یہ اُس عہد کا ذکر ہے جب عورت تو کجا مرد کا تعلیم حاصل کرنا بھی معیوب تصور کیا جاتا تھا۔ اُس عہد کے ہندوستان میں سر سید احمد خان کے لیے بھی مسلمانوں کو تعلیم کی جانب متوجہ کرنے کی جدوجہد آسان نہ تھی۔

 سر سید احمد خان کی وفات کے سال یعنی 1898 میں لاہور کی 20  یا 22 سال کی اک شادی شدہ خاتون نے اپنی بڑی بہن کو خط لکھا کہ ’’میں نے عورتوں کے لیے ایک جریدہ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے، کیا تم اس حوالے سے میری مدد کرنے اور میرے لیے کچھ مضامین لکھنے پر تیار ہو؟‘‘

اُس کی بہن نے جوابی خط میں دو ٹوک الفاظ میں انکار کر دیا اور کہا کہ ’’تمہارے بہنوئی ناراض ہو جائیں گے، جب وہ مجھے لکھتا دیکھیں گے۔ میں بے بس ہوں کبھی ممکن ہوا تو ایک مضمون بھیجوں گی اور اُس پر دستخط کروں گی، میرے اردگرد بچوں کے شور اور گھر کے کام کاج کی وجہ سے مضمون لکھنے کے لیے توجہ جٹا پانا ممکن نہیں ہوگا‘‘۔

چھوٹی بہن کا نام محمدی بیگم تھا، جو غیر منقسم ہندوستان کی پہلی خاتون مدیرہ قرار دی جاتی ہیں، جنہوں نے اپنے شوہر سید ممتاز علی کے ساتھ مل کر ہفت روزہ رسالہ ’تہذیبِ نسواں‘ شروع کیا تھا۔

ایسا نہیں کہ اِس سے قبل خواتین کے لیے جرائد شائع نہیں ہو رہے تھے، ایسی پہلی کوشش سال 1884 میں کی گئی جب لکھنئو سے اُردو جریدہ ’رفیقِ نسواں‘ جاری کیا گیا، جس کے بعد اُسی برس سید احمد دہلوی نے دہلی سے ’اخبار النسا‘ شائع کیا۔

یہ وہ سید احمد دہلوی ہی ہیں جنہوں نے ’فرہنگِ آصفیہ‘ مرتب کی تھی، مگر یہ جریدہ بھی زیادہ کامیاب نہیں رہا اور اس کی محض 350 کاپیاں ہی فروخت ہوتی تھیں۔

اس کے کچھ عرصہ بعد ہی لاہور سے پیسہ اخبار کے بانی منشی محبوب عالم نے ’شریف بیبیاں‘ کے نام سے خواتین کے لیے اک رسالہ نکالا، مگر اِن تمام جرائد میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔ ظاہر ہے خریدار ہی نہیں تھے تو چھاپنے کا فائدہ بھی کیا تھا۔

ان حالات میں اک ایسا جریدہ نکالنا جو خواتین کے لیے ہو اور اُس کی ایڈیٹر بھی اک خاتون ہو، ایک ایسا خواب تھا جو کوئی دیوانہ ہی دیکھ سکتا تھا۔ یوں یکم جولائی 1898 کو لاہور سے ’تہذیبِ نسواں‘ نکلا، جس کی مدیرہ محمدی بیگم تھیں۔

یہ خواتین کا اولین ہفت روزہ جریدہ تھا اور یہ نصف صدی تک اپنی بقا قائم رکھنے میں کامیاب رہا، جس کی وجہ مدیرہ محمدی بیگم اور خاص طور پر اُن کے شوہر اور اس جریدے کے پبلشر سید ممتاز علی تھے، جو اپنے اس خواب کی تعبیر پانے کے لیے ہر جوکھم اُٹھانے کے لیے تیار تھے۔

آگے بڑھنے سے قبل سید ممتاز علی کے بارے میں کچھ بات ہو جائے، وہ مدرسہ دیوبند سے فارغ التحصیل تو تھے ہی بلکہ اُن کو شمس العلما کا خطاب بھی مل چکا تھا۔

وہ مگر روشن خیال فکر کے حامل تھے اور انہوں نے 19 ویں صدی کے ہندوستان میں مسلمان عورتوں کی سماجی صورتِ حال اور صنفی عدم توازن کو ختم کرنے کے لیے تمام تر تنقید کو نظرانداز کرتے ہوئے جدوجہد کی، جس کی ایک مثال اُن کی سال 1898 میں شائع ہونے والی کتاب ’حقوقِ نسواں‘ بھی ہے، جس میں انہوں نے کئی ایسے موضوعات پر بات کی تھی جن پر اُس وقت تو کیا، آج کے جدید عہد میں بھی بات کرنا آسان نہیں۔

انہوں نے یہ استدلال پیش کیا تھا کہ اسلام میں وراثت میں مرد کو عورت پر کوئی برتری حاصل نہیں اور یہ کہ دونوں ذہنی و جسمانی طور پر برابر ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایک مرد گواہ کے مقابلے میں دو خواتین کی گواہی کا کوئی منطقی جواز نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے جب اس کتاب کا اولین مسودہ سرسید احمد خان کو بھیجا تو انہوں نے طیش میں آکر یہ کتاب تلف کر دی تھی۔

