WE News:
2025-04-22@14:18:19 GMT

تنہا زندگی کے مثبت و منفی پہلو

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

تبو اکیلی رہنا پسند کرتی ہے۔

انڈین اداکارہ تبو میری فیورٹ آرٹسٹ ہے۔

اس نے فلم ’چینی کم ہے‘ میں 60،63  برس کے امیتابھ بچن کو جس طرح سے پیار کیا ہے اس نے میرے جیسے بزرگوں کا دل جیت لیا ہے۔

بالی ووڈ اداکارہ کا حالیہ انٹرویو، جس میں اس نے کہا ہے کہ وہ اکیلے زندگی گزارنا پسند کرتی ہے اور اس کو مرد صرف اپنے ساتھ سونے کے لیے چاہیے شادی کے لیے نہیں، ایک خبر بن گیا ہے۔

 موجودہ دور میں اس بیان کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔

وہ یہ بیان تب دیتی ہے جب دنیا اتنی ماڈرن نہیں ہوئی تھی تب یہ کوئی بریکنگ نیوز بنتی تھی۔ اب تو ڈیجیٹل میڈیا نے فیمینزم کی تحریک کو اس نہج پہ پہنچا دیا ہے کہ جہاں ہر دوسری عورت کم از کم منھ سے یہی کہہ رہی ہے کہ مجھے مرد کی ضرورت نہیں ہے۔

خیر اصل بات یہ ہے کہ مرد ہو یا عورت اس کو شادی یا مخالف جنس کے ساتھ رہنے کی ضرورت قدرتی ہے۔ شادی کو بعض حلقے اس لیے ختم کرنا چاہ رہے ہیں کہ شادی کی وجہ سے جو گھر اور بچے ایک پرسکون زندگی گزارتے ہیں اس کی وجہ سے انڈسٹری کو کوئی ترقی نہیں ملتی ہے۔ جبکہ سنگل مرد و خواتین زیادہ اچھے کنزیومر ثابت ہوتے ہیں۔

کچھ سالوں پہلے زندگی اس طرح کی تھی کہ 60 سے 70 فیصد مرد اور عورت پرسکون زندگی گزارتے تھے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اور اپنے بچوں کے ساتھ مل کے خوشیاں شیئر کرتے تھے۔

پھر کیپیٹلزم آیا، سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے ثمرات آئے۔ اور دوسری چیز تھی کنزیومرازم جس میں ہر انسان کو چیزیں استعمال کرنے والا زومبی بنا دیا گیا۔ اس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں چھین لی گئیں اور اس کو محض چیزیں ضائع کرنے والی مشین بنا دیا گیا۔

وہ چیزوں سے خوشی محسوس کرتا ہے۔

اور کچھ چیزیں چھن جانے سے تکلیف محسوس کرتا ہے۔

چیزیں اکٹھی کرتا ہے اور پھر انکی حفاظت کرتے کرتے مر جاتا ہے۔

اسی کو کامیاب زندگی بتایا جا رہا ہے۔

اور اسی کو خوشی کا منبع سمجھایا جا رہا ہے۔

تو اس کے تحت بھی اگر تبو کہتی ہے کہ اس کو کسی گھر، فیملی یا بچوں کی ضرورت نہیں تب بھی ٹھیک ہے۔

لیکن دوسری طرف اگر دیکھیں تو تبو محض ایک انسان ہے اور ہر انسان مختلف ہو سکتا ہے۔

ہم اکثریت کی بات کریں تو اج بھی انسانوں کی زندگیوں میں محبت خیال اور رشتوں کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔

عام عورت ہو یا مرد اس کو دوستی پیار محبت کے علاوہ ایک گھر اور اپنی اولاد میں سکون محسوس ہوتا ہے۔

لیکن ماڈرن دنیا میں اگر ایک طبقہ ایسا پیدا ہو بھی جائے جو صرف چیزوں سے پیار کرے اور چیزوں کے ساتھ رہے تو اس میں حیرانی کی بات نہیں ہونا چاہیے۔

