پاکستانی معروف فیشن ڈیزائنر و اداکار دیپک پراوانی کا کہنا ہے کہ بھارت میں پاکستان کے مقابلے میں زندگی کا معیار بہتر ہے، وہاں خوشی زیادہ ہے۔

30 سال قبل ڈرامہ سیریل ’بڑے ابو‘ میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے دیپک پروانی نے حال ہی میں ایک یوٹیوب پوڈ کاسٹ کے لیے انٹرویو ریکارڈ کروایا ہے۔

انٹرویو کے دوران دیپک پروانی نے بھارتی شہر جے پور میں اپنے کام اور دورے سے متعلق تجربہ شیئر کیا ہے۔

دیپک پروانی نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے مقابلے ہندوستان میں معیارِ زندگی زیادہ بہتر ہے، وہاں کے لوگ خوش ہیں، مسکراتے ہیں اور مطمئن نظر آتے ہیں۔

انہوں نے ہندوستان میں خواتین کو حاصل ہونے والی آزادی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بھارتی لڑکیاں سڑکوں پر آزادی سے چلتی ہیں، سائیکلیں اور موٹر سائیکلیں چلاتی ہیں۔

دیپک پروانی نے بھارت کا لاہور کے ماحول کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں بھی ایسا ہی ماحول ہے، مگر کراچی ایسا نہیں ہے، کراچی میں پارکس ہیں مگر وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے۔

اداکار کا کہنا ہے کہ بھارت میں رکشے والے کے پاس بھی اوبر ہے اور پانی پوری والے کے پاس بھی ٹیپ کرنے کی سہولت موجود ہے، وہاں پارکس ہیں، وہاں صرف کنکریٹ کے جنگل نہیں ہیں۔

دیپک پروانی نے یہ بھی کہا ہے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کہ بھارت

پڑھیں:

کھسیانی بلی، کھمبا نوچے

گزشتہ مئی میں پاکستان نے بھارت کے خلاف جو آپریشن بنیان مرصوص کیا اور اس کے نتیجے میں بھارت کو جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، اس کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دی اور مہینوں ایک نسبتاً بہت چھوٹی طاقت کے ہاتھوں ایک بڑی طاقت کی ایسی درگت کو دنیا بھر نے دیکھا، سنا، تبصرے کیے اور دھوم مچ گئی۔

ظاہر ہے اس ہزیمت نے بھارت کو جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر دیا۔ خبریں آنے لگیں کہ بھارت دوسرا آپریشن سندور کرنے والا ہے جس میں پاکستان کو سبق بھی سکھا دیا جائے گا اور اس شکست کا انتقام بھی لے لیا جائے گا۔

شکست کو تو بھارت نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا تھا چنانچہ وہ اس جنگ میں اپنی فضائیہ کو پہنچنے والے نقصانات کے اعتراف سے کنی کترا رہا ہے اور کسی طور یہ ماننے کو تیار نہیں ہوا کہ پاکستان نے اس کو غیر معمولی نقصانات پہنچائے ہیں لیکن زخم تو لگے تھے، اب کھسیانی بلی کھمبا نوچ رہی ہے۔

چند ماہ بعد جب بھارت کے ارباب حل و عقد کی سانسیں بحال ہوئیں اور وہ حملہ وملا کرنے کے ارادوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے پرانے حربوں پر اتر آئے ہیں۔ اب وہ پاکستان کو خود شکست دینے کا خواب بالائے طاق رکھ کر اندر سے پاکستان کی خودکشی کی آس لگا بیٹھے ہیں۔

چنانچہ پچھلے دنوں بھارت کے وزیر ’’جنگ و جدل‘‘ راج ناتھ سنگھ گویا ہوئے کہ پاکستان میں اندر سے ٹوٹ پھوٹ ہونے والی ہے اور یہ کہ صوبہ سندھ جس کا کلچر قدیم بھارتی ثقافت یعنی موئن جو دڑو کے مطابق ہے جلد ہی وہاں ثقافتی یلغار ہونے والی ہے۔

انھوں نے اپنی زبان میں کہا کہ ’’ پاکستان وجود میں تو آگیا مگر اصل چیز ثقافتی اور تہذیب اقدار ہیں جو باقی رہتی ہیں۔ رہی سرحدیں تو وہ تو بدلتی رہتی ہیں اور کسے پتا کہ کب پاکستان کی سرحدوں میں تبدیلی واقع ہو جائے۔‘‘

راج ناتھ سنگھ جی نے درست فرمایا مگر سندھ کی تہذیب کو دور دراز تک لے جا کر موئن جو دڑو کے کھنڈرات سے ملا کر اپنی امیدوں اور آرزوؤں کو اس دور دراز کی شے سے ہم آہنگ کرنا محض تکلف ہے۔ راج ناتھ جی نے یہ بات نظرانداز کر دی ہے موئن جو دڑو کے بعد سندھ کے دریا سے بہت پانی بہہ گیا ہے۔ سندھ کی تہذیب، اس کے لباس، اس کی زبان ، اس کے رسم الخط اور اس کی تہذیبی روایات اب مسلم ثقافت سے ایسی اور اتنی ہم آہنگ ہو چکی ہیں کہ انھیں اس سے دورکرنا بڑا مشکل کام ہے اور یہ محض آرزومندی تو ہو سکتی ہے ہوش مندی ہرگز نہیں۔

