ایک زمانے میں ہر جائز ناجائز کام کے لئے سفارش ضروری ہوتی تھی ،اب سفارش کے ساتھ جب تک آپ خرچا پانی” نہ لگائیں یہ ممکن ہی نہیں آپ کا کوئی کام ہو جائے ،اگلے روز ایک صاحب نے مجھے بتایا وہ اپنے بیٹے کا ڈومیسائل بنوانے کے لئے گئے ،سرکاری اہل کار نے ذرا پرے لے جا کر ان سے کہا “اگر فوری چاہئے اس کا پندرہ ہزار خرچا ہوگا اگر دو دن بعد چاہئے اس کا آٹھ ہزار ہوگا اور اگر روٹین میں دو ہفتے بعد چاہئے اس کا تین ہزار ہوگا“ ،ان صاحب نے عرض کیا ”بھائی سرکاری فیس تو صرف دو سو روپے ہے آپ تین ہزار کیوں مانگ رہے ہیں ؟ وہ بولا” دو سو روپے میں آپ کی ڈومیسائل کی درخواست پر کم از کم دو سو اعتراضات لگیں گے ،تقریباً اتنے ہی آپ کے چکر لگ جائیں گے بہتر ہے آپ بغیر اعتراضات اور بغیر چکروں والا ڈومیسائل بنوا لیں“ ،انہوں نے اپنے بیٹے کی پولیس میں بھرتی کی درخواست دینی تھی جس کی آخری تاریخ قریب تھی سو انہوں نے دو سو اعتراضات اور تقریباً اتنے ہی چکروں کے بغیر والا ڈومیسائل بنوا لیا ،میں نے ان سے کہا”آپ مجھے بتاتے میں کسی سے کہہ دیتا“ وہ فرمانے لگے ،” میں نے آپ کو اس لئے نہیں بتایا آپ کسی سے سفارش کریں گے تو ممکن ہے میرا جو کام آٹھ ہزار میں ہونا ہے وہ پندرہ ہزار میں بھی نہ ہو “ ،انہوں نے بالکل ٹھیک فرمایا تھا ،رشوت اب ہمارے لہو میں دوڑتی ہے ،اسے اب حرام نہیں مکمل طور پر حلال سمجھا جاتا ہے ،اس کی مثال پہلے بھی کئی بار میں دے چکا ہوں میں نے ایک ڈی ایس پی سے کہا تم بڑے بے شرم ہو تم نے میرے فلاں عزیز سے پانچ لاکھ روپے رشوت لی ہے ان کا کام بھی نہیں کیا ،وہ بولا” سر رشوت لی ہے تو کام ضرور کروں گا ،میں نے اپنے بچوں کو کبھی حرام نہیں کھلایا“ ،میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں زیادہ پرانا نہیں ہے ،میں نے امریکہ جانا تھا ،جس روز میری فلائیٹ تھی میرا جرمنی میں مقیم ایک بہت اچھا دوست ملنے آگیا ،وہ مجھ سے کہنے لگا ” مجھے پنجاب کے سیکرٹری فوڈ سے ایک بہت ہی جائز کام ہے آپ میرے ساتھ چلیں ،میں نے کہا “ میری آج فلائٹ ہے ،میں نے ابھی پیکنگ کرنی ہے ،وہ میرے بہت اچھے دوست ہیں میں نہیں ابھی کال کر دیتا ہوں ،آپ ان سے مل لیں ،آپ کا کام ہو جائے گا“ ،اس نے اصرار کیا آپ میرے ساتھ چلیں میں ا±س کے ساتھ چلاگیا ،سیکرٹری صاحب نے بہت عزت دی ،کہنے لگے ”بٹ صاحب آپ بے فکر ہو کر امریکہ جائیں ان کا کام بڑا جائز ہے میں ابھی فائل منگوا کر کل تک آرڈرز کر دوں گا“ ،انہوں نے میرے اس دوست کا موبائل نمبر بھی لے لیا ،ان سے کہنے لگے ”آپ کل مجھے کال کر لیں میں آپ کو آرڈرز واٹس ایپ کر دوں گا آپ کو دوبارہ آنے کی ضرورت محسوس نہیں ھوگی“ ،اس کے بعد ہم پورے اس یقین سے ا±ن کے دفتر سے نکل آئے کہ ہمارا کام ہوگیا ہے ،میں بڑے اطمینان سے رات کو امریکہ روانہ ہوگیا“ ،میرا اطمنان اس قدر مضبوط تھا مجھے اپنے دوست سے پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی کہ تمہیں آرڈرز مل گئے ہیں یا نہیں ؟ کچھ عرصہ بعد میں واپس آیا کسی عزیز کی شادی میں گیا وہاں مجھے وہ سیکرٹری فوڈ مل گئے ،وہ مجھ سے شکایت کرنے لگے کہ آپ جس دوست کو لے کر آئے تھے میں نے ان کا کام کر دیا تھا مگر میں پچھلے ہفتے جرمنی گیا میں نے انہیں کئی کالز کی انہوں نے میری کوئی کال اٹینڈ نہیں کی نہ رنگ بیک کیا ،مجھے اپنے ا±س دوست پر بہت غصہ آیا گھر واپس آکر میں نے ا±سے فون کیا اور غصے میں بولتا ہی چلے گیا کہ تم بہت بے حیا انسان ہو ایک بندے نے تم پر احسان کیا تم نے ا±س کی کال ہی اٹینڈ نہیں کی “ ،وہ خاموشی سے مجھے سنتا رہا ،میرا غصہ قدرے ٹھنڈا ہوا وہ کہنے لگا ”بھائی جان آپ تو ا±س روز امریکہ روانہ ہوگئے تھے ،اگلے روز میں نے سیکرٹری صاحب کو کال کی ا±نہوں نے کال اٹینڈ نہیں کی ،ا±س سے اگلے روز بھی نہیں کی ،پھر میں خود ا±ن سے ملنے چلاگیا ،ا±نہوں نے معذرت کی فرمانے لگے میں دو تین روز بہت مصروف رہا ہوں آپ کل آجائیں میں آرڈرز دے د±وں گا ،ا±ن کے کہنے کے مطابق میں کل پھر چلا گیا ،وہ کہنے لگے جس ڈپٹی سیکرٹری نے فائل مکمل کرنی ہے وہ آج چ±ھٹی پر ہے آپ پیر کو آجائیں“ ،میں پیر کو گیا وہ کہنے لگے آپ بے فکر ہو جائیں اسی ہفتے آپ کو آرڈرز مل جائیں گے“ ،اس روز میں جب ان کے دفتر سے باہر نکلا ایک صاحب نے مجھے روک لیا وہ مجھ سے کہنے لگے ”آپ مسلسل تین چار چکر لگا چکے ہیں آپ کا کیا مسئلہ ہے ؟ میں نے ا±نہیں آپ کا بتایا پھر اپنا مسئلہ بتایا وہ کہنے لگے ”سر میں سیکرٹری صاحب کا ڈرائیورہوں آپ کا کام آج ہی ہوسکتا ہے مگر آپ قسم اٹھائیں آپ توفیق بٹ صاحب کو نہیں بتائیں گے“،میں چونکہ چکر لگا لگا کر تنگ آیا ہوا تھا اور آپ کو اس لئے نہیں بتا رہا تھا آپ اپنا ٹور انجوائے کر رہے ہیں میں کیوں آپ کو تنگ کروں ،چنانچہ میں نے قسم ا±ٹھا لی کہ میں آپ کو نہیں بتاوں گا“ ،اس کے بعد ا±س نے مجھ سے پانچ لاکھ روپے مانگے جو کچھ ہی دیر بعد میں نے اسے دے دئیے اور وہ ا±سی شام حسب وعدہ آرڈرز میرے گھر آ کر دے گیا“،یہ داستان سن کر میں نے سر پکڑ لیا ،میں نے ا±س سے پوچھا یار تم جھوٹ تو نہیں بول رہے ؟ اس نے کہا ٹھہرو میں ابھی ”کانفرنس کال“ میں اس ڈرائیور کو لیتا ہوں آپ بس خاموشی سے ہماری گفتگو س±نتے رہنا آپ کو خود یقین آجائے گا“ ،ا±س کے بعد س نے کال ملائی اور ڈرائیور کا حال چال پوچھنے کے بعد اس سے کہنے لگا ”میں پاکستان آ رہاہوں کچھ چاہئے تو بتاو¿ تم میرے مہربان ہو تم نے میرا کام کیا تھا پانچ لاکھ روپے کی میرے لئے کوئی حیثیت نہیں تھی آپ دس لاکھ بھی مانگتے میں نے تمہیں دے دینے تھے ،اصل بات یہ ہے تم نے کام کروا دیا ورنہ اب لوگ پیسے لے کر بھی کام نہیں کرتے“ آگے سے ڈرائیور نے جو کچھ کہا مجھے یقین ہوگیا کام پیسے دے کر ہی ہوا ہے ،اس کے بعد میں نے اس سیکرٹری کو فون کیا اسے سارا واقعہ سنایا اور اس سے کہا ”میرے دوست نے اگر جرمنی میں تمہاری کالز اٹینڈ نہیں کیں اس نے بالکل ٹھیک کیا“ شام کو سیکرٹری صاحب معذرت کرنے میرے گھر آگئے ،میں نے ان سے کہا” بہتر ہوتا اگر تم اپنے ڈرائیور کی معطلی کے آرڈرز اور پانچ لاکھ روپے بھی ساتھ لے کر آتے تاکہ ثابت ہو جاتا اس واردات میں تم بے قصور ہو“ ،اس کالم کا مقصد آپ کو صرف یہ اطلاع کرنا ہے اب سفارش ذرا سوچ سمجھ کر کرایا کریں کیونکہ پاکستان کا مطلب اب بدل چکاہے
پاکستان کا مطلب کیا
پیسے ساہڈے ہتھ پھڑا
جیڑا مرضی کام کرا