کیونکہ انسانوں کی طبیعت مختلف ہیں تو کچھ انسانوں کو اس طرح کی زندگی زیادہ سوٹ کرتی ہے تبو بھی ان میں سے ایک انسان ہے۔ جو تنہا زندگی کو زیادہ انجوائے کرتے ہیں۔

مسئلہ صرف یہ ہے کہ اگر تبو کی بات کو گلیمرائز کر دیا جائے اور بہت سی ایسی عورتیں اس سے سبق لے کے تنہا زندگی گزارنا شروع کر دیں لیکن 52 سال کی ہوتے ہوئے تبو جتنی کامیاب یا خوش ہے وہ ویسی نہ ہوں تو انکے لیے واپسی کا کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔

اس لیے ہمیں میڈیا کی ایسی خبروں سے اپنی زندگی کے فیصلے نہیں کرنے چاہییں۔ بلکہ اپنی زندگی کے فیصلے اپنی شخصیت اور عادات کو سمجھ کر کرنے چاہیے۔
خاص طور پر مستقبل کے وہ فیصلے جن میں جذباتیت بھی شامل ہو اس میں لازمی طور پر یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم یہ زندگی پہلی مرتبہ تجربہ کر رہے ہیں اس لیے ممکن ہے کہ ہم ان تمام چیزوں کا احاطہ نہ کر سکیں جو زندگی کے اختتام تک انسان کو پیش آتی ہے اس کے لیے ہمیں کسی رہنما یا کنسلٹنٹ کی ضرورت پڑ سکتی ہے (ویسے پہلے زمانوں میں اس کام کے لیے بزرگوں کی مدد لی جاتی تھی)

ماڈرن لائف اسٹائل میں گرچہ اس بات کی بہت ساری گنجائش موجود ہے کہ کوئی بھی فرد اکیلا اپنا بڑھاپا آسانی سے گزار سکے۔ لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں ہر لائف اسٹائل کو جینے کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ اور سب سے زیادہ ضروری بات ہی یہ ہے کہ وہ لائف اسٹائل آپ کی شخصیت کو سوٹ کرتا ہو۔

امریکا میں Pew Research Center  کی ایک ریسرچ کے مطابق 50 سال سے زیادہ عمر کی خواتین نے اپنی زندگی کے  کچھ مثبت اور کچھ منفی پہلوؤں کے بارے میں بات کی ہے۔

مثبت پہلو یہ ہیں:

50 سال سے زیادہ عمر کی اکیلی خواتین عام طور پر اپنی زندگی سے مطمئن ہوتی ہیں اور ان مردوں سے زیادہ بہتر زندگی گزارتی ہیں جو 50 سال کی عمر کے بعد اکیلی زندگی گزار رہے ہیں۔

اس عمر کی خواتین اپنی زندگی کے نئے مقصد کی تلاش کرتی ہیں، گھومتی پھرتی ہیں، نئے شوق پالتی ہیں اور خوش رہتی ہیں۔

ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ اس عمر کی اکثر خواتین معاشی طور پر مستحکم ہوتی ہیں جس سے ان کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے میں مدد ملتی ہے۔

دوسری جانب 50 سال سے زیادہ عمر میں اکیلی رہنے والی خواتین تنہائی کا شکار ہو سکتی ہیں۔ اگر ان کے ملنے جلنے والے یا خاندان کے لوگ آس پاس نہ ہوں تو انکی تنہائی بڑھ جاتی ہے۔ ان کو صحت کے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے اور وہ ذہنی کمزوری اور ڈپریشن کا شکار بھی ہو سکتی ہیں۔

