حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) تنظیمِ اسلامی کے امیر شجاع الدین شیخ نے کہا ہے کہ اسلام آباد کانفرنس کا نشانہ امارتِ اسلامیہ افغانستان تھی لیکن اس میں لیے گئے فیصلے تمام مسلم ممالک کے معاشروں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوں گے۔ یہ بات انہوں نے ایک بیان میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ ’’مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم، چیلنجز اور مواقع‘‘ کے عنوان سے پاکستان میں منعقد ہونے والی 2 روزہ کانفرنس جس میں 47مسلم ممالک کے وزراء اور دیگر کئی عالمی اداروں کے وفود نے شرکت کی، اس کے اصل ایجنڈا کا تعلیم سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا، حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان حصول ِعلم یا علم کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا کیونکہ پہلی وحی میں ہی ’’اقراء‘‘ کا حکم رسول اللہ ﷺ کی وساطت سے پوری انسانیت کو دیا گیا ہے، یہ علیحدہ بات ہے کہ ’’اقراء‘‘ کے فوری بعد وارد ہونے والے ’’باسم ربی‘‘ سے اس کانفرنس میں عمداً چشم پوشی کی گئی۔ کانفرنس کے ایجنڈا اور اس میں کی گئی اکثر تقاریر سے صاف ظاہر ہوگیا کہ مقصد مغرب کی بے حیائی اور مادر پدر آزادی کی بنیاد پر قائم تہذیب کو ”مشترکہ لائحہ عمل” جیسا پُر فریب غلاف چڑھا کر مسلم ممالک پر ٹھونسنا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ مسلم ممالک کا تعفن زدہ مغربی تہذیب اور طرزِ معاشرت کو درآمد کرنا معاشرتی خود کش حملہ سے کم نہیں، پھر یہ کہ بعض مقررین کا ”انتہا پسندانہ نظریات” اور ”معاشرتی اقدار” کو مسلم ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کے راستے کی سب سے بڑی رُکاوٹ قرار دینے اور ملالہ یوسفزئی کا اپنی تقریر میں امارتِ اسلامیہ افغانستان میں افغان طالبان کے رائج کردہ نظامِ تعلیم کے خلاف زہر افشانی کرنے نے ثابت کر دیا کہ کانفرنس کا حقیقی ہدف افغانستان میں نافذ دینی معاشرتی اقدار کو خلافِ اسلام قرار دینا تھا۔ اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ تعلیم کے یہ نام نہاد علمبردار کیا لڑکوں کی تعلیم کے حوالے سے بھی کوئی کانفرنس کریں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1979ء میں نام نہاد حقوق نسواں سے متعلق جب سیڈا (CEDAW) دستاویز کو منظور کیا تھا تو مسلم ممالک کے معاشرتی اور خصوصاََ خاندانی نظام پر مغرب کی جانب سے حملوں کا دروازہ کھل گیا تھا۔ اس کے بعد سے آج تک مختلف کانفرنسوں میں عورت کے حوالے سے اسلامی تعلیمات پر مغرب کے وار مسلسل جاری ہیں، اسلام دینِ فطرت ہے اور اس میں عورتوں اور مردوں دونوں کے حقوق کا عدل کے ساتھ تعین کر دیا گیا ہے۔ اگر ہم غیروں کی نقالی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے مسلسل بغاوت کی روش کو جاری رکھیں گے تو ہماری دنیا بھی برباد ہوگی اور آخرت میں بھی ناکامی ہمارا مقدر بن جائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم ممالک غیروں کے ایجنڈا کو یکسر رد کریں اور تعلیم سمیت ہرشعبہ میں اسلام کے معاشرتی نظام کو قائم و نافذ کریں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مسلم ممالک تعلیم کے

پڑھیں:

