُلگائے رکھتا ہے، دماغ میں آتش فشاں کو مسلسل دہکتا ہے اور وہ سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر مفلوج ہوکر رہ جاتا ہے۔

اپنے ذات سے ہٹ کر ارد گرد کے لوگوں کی امنگوں کو اہمیت دینا انسان کے ظاہر و باطن کو معطر کرتا ہے، اس کے برعکس اپنا محل تیارکرنے کے چکر میں دوسروں کے مسکن کو تباہ و برباد کرنا خوشنما ظاہرکو بھی بدنما بنا دیتا ہے۔

 قرآنِ پاک میں خالقِ کائنات انسانوں کو صحیح اور غلط کا فرق بتلاتے ہوئے فرماتے ہیں، ’’ اے ایمان والو! شیطان کے راستوں پر نہ چلو اور جو شخص شیطان کے نقوشِ قدم پر چلتا ہے تو وہ یقیناً بے حیائی اور برے کاموں (کے فروغ) کا حکم دیتا ہے، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی کبھی (اس گناہِ تہمت کے داغ سے) پاک نہ ہو سکتا لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک فرما دیتا ہے، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘ محبوبِ ربِ جہاں اور خاتم النبیین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سچ اور جھوٹ سے متعلق ارشادِ گرامی ہے، ’’ نیکی اور سچائی جنت میں لے جانے والی چیزیں ہیں جب کہ برائی اور جھوٹ جہنم میں لے جانے والی چیزیں ہیں۔‘‘

عظیم صوفی بزرگ، عالمی شہرتِ یافتہ فارسی شاعر اور مذہب اور فقہ کے بڑے عالم جلال الدین رومی کا جزوی و ابدی استراحت کے بارے میں ایک سنہری قول ہے، ’’ دنیا حاصل کرنا کوئی برائی نہیں لیکن جب دنیا کو آخرت پر ترجیح دی جائے تو پھر سراسر خسارہ ہی ہے۔‘‘ حضرت رومی آسودگی اور دشواری کے موضوع پر شاعری کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

اے! تیری ملاقات ہر سوال کا جواب

بے شک تجھ سے ہر مشکل حل ہوتی ہے

مولانا رومی اچھائی اور برائی کے تضاد کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔

ہم خدا سے ادب کی توفیق چاہتے ہیں

بے ادب خدا کے فضل سے محروم رہا

مختلف شکلوں کے صحیح و غلط کا درمیانی فرق اور اُن سے منسوب راحت و دشواری کی مثبت و منفی طبیعت جو زندگی میں اُجالے یا تاریکی لانے کا اصل فیصلہ کرتی ہے جس کی بدولت انسان کو کلی راحت یا اضطراب نصیب ہوتا ہے۔

انسان کو زندگی میں قدم قدم پر سیاہ اور سفید کی پہچان کروائی جاتی ہے، فائدے اور نقصان سے روبروکیا جاتا ہے، پھولوں کی نرمی اور کانٹوں کی چبھن کو محسوس کروایا جاتا ہے اور بار بارگرنے پر اُٹھنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے لیکن ان سب کے باوجود وہ جنت کی آرائش کے سامنے جہنم کی تپش کا انتخاب کرے تو اُس کی عقل پر ماتم کرنے کے علاوہ اور کچھ کیا بھی نہیں جاسکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: صحیح اور غلط زندگی میں اور جھوٹ انسان کو انسان کے کرتا ہے ہوتا ہے جاتا ہے کے لیے ہے اور

پڑھیں:

تین بیل

اسلام ٹائمز: زندگی ہر انسان کو آگے بڑھنے۔۔۔۔۔ ترقی کرنے اور کمال تک پہنچنے کے بہت سے مواقع فراہم کرتی ہے۔۔۔ اگر انسان ان چانسز کو اس وجہ سے گنواتا رہے کہ ہر آنے والا نیا موقع شاید آسان ہو تو ممکن ہے کہ انسان اپنی منزل کو کھو دے اور اپنے ہدف کو نہ پاسکے۔۔۔ لہذا ہر میسر موقع سے فائدہ اٹھائیں اور ہر مشکل سے لڑنے کے لیے آمادہ رہیں۔۔۔ اور اس اصل کو ہرگز نہ بھولیں "إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً"، "بے شک سختی کے بعد آسانی ہے۔" تحریر: ساجد علی گوندل
sajidaligondal55@gmail.com