یہ تو امریکا کے ایک ادارے کی ریسرچ ہے۔ لیکن فی الحال پاکستانی معاشرے میں 50 سال کی عمر سے زائد میں تنہا رہنا عام عورت کا انتخاب نہیں بن سکتا۔ سوائے کچھ خاص خواتین کے جو اپنی شخصیت میں اتنی کامیاب، مضبوط اور واضح ہوں کہ انکو کسی مستقل ساتھی کی ضرورت نہ ہو۔ یا پھر وہ سماجی رویوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی اپنی ذہنی صحت کو قائم رکھ سکیں۔

ایک آخری بات جو ان خواتین و حضرات کو یاد رکھنا ہے جو سمجھتے ہیں کہ ان کو ایک مستقل جیون ساتھی کی ضرورت نہیں ہوگی اور نہ ہی انکو بچوں کی کوئی خواہش محسوس ہوتی ہے۔ وہ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ انسان جیسا اپنی زندگی 20ویں سے 40ویں سال تک محسوس کرتا ہے ضروری نہیں کہ اس کے خیالات عمر کے 40 سے 50 اور 60 سالوں میں بھی ایسے ہی رہیں۔

بہتر مشورہ تو یہی ہے کہ آپ زندگی کے جس بھی حصے میں ہوں، آپ کو ایک سماجی انسان کے طور پر رشتوں اور تعلقات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ چاہے شادی کریں یا نہ کریں لیکن آپ کے اردگرد ایسا سپورٹ سسٹم ضرور رہنا چاہیے جو آپ کی جذباتی اور نفسیاتی صحت کے لیے ایک سہارا بن سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود فیاض

اداکارہ تبو اہل و عیال تنہا زندگی جیون ساتھی سنگل لائف.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اداکارہ تبو تنہا زندگی سنگل لائف اپنی زندگی کے کی ضرورت نہ تنہا زندگی سے زیادہ یہ ہے کہ کے ساتھ کرتا ہے ہے کہ ا کی بات ہے اور اور اس کے لیے عمر کی

پڑھیں:

عورتیں جو جینا چاہتی تھیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) گزشتہ ہفتے سندھ کی دو مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی دو خودمختار خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا لاڑکانہ کی سرکاری اسکول ٹیچر صدف حاصلو اور میرپورخاص کی پولیس اہلکار مہوش جروار۔ دونوں کے قاتل پولیس سے تعلق رکھنے والے مرد تھے۔ یعنی اسی ادارے کے نمائندے، جس پر ان کے تحفظ کی ذمہ داری تھی۔

صدف حاصلو، لاڑکانہ کی ایک باہمت لڑکی تھی، جس نے والد کے انتقال کے بعد اپنی ماں کے ساتھ مل کر گھر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ وہ کبھی پرائیویٹ اسکولوں میں معمولی تنخواہ پر پڑھاتی رہی، کبھی بچوں کو ٹیوشن دیتی رہی اور بالآخر اپنی محنت سے ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر لگ گئیں۔ لیکن ایک خودمختار عورت اس معاشرے کو کب قبول ہوتی ہے؟

ایک پولیس اہلکار صدف سے شادی کا خواہشمند تھا۔

(جاری ہے)

صدف کی ماں نے اس کا نکاح تو اس پولیس اہلکار سے پڑھوا دیا، لیکن رخصتی سے پہلے کچھ شرائط رکھی۔ مگر چونکہ لڑکا پولیس میں تھا، اس نے سمجھا کہ اب صدف پر اس کا مکمل حق ہے۔ وہ بار بار صدف کے گھر آتا، دھمکاتا اور ایک دن بندوق اٹھا کر زبردستی کرنے پہنچ گیا۔ صدف نے ہمت دکھائی، خلع کا فیصلہ کیا اور تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع بھی کیا۔ لیکن کون سنتا ہے ایک عام سی اسکول ٹیچر کی فریاد؟ نہ تحفظ ملا، نہ انصاف۔