کفار کے ساتھ نبی اکرم ﷺکا معاشرتی رویہ

جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرتی زندگی کے اس پہلو پر آج کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے کافروں کے ساتھ معاشرتی زندگی میں کیا معاملہ کیا ہے اور ان کے ساتھ زندگی کیسے گزاری ہے؟ اس حوالہ سے جناب سرور کائناتﷺکی حیات مبارکہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ (۱) پہلا حصہ اس چالیس سالہ دور کا ہے جو نبوت سے پہلے مکہ مکرمہ میں گزرا۔ نبی اکرمﷺ چونکہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے اس لیے کفر و شرک، بت پرستی اور جاہلانہ رسوم سے آپ کی نفرت طبعی تھی۔ حضورﷺ ان امور میں معاشرے کے ساتھ شریک نہیں تھے اور ایسی تمام باتوں سے الگ تھلگ رہتے تھے لیکن عمومی معاشرت میں باقی لوگوں کے ساتھ آپ ﷺ بھی اسی معاشرے کا حصہ تھے۔ سوسائٹی کے معاملات میں شریک ہوتے تھے، رشتہ داریاں قائم تھیں اور لین دین کے معاملات بھی جاری رہتے تھے۔(۲) جناب نبی اکرمﷺکی معاشرتی زندگی کا دوسرا حصہ نبوت ملنے کے بعد کا ہے۔ جب نبوت ملی اور آنحضرتﷺ نے توحید کی دعوت کا آغاز کیا تو صورتحال مختلف ہو گئی۔ اس سے قبل اخلاق حسنہ اور خدمت خلق کے باعث آپؐ کو سوسائٹی کی پسندیدہ ترین شخصیت کی حیثیت حاصل تھی، صادق و امین کے لقب سے پکارا جاتا تھا، اور مختلف امور میں آپ سے راہنمائی لی جاتی تھی۔ لیکن توحید کے اعلان اور عام محفلوں میں قرآن کریم کی تلاوت کو ناپسند کیا گیا اور مخالفت کا دور شروع ہو گیا جو تیرہ سال جاری رہا۔یہ تیرہ سالہ دور مخالفت کا دور تھا، آزمائش و ابتلاء کا دور تھا اور اذیت و تکلیف کا دور تھا۔ اس دور میں جہاں نبی اکرمﷺ نے دین کی دعوت کا سلسلہ جاری رکھا، اپنی جماعت کی توسیع کی محنت کرتے رہے، ساتھ دینے والے حضرات کی تعلیم و تربیت کا فریضہ سر انجام دیتے رہے، اور صبر و حوصلہ کے ساتھ اپنے مشن کو مسلسل آگے بڑھاتے رہے وہاں مکہ مکرمہ کی عمومی معاشرت کا حصہ رہے اور معاشرتی معاملات میں برابر شریک ہوتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک موقع پر قریش کے مختلف خاندانوں نے اجتماعی فیصلہ کر کے آنحضرت ﷺاور ان کے ساتھیوں کا معاشرتی بائیکاٹ کر دیا جو تین سال جاری رہا۔ اس دوران شعب ابی طالب میں انہیں محصور کر دیا گیا اور بائیکاٹ کی نگرانی کے لیے ناکہ بندی کا اہتمام بھی کیا گیا لیکن یہ بائیکاٹ یکطرفہ تھا۔جناب رسول اللہﷺنے اس دور میں بھی دعوت و تبلیغ کے تقاضوں کی تکمیل کی اور بائیکاٹ کی پروا نہ کرتے ہوئے تعلقات اور دعوت کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس دور میں کافروں کا غلبہ تھا اور مسلمان اقلیت میں تھے بلکہ وہ اکثریت کے مظالم اور اذیتوں کا نشانہ تھے لیکن آنحضرت ﷺ نے مزاحمت کا راستہ اختیار نہیں کیا، نہ اجتماعی مزاحمت کی اور نہ ہی انفرادی طور پر کسی ساتھی کو اس کی اجازت دی، بلکہ حوصلہ اور صبر کے ساتھ مظالم برداشت کرتے ہوئے دعوت تبلیغ اور تعلیم و تربیت کا سلسلہ قائم رکھا۔