ایک جوان کسی کسان کی بیٹی سے شادی کا خواہشمند تھا۔ وہ کسان کے پاس گیا، تاکہ اس سے رشتے کی بات کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسان نے اس کی بات سننے کے بعد کہا۔۔۔۔۔۔۔۔
"بیٹا! جا کر اس کھیت میں کھڑے ہو جاؤ۔۔۔۔۔۔۔
میں ایک ایک کرکے تین بیل چھوڑوں گا۔۔۔۔۔۔۔
اگر تم ان تین بیلوں میں سے کسی ایک کی بھی دم پکڑ سکے تو میری بیٹی سے شادی کرسکتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔
لڑکا یہ بات سن کر حیران تو ضرور ہوا، مگر کچھ بولے بِنا اس کھیت میں جا کر کھڑا ہوگیا اور بیلوں کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ کسان نے باڑے سے ایک بیل کو اس کھیت کی طرف چھوڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لڑکے کی نگاہ جیسے ہی بیل پر پڑی تو دیکھتا ہی رہ گیا، کیونکہ بیل بہت بڑا، طاقتور اور غصے کی حالت میں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لڑکے نے اسے یہ سوچ کر جانے دیا کہ اگلے دونوں بیلوں میں سے کوئی بہتر ہوگا، لہذا وہ ایک طرف ہٹ گیا اور بیل کو کھیت سے گزرنے دیا۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد جیسے ہی کسان نے دوسرا بیل اس کی طرف چھوڑا تو لڑکے کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ کوئی بیل اتنا بڑا اور طاقتور بھی ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
بیل دوڑتا ہوا زمین کو سینگ مارتا۔۔۔۔۔ غُرّاتا ہوا لڑکے کی ایک طرف سے گزر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔لڑکے میں ہمت نہ ہوئی کہ وہ آگے بڑھ کر اس کی دُم پکڑے، اس نے یہ سوچ کر اس بیل کو بھی جانے دیا کہ شاید اگلا بیل اس سے چھوٹا اور بہتر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسری بار جیسے ہی کسان نے باڑ کے دروازے کو کھولا تو اس بار بیل کو دیکھتے ہی لڑکے کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیونکہ یہ اب تک کا سب سے کمزور، چھوٹا اور دبلا پتلا بیل تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دبلے پتلے بیل کو دیکھ کر جوان لڑکا تیزی سے اس کی طرف بڑھا اور پھرتی سے چھلانگ لگا کر اس کی دم پکڑنے کے لیے اس کی طرف لپکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر یہ کیا۔۔۔۔۔۔!!
وہ پریشانی اور حیرات میں ڈوب گیا۔۔۔۔۔۔۔
اس کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں ٹپکنے لگیں اور وہ یکسر مایوس ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا دیکھتا ہے کہ اس بیل کی تو دم ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔

المختصر یہ کہ۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی ہر انسان کو آگے بڑھنے۔۔۔۔۔ ترقی کرنے اور کمال تک پہنچنے کے بہت سے مواقع فراہم کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر انسان ان چانسز کو اس وجہ سے گنواتا رہے کہ ہر آنے والا نیا موقع شاید آسان ہو تو ممکن ہے کہ انسان اپنی منزل کو کھو دے اور اپنے ہدف کو نہ پاسکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
لہذا ہر میسر موقع سے فائدہ اٹھائیں اور ہر مشکل سے لڑنے کے لیے آمادہ رہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس اصل کو ہرگز نہ بھولیں "إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً"، "بے شک سختی کے بعد آسانی ہے۔"

متعلقہ مضامین

  • حج کی سعادت کا خواب! خواہشمند پاکستانیوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی داؤ پر لگ گئی
  • ہانیہ عامر کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ انسان کو ایسا ہونا چاہیے: کومل میر
  • Rich Dad -- Poor Dad
  • سندھ اور پنجاب بارڈر پر کینالز کے خلاف دھرنا، 15 لاکھ ڈالرز کا مال خراب ہونے کا خدشہ
  • فلسطینی ریڈ کراس نے طبّی کارکنوں پر حملے کی اسرائیلی رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیدیا
  • ریاست اپنی جگہ لیکن کسی کی زندگی سےکھیلناقابل قبول نہیں:عظمیٰ بخاری
  • وفاقی دارالحکومت میں ’یکجہتی فلسطین مارچ‘، سیکیورٹی ہائی الرٹ، ریڈ زون جانیوالے راستے سیل کردیے گئے
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • تین بیل
  • سوشل میڈیا کی ڈگڈگی