مذاکرات ٹھس، عمران، بشریٰ کرپٹ قرار پا گئے
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
پی ٹی آئی نے تحریری مطالبات پیش کر دیئے ہیں۔ 9مئی اور 26نومبر کے حادثات کی تحقیقات کے لئے تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے جس کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان کریں اور عمران خان کو رہا کیا جائے۔ انکوائری کمیشن کے مطالبے اور ملاقات کے بعد رانا ثناءاللہ اور عرفان صدیقی نے پریس کانفرنس کی جبکہ دوسری طرف صاحبزادہ حامد رضا نے مذاکرات کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ دونوں فریقین کی گفتگو سے کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ الزام تراشیاں ہوئیں، دونوں نے ایک دوسرے کو مذاکرات سے بھاگنے کا طعنہ دیا۔ پی ٹی آئی کی غیر سنجیدگی کھل کر سامنے آ گئی ہے، ان کے مطالبات اور ان پر حکومت کا تبصرہ واضح کر رہا ہے کہ مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ دونوں فریق ہی اپنی اپنی سیاست کے اسیر نظر آ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی اپنی گیم کر رہی ہے، پی ٹی آئی میں بہت سے گروہ اپنی اپنی گیم بنانے میں مصروف ہیں۔ ویسے تو پارٹی عمران خان کی ہے، عمران خان ہی پارٹی ہیں لیکن عمران خان جیل میں ہیں اور ان پر مختلف قسم کی پابندیاں ہیں۔ وہ کھل کھلا کر پارٹی کی رہنمائی نہیں کر پا رہے ہیں۔ انہوں نے بیرسٹر گوہر کو پارٹی سربراہ نامزد تو کر دیا ہے لیکن وہ پارٹی سربراہی کر پا رہے ہیں اور نہ ہی انہیں کھل کر پارٹی چلانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ وہ عمران خان کی پراکسی بلکہ پیامبر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ پارٹی پر ان کی گرفت نہیں ہے گو ان کا تعلق وکلاءبرادری سے ہے لیکن یہاں تو پارٹی کے وکلاءہی تقسیم نظر آ رہے ہیں۔ انصاف لائرز فورم ہی دو گروپوں میں بٹ چکا ہے۔ عمران خان کی زوجہ بشریٰ بی بی بھی عمران خان کی حقیقی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں۔ 26نومبر کے دھاوے کی قیادت کرتے ہوئے انہوں نے عمران خان کی ہدایت کے برعکس، اسلام آباد ڈی چوک کی طرف پیش قدمی جاری رکھی اور بالآخر انہیں وہاں سے بھاگنا پڑا۔ وہ 26نومبر کے دھاوے سے قبل پشاور میں پارٹی لیڈر کے طور پر ایکٹ کرتی رہیں۔ ایم پی ایز اور ایم این ایز کو فرداً فرداً ہدایات جاری کرتی رہیں، انہیں بندے لانے کے لئے دھمکاتی رہیں پھر مارچ کی قیادت کرکے اور عمران خان کی ہدایات کے برعکس ڈی چوک کی طرف چلی گئیں۔ انہوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ عمران خان کی حقیقی پراکسی ہی نہیں ہیں بلکہ وہی اصل رہنما ہیں۔ ایسے میں گوہر صاحب یا سلمان اکرم راجہ صاحب کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ بشریٰ بی بی ہی عمران خان کو چلاتی رہی ہیں۔ 44ماہی دور حکمرانی میں بھی بشریٰ بی بی درپردہ معاملات پر غالب تھیں۔ پی ٹی آئی کے مطالبات حکومت کے لئے کسی طور بھی قابل قبول نظر نہیں آ رہے ہیں۔ صاحبزادہ حامد رضا نے
بڑے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ کمیشن کی تشکیل کے اصولی اعلان/ فیصلے کے بغیر بات چیت کا اگلا مرحلہ نہیں ہوگا گویا مذاکرات کا ڈرامہ ختم ہی سمجھنا چاہئے۔