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: سیکرٹری صاحب انہوں نے س کے بعد وہ کہنے سے کہنے سے کہا کا کام
پڑھیں:
میں نہیں ہم
ایک مرتبہ علامہ اقبال کے پاس ایک نوجوان آیا اور کہنے لگا:
’’اقبال صاحب! آپ نے شاعری میں مسلمانوں کو بہت جوش دلایا، پر خود تو سیاست میں عملی کردار نہیں نبھایا؟‘‘
اقبال مسکرائے اور فرمایا: ’’بیٹا! اگر خود ہتھیار اٹھاتا تو چند کو جگا پاتا، لیکن اگر میں شعور کو جگا دوں تو قوم خود بخود ہتھیار اٹھا لے گی۔‘‘
پھر فرمایا:’’قومیں نعروں سے نہیں کردار سے بنتی ہیں۔‘‘
علامہ اقبال کی شاعری نے عوام میں شعور جگایا اور قوم آزادی کی تحریک میں بڑھتی چلی گئی، یہ ایک ایسی راہ گزر تھی جو پرپیچ راستوں سے اٹی پڑی تھی، منزل دور نظر آتی تھی، کب ملے گی، کیسے ملے گی، ملے گی بھی یا نہیں؟ لیکن سب ایک مشن پر جت گئے۔
پاکستان اس مکمل مشن کی حقیقت ہے جسے بدصورت کرنے میں ہم سب جتے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف کی پاکستان کے حوالے سے کرپشن کی جو رپورٹ ابھی کچھ عرصہ پہلے نظروں سے گزری اسے دیکھ کر عجیب سا تاثر پیدا ہوا، کیا ہم اس قدر گر چکے ہیں گو تنزلی کی باتیں کر، کر کے ہم تھک بھی چکے ہیں۔
لیکن باتیں کیا حقائق ہی ایسے ہیں کہ چپ رہا نہ جائے اور بول بول کر حلق ہی سوکھ جائے پرکس کے کان پر جوں رینگتی ہے۔ سو بندہ کرے بھی کیا، دعائیں تو مانگ ہی سکتا ہے۔
سنا تھا پنجاب میں ڈرائیونگ لائسنس فیس بارہ ہزار اور سندھ ، بلوچستان اور کے پی کے میں بارہ سو روپے ہے تو ہمارے پنجاب والے بھائی ناراض ہیں کہ ان کی اتنی فیس کیوں ہے، تو عرض ہے کراچی میں بھی ڈرائیونگ لائسنس فیس اتنی کم نہیں، بات اتنی سی ہے کہ اگر اکیس یا چوبیس سو سرکاری فیس تحریر ہے تو۔
’’ ہم نے آٹھ ہزار روپے فی بندہ کے حساب سے فیس دی ہے۔‘‘
’’ لیکن آٹھ ہزار روپے تو فیس نہیں ہے۔‘‘
’’ جی بالکل، آٹھ ہزار روپے، دراصل سب ملا کر دیے ہیں ناں۔‘‘…’’ سب ملا کر مطلب؟‘‘
مسکرا کر ’’ دراصل وہ فیس کے علاوہ بھی پیسے دینے پڑتے ہیں، ورنہ مشکل ہوتی ہے۔‘‘
اس سے آگے کی بات سمجھنے کی ضرورت نہیں۔ ہم سب ای چالان سے پریشان ہیں، حال ہی میں ایک انتہائی قلیل تنخواہ پانیوالے صاحب نے اپنا بڑا سا بل کھول کر دکھایا یوں لگ رہا تھا جیسے بجلی یا گیس کا بل ہے، پر وہ بلز تو اب مختصر کر دیے گئے ہیں لیکن یہ ای چالان جو ان کے گھر بہ ذریعہ ڈاک آیا تھا پرانے بلوں کی مانند بڑا تھا۔
اس میں ان صاحب کی بائیک پر تصویر بھی کھنچی تھی۔ صاحب حیران تھے کہ ان کے سر پر ہیلمٹ بھی ہے، پھر بھی اتنا مہنگا چالان جو غالباً پچیس سو روپے تک کا تھا، جاری کر دیا گیا تھا۔ غور سے دیکھنے پر پتا چلا کہ ان کے پیچھے بیٹھا شخص بنا ہیلمٹ کے تھا اور وہ طاقتور کیمرے کی نظر سے بچ نہ سکا اور یوں قصور وار قرار پائے۔
اس بات پر وہ مطمئن تھے کہ ان کی پہلی غلطی معاف کردی جائے گی اور آیندہ وہ کسی کو بھی لفٹ دینے کی ہمت نہیں کریں گے کہ ایک نیکی سر پر ہزاروں روپے کے جوتے برسائے گی، مہنگائی کے اس دور میں وہ کب تک ان چالانوں کی بھرپائی کر سکیں گے۔