چند دن بعد، جب صدف اسکول سے واپس آ رہی تھی، تو اسی پولیس اہلکار نے سرِعام اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔ آج بھی وہ قاتل آزاد گھوم رہا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

دوسری خاتون، مہوش جروار جو ایک پولیس کانسٹیبل تھی۔ مہوش جروار، ایک یتیم لڑکی، جس کا باپ برسوں پہلے دنیا سے رخصت ہو چکا تھا، اپنی ماں کے ساتھ غربت کے سائے میں پلی بڑھی۔

دو سال پہلے اسے پولیس میں کانسٹیبل کی نوکری ملی۔ یہ نوکری اس کے لیے ایک امید تھی، ایک نئی زندگی کی راہ۔ مگر اس نظام میں نوکری نہیں، صرف کمزوروں کا استحصال بکتا ہے۔

مہوش کی پوسٹنگ میرپورخاص سینٹرل جیل میں ہوئی۔ پھر پولیس اہلکار یوسف کھوسہ نے اسے مسلسل بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ تنگ آ کر مہوش نے اپنی پوسٹنگ حیدرآباد کروالی، لیکن حالات اور غربت اسے دوبارہ میرپورخاص کھینچ لائی۔

پھر ایک دن وہی وردی جو اس کی پہچان تھی، اس کی لاش پر موجود تھی۔ مہوش اپنی پولیس کی وردی ہی میں پھندے سے جھولتی پائی گئی۔

ایک بات طے ہے، مہوش اس بلیک میلنگ سے تھک چکی تھی، اس نے آواز اٹھانے کی کوشش کی، مقام بدلا، شکایات درج کروائیں، مگر سسٹم نے کبھی اس کی بات سننا گوارا نہ کی۔ حیدرآباد میں ایف آئی اے کے دفتر میں ایک شکایت 2 جنوری کو درج ہوئی اور ابھی اپریل چل رہا ہے۔

مگر اس کی تفتیش کا کوئی پتہ نہیں۔ نہ کوئی فون، نہ کوئی طلبی، نہ کوئی پیش رفت۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر صدف اور مہوش جیسی تعلیم یافتہ، بہادر، محنتی عورتیں بھی اس معاشرے میں محفوظ نہیں، تو پھر تحفظ کی ضمانت کس کے پاس ہے؟ یہ دو کہانیاں محض دو عورتوں کی نہیں، بلکہ اس پورے نظام کی ناکامی کی کہانی ہیں۔ ایک ایسا نظام جو عورت کو صرف اس وقت برداشت کرتا ہے جب وہ خاموشی سے سر جھکائے، "ہاں" کہنا سیکھ لے اور اپنی خودمختاری قربان کر دے۔

صدف اور مہوش جیسے بے شمار چہرے ہیں جو روز کام پر جاتے ہیں، خود کو اور اپنے گھر والوں کو سنبھالتے ہیں اور اس امید پر زندہ رہتے ہیں کہ شاید ایک دن یہ معاشرہ انہیں جینے کا حق دے گا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • حج کی سعادت کا خواب! خواہشمند پاکستانیوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی داؤ پر لگ گئی
  • فلم اسٹار خوشبو خان نے اپنی زندگی کے دکھوں سے پردہ اٹھا دیا
  • پیپلز پارٹی کو حکومت سے علیحدہ ہونا پڑا تو 2 منٹ نہیں لگائیں گے، ناصر حسین شاہ
  • آپ تنہا نہیں، وفاق آپ کے ساتھ ہے ، وزیراعظم شہباز شریف کا آزاد کشمیر کی قیادت کو پیغام
  • Rich Dad -- Poor Dad
  • عورتیں جو جینا چاہتی تھیں
  • ریاست اپنی جگہ لیکن کسی کی زندگی سےکھیلناقابل قبول نہیں:عظمیٰ بخاری
  • میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘
  • ڈیتھ بیڈ
  • سوشل میڈیا کی ڈگڈگی