دوسری طرف 190ملین پاﺅنڈ کرپشن کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔ عمران خان کو 14سال قید اور 10لاکھ روپے جرمانہ جبکہ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں 6ماہ قید بھگتنا ہوگی۔ بشریٰ بی بی کو 7سال قید اور 5لاکھ روپے جرمانہ جبکہ جرمانے کی عدم ادائیگی کے باعث 3ماہ مزید قید بھگتنا ہوگی۔ القادر یونیورسٹی کی زمین بھی ضبط کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ عمران خان کو کرپٹ پریکٹسز میں ملوث ہونے کی سزا دی گئی ہے جبکہ بشریٰ بی بی کو ان کاموں میں معاونت کرنے کی سزا دی گئی ہے۔ یہ کیس اوپن اینڈ شٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ 190ملین پاﺅنڈ کیس ایسا کھلا کیس تھا کہ اس میں ملوث افراد کو سزا ہونا لازمی تھی اور عملاً ایسا ہی ہوا۔
ذرا غور کریں ایک القادر ٹرسٹ ہے جس کے دو ٹرسٹیز ہیں۔ عمران خان اور بشریٰ بی بی، اس ٹرسٹ میں آج تک کسی نے کوئی ڈونیشن نہیں دی۔ صرف ملک ریاض نے اراضی ڈونیٹ کی کہ اس پر ایک یونیورسٹی بنائی جا سکے، یہ بالواسطہ ادائیگی تھی، 190ملین پاﺅنڈ کو ملک ریاض کے جرمانے کی ایڈجسٹمنٹ کرنے کے بدلے میں کی گئی۔ 190ملین پاﺅنڈ کرپشن کا مال تھا جو برطانوی عدالت میں ثابت ہوا۔ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض کی اس رقم کو کرپشن کی دولت ثابت کیا، اسے ضبط کیا گیا اور پھر یہ حکومت پاکستان کے حوالے کیا گیا کہ یہ رقم پاکستانی عوام کی ہے اور انہیں لوٹائی جا رہی ہے۔ عمران خان نے شہزاد اکبر کے ساتھ مل کر کابینہ کو مکمل اندھیرے میں رکھ کر جھوٹ بول کر یہ رقم ملک ریاض کے جرمانہ اکاﺅنٹ میں ایڈجسٹ کر دی جو رقم پاکستان کے خزانے میں جمع ہونا چاہئے تھی وہ ملک ریاض کے جرمانے کی مد میں جمع کرا دی گئی پھر اس مہربانی کے جواب میں ملک ریاض نے کرپٹ جوڑے کے ٹرسٹ کو 458کنال زمین عطیہ کر دی۔ دونوں فریقین ہی کرپشن میں ملوث رہے ہیں۔ انہوں نے بڑے خوبصورت انداز میں لین دین کیا۔ بشریٰ بی بی ہیرے کی انگوٹھیاں بھی ملک ریاض سے وصول کرتی رہی ہیں۔ زیورات بھی وصول کئے گئے ہیں۔ عمران خان نے سعودی حکومت کا تحفہ گھڑی پیک جس طرح بیچا بلکہ جس طرح توشہ خانے سے نکلوایا وہ بھی ہماری قومی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ عمران خان اور بشریٰ بی بی جو پاکستان کی قومی سیاست میں کرپٹ ترین جوڑے کے طور پر معروف ہو چکے ہیں۔ کذب اور جھوٹ کی سیاست میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی اپنی پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے 190ملین پاﺅنڈ کرپشن بارے جھوٹ کی چادر تاننے میں مصروف رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی اس حوالے سے حکمت عملی بڑی شاندار رہی ہے وہ کسی بھی معاملے میں کچھ اس طرح بیان بازی کرتے ہیں۔ جھوٹ اس طرح پھیلاتے اور اچھالتے ہیں کہ سچ کہیں چھپ جاتا ہے، گم ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف ن لیگ، پیپلزپارٹی وغیرھم تمام تر مالی وسائل رکھنے کے باوجود اس جھوٹ و کذب کا پردہ چاک کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ سچ کو بھی نمایاں کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ پیپلزپارٹی و ن لیگ مل جل کر حکومت بناتے اور چلاتے رہے ہیں لیکن دونوں کا اخلاص ثابت شدہ نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھی تو ہیں لیکن ان کا یہ اتحاد مفادات پر مبنی ہے جب نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کا میثاق جمہوریت ہوا تھا تو اس کے خدوخال واضح تھے، ٹارگٹس کلیئر تھے اور دونوں بڑے اخلاص کے ساتھ ان پر عمل پیرا بھی ہوئے۔ اس سے جاری سیاسی نظام میں نہ صرف بہتری پیدا ہوئی بلکہ بہتری نظر بھی آئی۔ جمہوری نظام میں بہتری نظر آنے لگی۔ طالع آزما قوتوں کے پروردہ سیاسی رہنماﺅں کی امیدوں پر اوس پڑنے لگی۔ پھر بے نظیر بھٹو کو جبراً منظر سے ہٹا دیا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت زرداری صاحب کے حوالے ہو گئی۔ انہوں نے سیاست میں جو کچھ کیا اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ پیپلزپارٹی سمٹ کر سندھ میں مرتکز ہو چکی ہے۔ زرداری صاحب سب پر بھاری ضرور ہیں لیکن ان کا بھاری پن ان کی پارٹی کو بھی لے بیٹھا ہے۔ پی ٹی آئی بطور پارٹی شاید تتر بتر ہو چکی ہے لیکن اس کی پروپیگنڈہ مشینری فعال و متحرک ہے۔ عمران خان جیل میں ہونے کے باوجود قومی سیاست میں ایک فعال عنصر کے طور پر موجود ہیں۔ ان کی پارٹی کبھی ٹرمپ کارڈ کھیلتی ہے، کبھی سول نافرمانی کارڈ کھیلتی ہے، کبھی آخری بال اور آخری کال دیتی ہے۔ کبھی بشریٰ بی بی لانچ کی جاتی ہے سب کچھ ناکام ہونے کے باوجود عمران خان ملک کو ایک تھریٹ کے طور پر کھڑا ہے۔ اس کی زبان ملک کے خلاف شعلے اگلتی رہتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایسے مجرم کو حکومت کس طرح سہولیات دیتی ہے کہ وہ اپنی پارٹی کی رہنمائی کرے۔ جیل کے دروازے رات کو بھی اور اتوار کو بھی کھول دیئے جاتے ہیں کہ وہ اپنے لوگوں کو ہدایات دے سکیں۔ حکمران عمران خان کی ملک و قوم دشمنی کا پردہ چاک کرنے اور اسے کرپٹ ترین شخص ثابت کرنے میں ویسا کچھ نہیں کر سکے ہیں جیسا کہا جانا چاہئے تھا۔ عدالتوں کے فیصلوں کے ذریعے تو اسے کیفرکردار تک پہنچایا جا رہا ہے لیکن پروپیگنڈہ کے محاذ پر حکمران ناکام نظر آ رہے ہیں۔ سچ ظاہر ہو کر رہتا ہے اور ایسا ہو بھی رہا ہے لیکن سچ کو نمایاں کرنے اور جھوٹے کو بے نقاب کرنے میں جو کاوشیں ہونا چاہئیں وہ نظر نہیں آ رہی ہیں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: 190ملین پاﺅنڈ عمران خان کی عمران خان کو سیاست میں جرمانے کی پی ٹی آئی کے طور پر آ رہے ہیں انہوں نے ملک ریاض ہیں لیکن ہے لیکن کو بھی نہیں آ رہی ہے
پڑھیں:
سندھ کی عوام اپنے حقوق کا سودا کرنے والوں کو کسی قسم کے مذاکرات کا حق نہیں دیگی، سردار عبدالرحیم
ایک بیان میں سیکرٹری اطلاعات جی ڈی اے نے کہا کہ پیپلز پارٹی سندھ کی عوام کا اعتماد کو چکی ہے، سندھ کی عوام اب ان کی کسی بات پر یقین نہیں رکھتے کیونکہ انہوں نے اپنے مفادات اور حکمرانی کے خاطر سندھ کے مفادات کا سودا کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل سندھ کے سیکریٹری جنرل اور جی ڈی اے کے سیکریٹری اطلاعات سردار عبدالرحیم نے کہا ہے کہ سندھ کی عوام اپنے حقوق کا سودا کرنے والوں کو کسی قسم کے مذاکرات کا حق نہیں دیگی، جنہوں نے دریائے سندھ سے مزید 6 نئی کینالز نکالنے کی منظوری دی وہ سندھ کے حقوق کا تحفظ کیسے کرسکتے ہیں، اگر وفاق کو سندھ کے خدشات ختم کرنے ہے تو کینالز کے منصوبے سے دستبردار ہونا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے ایک جاری بیان میں رانا ثنااللہ کے مزاکرات کی پیشکش کے ردعمل میں کہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ زرداری لیگ اب تک سندھ کے عوام کو یہ نہی بتا سکی ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے 6 کینالز کی منظوری کیوں دی۔
سردار عبدالرحیم نے کہا کہ زرداری لیگ اب جو مرضی دروغ گوئی کرے عوام انکی سندھ کے مفادات پر کاری ضرب لگانے کی کوشش سے بخوبی سے آگاہ ہے اور مزید انکے دھوکہ میں نہیں آئے گی۔ سردار عبدالرحیم نے مزید کہا کہ جی ڈی اے میں شامل جماعتیں ببرلو پر وکلا کے دھرنے کو سرہاتے ہیں اور ہاہمی مشاورت سے اس عوامی مہم کو کامیابی کی طرف لیجانے کیلئے ہر قربانی دینے کیلیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی سندھ کی عوام کا اعتماد کو چکی ہے، سندھ کی عوام اب ان کی کسی بات پر یقین نہیں رکھتے کیونکہ انہوں نے اپنے مفادات اور حکمرانی کے خاطر سندھ کے مفادات کا سودا کیا ہے۔