البتہ اس دوران مکہ مکرمہ کی آبادی سے ہٹ کر مختلف اطراف سے دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ کافر قبائل میں اپنی حمایت و حفاظت کے مواقع بھی تلاش کرتے رہے۔ طائف کا سفر جناب رسول اللہﷺنے اسی لیے کیا تھا کہ بنو ثقیف کے سرداروں کو قریش کے مظالم کے خلاف اپنی حمایت کے لیے آمادہ کر سکیں۔ حبشہ کی طرف صحابہ کرامؓ کی ہجرت کا بھی ایک اہم مقصد مسلمانوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ مہیا کرنا تھا جو حاصل ہو گئی۔ جبکہ حج کے لیے یثرب سے آنے والے قافلوں کے خیموں میں حضورؐ کا بار بار جانا اور انہیں دعوت دینا بھی اسی لیے تھا کہ وہ مسلمان ہو کر مکہ مکرمہ کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھی بنیں اور انہیں محفوظ ٹھکانہ مہیا کریں جیسا کہ عملاً ہو بھی گیا۔ یثرب سے آنے والے لوگوں کے ساتھ بیعتِ عقبہ ثانیہ کے بعد نبی اکرم ﷺکی ہجرت کی راہ ہموار ہوئی اور اس ہجرت پر مکہ مکرمہ کے تیرہ سالہ مظلومانہ دور کا اختتام ہوا۔(۳) اس کے بعد جناب رسول اللہ ﷺ کی معاشرتی زندگی کا تیسرا دور شروع ہوا جو دس سال جاری رہا اور یہ سب سے زیادہ ہنگامہ خیز دور تھا۔ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق آنحضرت ﷺ کی ہجرت سے پہلے یثرب اور اردگرد کے قبائل ایک علاقائی حکومت کے قیام پر متفق ہو چکے تھے اور بادشاہ کے طور پر عبد اللہ بن أبی کے نام کا فیصلہ بھی ہو گیا تھا، صرف تاج پوشی کی رسم باقی تھی کہ حضورﷺکی تشریف آوری سے ساری صورت حال بدل گئی۔ وہ حکومت جو عبد اللہ بن أبی کی سربراہی میں قائم ہونا تھی وہ آپ ﷺ کی قیادت میں تشکیل پا گئی۔میری طالب علمانہ رائے میں اس ریاست و حکومت کے خدوخال طے کرنے کے لیے قبائل کے درمیان جو مذاکرات ہو چکے تھے وہی ’’میثاق مدینہ‘‘ کا ہوم ورک اور اساس بنے جس میں حضورﷺ نے بنیادی تبدیلی یہ کی کہ اسے ایک نظریاتی ریاست کی شکل دے دی جو آگے چل کر خلافت راشدہ اور عالمی اسلامی خلافت کی صورت میں دنیا میں پھیلتی چلی گئی۔ ابتدا میں اس حکومت و ریاست میں مسلمان بھی شامل تھے، یہودی قبائل بھی اس کا حصہ تھے اور اردگرد کے دیگر قبائل بھی اس میں شریک تھے، جبکہ اس نظم میں آنحضرتؐ کو حاکم اعلیٰ جبکہ ’’میثاق مدینہ‘‘ کو دستور کی حیثیت حاصل تھی۔ بعد میں یہودی قبائل میثاق معاہدہ کی خلاف ورزی کے باعث یکے بعد دیگرے مدینہ منورہ سے جلاوطن ہوتے گئے اور بنو قریظہ کی جلاوطنی کے بعد مدینہ منورہ مسلمانوں کے لیے مخصوص ہو کر رہ گیا۔
( جاری ہے )

متعلقہ مضامین

  • غیر مسلم آبادی والے ملک میں اسلامی تدفین کا قانون نافذ
  • غیر مسلم آبادی والے ملک میں اسلامی تدفین کا قانون نافذ 
  • کفار کے ساتھ نبی اکرم ﷺکا معاشرتی رویہ
  • تنظیم نو کا معاملہ، پاکستان مسلم لیگ (ق) نے بڑا فیصلہ کرلیا
  • بنگال شہر میں تشدد ہندو مسلم تقسیم کا نتیجہ ہے، فاروق عبداللہ
  • امریکا میں پابندی کے خدشات کے بعد پاکستانی طلبہ کے لیے کن ممالک میں بہترین مواقع موجود ہیں؟
  • پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
  • مرکزی مسلم لیگ کے تحت کراچی میں شہدائے غزہ کانفرنس
  • کراچی میں مرکزی مسلم لیگ کی شہدائے غزہ کانفرنس کی ڈرون فوٹیج
  • پاکستان بطور ایٹمی طاقت مسلم ممالک کی قیادت کرے، اسرائیلی مظالم روکے جائیں، شہدائے غزہ کانفرنس