یہ ای چالان کا نظام ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہے۔ بھری ہوئی جیبیں، خوش حالی، اچھا روزگار، سازگار ماحول ساتھ صفائی ستھرائی بھی تو حق تو بنتا ہے کہ ان کی قانون شکنی (جو انھیں گھول کر پلا دیا گیا ہے) پر سزا اور چالان کیا جائے پر ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، کچرا، قلیل تنخواہیں، غربت کی شرح سے نیچے زندگی گزارنے والے مجبور، شکستہ لوگ، کیا ہم ان کا مقابلہ کسی ترقی یافتہ ملک کی قوم سے کر سکتے ہیں؟
قانون کا سب پر یکساں لاگو ہونا بہت اچھی بات ہے پر اس کی دھجیاں بکھیرنا، بات پھر سمجھ میں نہیں آتی کہ ہمارے یہاں اس دور میں نہ تو کوئی علامہ اقبال کی طرح بلند پائے کا شاعر ہے اور نہ ہی گورے سرکار ہیں کہ جن کو ظالم سمجھ کر ہم بھر بھر کر بدعائیں دیں اپنوں کے لیے بددعا نکلے بھی تو کیسے؟
بات کرپشن کی ہو رہی تھی جس کی بنیادیں ہماری قوم کی تاریخ سے جڑی ہیں۔ آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں وہاں کرپشن کی بنیاد پر کھڑا سونے چاندی کا کرپٹ مافیا بلند ہوتا جا رہا ہے اور ملک کی معیشت پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ اس کی کمزور، ناتواں جڑیں ابھی تک نمو نہ پا سکیں۔
ہمارے قومی ادارے جو ملک کی معیشت کو اٹھائے رکھنے کے ذمے دار ہیں، مسائل میں گھرے ہیں آخر کیوں؟ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے نیشنل کرپشن پر ایک سروے رپورٹ 2025 جاری کی ہے، ان کے مطابق تو ملک میں کرپشن کے تاثر میں واضح کمی اور شفافیت میں بہتری سامنے آئی ہے۔
اس رپورٹ میں سارے اداروں کے بارے میں بڑا صحت بخش تاثر نظر آ رہا ہے۔ اس سروے میں چار ہزار افراد نے حصہ لیا تھا۔ کیا یہ چار ہزار افراد پورے ملک کے خیالات کی بھرپور نمایندگی کر سکتے تھے؟ بہرحال رپورٹ تو ایک تحریر ہوتی ہے لیکن حقیقت میں اس کا تعلق کس کس ادارے سے کس حد تک گہرا ہے خدا جانے۔
اس رپورٹ پر مزمل اسلم، مشیر خزانہ کے پی کے کا کہنا ہے کہ کرپشن کے لحاظ سے پنجاب سب سے اوپر جب کہ کے پی کے سب سے نیچے ہے۔ مزمل اسلم کا یہ کہنا ایک دلیرانہ بیان بھی ہے کہ وہ اقرار کر رہے ہیں کہ ان کے صوبے میں بھی کرپشن ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہمارا ملک کرپشن کے ناسور سے سلگ رہا ہے ہر ادارہ اس زہر سے مستفید ہو رہا ہے۔
ساری مراعات ایک خاص طبقے کی نذر ہو رہی ہیں اور عام غریب عوام اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہے۔ ہم غیر ذمے داریوں کی کرپشن سے نکلنے کا سوچتے بھی نہیں کہ سب سے بڑا عذاب یہی ہے۔ ہمارے لیے ہماری فیملی، ہمارے عزیز و اقارب، دوست سب سے اہم ہیں۔ ہم اور ہمارے کی بنیاد پر اپنے لیے کام کرنے کی جستجو اور لگن بڑھتی ہی جا رہی ہے جو ہمیں ہمارے ارد گرد سے اس قدر بے پرواہ کر رہی ہے کہ مسائل ابل رہے ہیں۔
حق دار سسک رہے ہیں اور ذمے دار خاموش کی گردان میں الجھے ہیں اس کے طلسم سے ہماری قوم کیسے آزاد ہوگی جو ہم ایک قوم بن کر اس بھیانک خواب سے جاگیں گے کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے، ستر برس گزر چکے ہیں۔ کہیں ہم ایک صدی گزر جانے کا انتظار تو نہیں کر رہے؟ خدارا اپنے کردار پر نظر ڈالیے۔