وہ کتنے اکیلے تھے۔ جب وہ مریضوں کے لیے تڑپتے تھے مریض جن کے لیے وہ واحد اُمید کے طور پر موجود تھے۔ لمحہ لمحہ وہ دُنیا کو اپنے مریضوں کو بچانے کے لیے رپورٹ کرتے رہے، کہتے رہے ہم مر رہے ہیں، دُنیا کو بتادو ایک طویل عرصے 2 ماہ یعنی 60 دن کمال عدوان اسپتال میں محاصرے میں رہے، بمباری ہوتی رہی، اسپتال میں آگ لگادی گئی، پھر بھی وہ باہر نہ آئے، اپنے مریضوں کے ساتھ رہے، شدید زخمی مریضوں کے ساتھ پانی، خوراک، ادویات، بجلی ہر چیز کے بغیر وہ اُن کے ساتھ تھے۔ یہ ہیں ڈاکٹر حسام ابوصفیہ انہوں نے بہت دفعہ کی دھمکیوں کے باوجود اپنی جان بچانے کے لیے باہر نکلنا گوارا نہیں کیا۔ آخری لمحوں تک پہاڑ جیسی استقامت کے ساتھ صہیونی درندوں کے سامنے ڈٹے رہے۔ ویسے امکان ہے کہ صہیونیوں کو درندہ کہنے پر درندے ناراض ہوں اور بُرا مانیں۔ حسام ابوصفیہ جو روسی شہریت رکھتے تھے، چاہتے تو اس سب کے بعد غزہ ہی چھوڑ جاتے۔ لیکن بھلا وہ کیوں کرتے ایسا وہ تو غزہ آئے ہی فلسطینیوں کے لیے تھے۔ انہوں نے ہر چیز برداشت کی، بھوک پیاس گرمی سردی پھر… پھر اپنے بیٹے ابراہیم کی موت جس کو دفنانے کے لیے ان کو صہیونیوں نے اسپتال سے باہر نہیں آنے دیا، انہوں نے اپنے پیارے بیٹے کو اسپتال کی دیوار کے ساتھ دفن کردیا۔ لیکن وہیں رہے۔ کئی دفعہ زخمی ہوئے راتیں جاگ کر گزاریں، لیکن ایک مرد آہن کی طرح انسان خدمت کے لیے ڈٹے رہے۔ بار بار اقوام عالم کو آواز دیتے۔ توجہ دلاتے، انسان المیے کے بارے میں بتاتے لیکن اقوام نے اُن کی نہ سنی۔
وہ اس آخری لمحے تک اپنے مشن پر قائم رہے۔ آخر انہیں صہیونیوں نے گرفتار کرلیا، یہ ہیں ہمارے اصل ہیرو۔ ان کے ایک بیٹے نے ان کی گرفتاری پر پیغام نشر کیا کہ ہم اپنے والد کی گرفتاری اور ان کے بارے میں معلومات نہ ملنے پر درد اور پریشانی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں وہ ہمارے بھائی اور اپنے بیٹے ابراہیم کی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے وہ خود بھی شدید زخمی ہوئے اور آج بھی اس کے اثرات سے دوچار ہیں اس کے باوجود ہمارے والد نے پورے خلوص سے اپنا فرض ادا کیا۔ ڈاکٹر حسان ابوصفیہ کے ساتھ گرفتار کیے گئے کچھ لوگوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر چھوڑا گیا۔ ان رہائی پانے والوں نے بتایا کہ انہیں گرفتاری کے ساتھ ہی رائفل کے بٹوں سے مارا پیٹا گیا، شدید سردی میں کئی گھنٹے برہنہ مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی فوج کے بدنام زمانہ ’’سدی تیمان‘‘ حراستی کیمپ سے رہائی پانے والے قیدی محمد الرملاوی نے بتایا کہ اپنی رہائی سے دو دن پہلے میں ڈاکٹر حسام ابوصفیہ سے ملا تو حیران رہ گیا ان کی حالت بہت خراب تھی، ہم ان کی حالت دیکھ کر بے ساختہ رو پڑے۔ وہ ایک قومی شخصیت ہیں، ہمارے رہنما، ہمارے ہیرو۔ الرملاوی قیدی نے کہا کہ ڈاکٹر حسام ابوصفیہ نے بتایا کہ ان کی گرفتاری کے دوران اسرائیلی فوج کی طرف سے ان کے ساتھ بہت بدسلوکی کی گئی۔ مجھ پر بدترین ظلم کیا گیا مجھے بہت ذلیل و رسوا کیا گیا۔ اسرائیلی حکومت ڈاکٹر ابو حسام کے وکیل کو ان سے ملنے کی اجازت بھی نہیں دے رہی جبکہ اس سے قبل وہ ان کی جیل میں موجودگی سے بھی انکار کررہے تھے۔ اب وہ اپنے اس بیانیے کو واپس لے رہے ہیں کہ ڈاکٹر حسام ابوصفیہ اسرائیل میں نظر بند نہیں ہیں۔ یہ اُس دبائو کا نتیجہ ہے کہ جو مختلف ملکوں میں اُن کے لیے احتجاج کا باعث بنا۔ لیکن یہ کوئی خاص نتیجہ نہیں ہے۔ جب تک ان کو اور دیگر تمام قیدیوں کو حفاظت کے ساتھ رہا نہیں کیا جاتا۔ ایک طرف اسرائیلی حکومت کے جرائم انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑا رہے ہیں اور دوسری طرف اقوام متحدہ کے اہلکار زبانی کلامی مطالبات اور بیانات پر ہی اَٹکے ہوئے ہیں۔ کیا اُن کا یہ کہہ دینا کافی ہے کہ ’’اسرائیل منظم طریقے سے بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہا ہے‘‘۔ وہ تو کررہا ہے آپ کیا کررہے ہیں؟ دنیا کے تین ملکوں امریکا، برطانیہ اور اسرائیل نے مل کر غزہ میں نسل کشی کی باقی ممالک خاموشی سے سب دیکھتے رہے۔ تاریخ یہ بات یاد رکھے گی۔
بتایا جارہا ہے کہ حماس اور اسرائیلی حکومت کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا ہے۔ قیدیوں کا تبادلہ ہوگیا۔ اُمید ہے کہ ڈاکٹر حسام ابوصفیہ کو رہا کیا جائے گا اور ان کے ساتھ بہت سے فلسطینی جو اسرائیلی جیلوں میں برسوں سے تشدد سہہ رہے ہیں اور جیل کاٹ رہے ہیں لیکن اسرائیل امریکا برطانیہ کو پابند کرنے اور سزا دینے کے لیے اقوام متحدہ اعلان کرے گی؟
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: رہے ہیں کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
پاکستان کے سلطان گولڈن نے ریورس ڈرائیونگ کا عالمی ریکارڈ اپنے نام کر لیا
پاکستان کے نوجوان ڈرائیور سلطان گولڈن نے ریورس ڈرائیونگ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا ہے، جس پر ملک بھر میں خوشی اور فخر کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سلطان گولڈن نے تیز ترین ریورس ڈرائیونگ میں ایک میل کا فاصلہ صرف 57 سیکنڈ میں طے کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔ اس سے قبل یہ ریکارڈ ایک امریکی اسٹنٹ مین کے پاس تھا، جس نے 2022 میں یہی فاصلہ 1 منٹ اور 15 سیکنڈ میں مکمل کیا تھا۔
سلطان گولڈن کی اس کامیابی نے نہ صرف سابقہ ریکارڈ توڑا بلکہ ریورس ڈرائیونگ کی تاریخ میں ایک نیا سنگِ میل بھی قائم کر دیا۔ ان کی اس غیر معمولی مہارت کو موٹر اسپورٹس کے حلقوں میں بے حد سراہا جا رہا ہے، جبکہ سوشل میڈیا پر بھی انہیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔
یہ کارنامہ پاکستانی ٹیلنٹ کی ایک اور روشن مثال ہے، جس نے عالمی سطح پر ملک کا نام بلند کر دیا۔