 سندھی زبان عربی (اسلامی) الفاظ سے مالا مال ہے، اس کا رسم الخط عربی رسم الخط ہے۔ سندھ مہمان نوازی اور بھائی چارے اور برداشت کی خوبیوں کا حامل صوبہ ہے۔ یہ وہی صوبہ ہے جس نے پاکستان میں شمولیت میں پہل کی تھی اور سب سے آگے بڑھ کر پاکستان کے وجود میں ضم ہوا تھا۔

اس لیے پاکستان کی اس کی علیحدگی کا تصور بھارتی آرزو مندی تو ہو سکتی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔جاننے والے جانتے ہیں کہ بھارت پاکستان کے ہر صوبے میں اپنی اس آرزو کو آزماتا رہا ہے مگر اسے ناکامی اور نامرادی کے علاوہ کچھ نہ مل سکا۔ اب اس بار میدان جنگ میں ہزیمت سے دوچار ہونے کے بعد ایک بار پھر اپنی آرزو مندی کو بروئے کار لانے کے لیے سندھ کا انتخاب فرمایا مگر:

اے بسا آرزو کہ خاک شدی

لیکن ایک بات انھوں نے درست کہی کہ سرحدوں کا کوئی اعتبار نہیں، یہ بدلتی رہتی ہیں اور نہیں کہا جاسکتا کہ کب کون سی سرحد بدل جائے اور اس اصول کا اطلاق بھارت پر بھی تو ہو سکتا ہے۔ بھارتی پنجاب، بھارت سے اکتایا بیٹھا ہے، نہیں کہا جاسکتا کہ کب بھارتی پنجاب کی سرحدیں ہی تبدیل ہو جائیں۔ادھر جنوبی بھارت میں وقفے وقفے سے علیحدگی کی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ آخر رام چندرجی نے لنکا کو بھارت کا حصہ بنا دیا تھا مگر آج لنکا ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے، کل کو بھارت کا کوئی بھی اٹوٹ انگ اگر ٹوٹ پڑا توکیا ہوگا۔

پاکستان کی فکرکرنے کے بجائے راج ناتھ جی کو بھارت میں علیحدگی کی اٹھنے والی آوازوں کو غور سے سننا چاہیے۔ کہیں یہ آوازیں محض آوازیں نہ رہیں اور ان کے بیان کردہ اصول کے مطابق کہ سرحدوں کا اعتبار نہیں جانے کب بدل جائیں۔

آج ناتھ سنگھ نے جو بات اب واضح طور پرکہہ دی ہے وہ بھارتی لیڈر شپ کا اصول طرز فکر رہا ہے۔ پاکستان کی تخلیق سب جانتے ہیں کہ بھارت کی سخت مخالفت کے باوجود عمل میں آئی تھی چنانچہ اس کی تخلیق اس کے پہلے دن سے بھارت اس کے وجود کی مخالفت پر کمربستہ رہا ہے اور اس کی تباہی اور بربادی کا خواہش مند رہا ہے اور اس نے یہ بات چھپا کر نہیں رکھی ہے۔ جب بھی متوقع ملا اس نے کھل کر کھیلا بھی ہے۔

مگر اس بار وہ یہ موقع تلاش کرتا ہی رہ گیا اور انشا اللہ تلاش کرتا ہی رہے گا مگر کچھ نہ پا سکے گا۔ اب پاکستان بھی تجربات سے گزر کر دشمن کے ہتھ کنڈوں سے آگاہ ہو چکا ہے۔ اب پاکستانی قوم خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنے اتحاد پر قائم رہنے کا عہد کیے ہوئے ہے اور بھارت کی ’’توقعات‘‘ سے بے خوف ہو کر حمایت ایزدی کے بل بوتے پر زندہ رہنے کے فن سے آشنا ہو چکی۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان بحران سے نکل آیا‘ معاشی اشاریے بہتر ہو چکے ‘وزیراعظم
  • پاکستان بحران سے نکل آیا، معاشی اشاریے بہتر ہو چکے ہیں،وزیراعظم
  • صحتمند طرزِزندگی کیلیے وزن بڑھانے یا گھٹانے کی آسان ٹپس
  • قبضہ مافیا کے خلاف کاررروائی کریں‘ محمد فاروق فرحان
  • 25 سال سے کسی ریسٹورنٹ یا عام جگہ پر ڈنر کرنے نہیں گیا، سلمان خان
  • اے ڈی بی کے 540 ملین ڈالر کے دو منصوبوں کی منظوری
  • عمران زیادہ بڑے خود پسند اور ذہنی مریض ہیں یا جرنیل؟
  • کھسیانی بلی، کھمبا نوچے
  • شام : امریکی سیزرایکٹ کے خاتمے پر ملک بھر میں جشن
  • عوام کے حقوق، صحت، معیارِ زندگی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا،شفقت محمود