بات ’تہذیبِ نسواں‘ کی ہو رہی تھی تو اس کی اشاعت محمدی بیگم کے لیے آسان نہیں تھی، کیوں کہ نئے جریدے کا مقصد صرف خواتین مصنفین کو ہی آگے لانا نہیں تھا، بلکہ اس کا مقصد خواتین کے حقوق کی جدوجہد بھی تھا۔ معاملے کی سنگینی کا اندازہ محمدی بیگم کو اُن کی بڑی بہن احمدی بیگم کی جانب سے لکھے گئے جوابی خط سے لگایا جا سکتا ہے۔

انگریزی کے مؤقر اخبار ‘ڈان‘ کے لیے محقق اور دانشور رئوف پاریکھ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’سید ممتاز علی ابتدا میں اخبار کی اعزازی کاپیاں ارسال کیا کرتے تھے، جو اکثر کھولے بغیر واپس آ جاتیں اور بسا اوقات ان کے ساتھ خطوط بھی ہوتے، جن میں انہیں اور اُن کی مدیرہ اہلیہ کو برا بھلا کہا گیا ہوتا‘‘۔

جریدے کی اشاعت کے تین ماہ بعد بھی اس کے خریداروں کی تعداد 60 سے 70 کے درمیان ہی رہی، مگر محمدی بیگم کو اُن کے شوہر کا ساتھ میسر رہا اور یوں وہ دونوں مسلمان خواتین کو تعلیم یافتہ بنانے کے خواب کو پانے کی جستجو میں مصروفِ عمل رہے، جس کے باعث سال 1903 تک اس جریدے کے خریداروں کی تعداد 400 سے تجاوز کر چکی تھی۔

محمدی بیگم خود بھی ایک تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ اُن کے والد سید محمد شفیع وزیر آباد ہائی سکول کے پرنسپل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ محمدی بیگم بچپن میں گھڑ سواری کے علاوہ کرکٹ بھی کھیلا کرتی تھیں۔

انہوں نے اپنے جریدے میں کثرتِ ازدواج سمیت جہیز جیسے موضوعات پر مضامین لکھے۔ اُن کا شمار ابتدائی مسلمان خواتین ناول نگاروں میں بھی کیا جاتا ہے، جن کی کتاب ’شریف بی بی‘ میں بھی ایسے ہی مسائل جیسا کہ بچپن کی شادیوں پر بات کی گئی ہے۔

بات محمدی بیگم کی ہو رہی ہو اور حِجاب امتیاز علی کا ذکر نہ ہو تو یہ ممکن ہی نہیں۔ وہ حِجاب امتیاز علی جِنہیں اُردو اَدب میں رومانی تحریک کی ملکہ قرار دیا جاتا ہے۔

شاہی ریاست حیدر آباد دَکن کے ایک جاگیردار خاندان میں پیدا ہونے والی حِجاب بچپن سے ہی کہانیاں پڑھنے اور لکھنے میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُن کی کہانیاں ’تہذیبِ نسواں‘ میں بھی شائع ہوئیں، مگر اُن کا محمدی بیگم سے ایک اور تعلق بھی تھا۔ وہ یوں کہ اُن کے شوہر امتیاز علی تاج سید ممتاز علی اور محمدی بیگم کے ہی صاحب زادے تھے، جو انار کلی اور شہزادہ سلیم کی المیہ داستانِ محبت اور چاچا چھکن جیسے کردار لکھ کر ہمیشہ کے لیے اَمر ہو گئے۔

یوں حجاب امتیاز علی سید ممتاز علی اور محمدی بیگم کی بہو تو تھیں ہی بلکہ اُنہوں نے اپنا جیون بھی اُنہی کے آدرشوں کے مطابق بیتایا۔ حجاب امتیاز علی کو مگر اپنی پہچان بنانے کے لیے اپنے شوہر سمیت اپنے ساس یا سسر کی ضرورت نہیں پڑی، بلکہ اُن کا پہلا ناول ’میری ناتمام محبت‘ ہی اُن کی غیر معمولی شُہرت کی وجہ بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب یہ ناول شائع ہوا تو اُس وقت اُن کی عمر محض بارہ برس تھی۔

حجاب امتیاز علی کے ادبی سفر پر تو بہت بات ہوتی ہے، مگر یہ ذکر شاذ ہی کیا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی پہلی مسلمان پائلٹ تھیں۔ حیران مت ہوئیے، دھیرج رکھیے، یہ حقیقت ہے۔ وہ 30 کی دہائی میں جب امتیاز علی تاج سے بیاہ کر لاہور آئیں تو انہوں نے لاہور کے فلائنگ کلب میں داخلہ لے لیا۔ یہ لاہور کی تاریخ کا ایک اہم اثاثہ تھا جو شہر کاری (اربنائزیشن) کی نذر ہو چکا ہے۔

سال 1936 میں اُن کو پائلٹ کا لائسنس مل گیا اور یوں وہ برطانوی راج کی پہلی خاتون پائلٹ بن گئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی برس سرلا ٹھکرال کو بھی لائسنس جاری ہوا تھا، جس کے باعث اکثر یہ غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے کہ سرلا ٹھکرال پہلی انڈین خاتون پائلٹ تھیں جس کی وجہ یہ تھی کہ ان دونوں کو قریباً ایک ہی وقت میں جہاز اُڑانے کا لائسنس ملا تھا، مگر کہا جاتا ہے کہ حجاب سرلا سے پہلے لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھیں۔

بات حجاب کی ایک ادیبہ کے طور پر ہو تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے ایسا ادب تخلیق کیا جس نے اُردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ محمد علی ہفت روزہ ’فرائیڈے ٹائمز‘ کے لیے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’میں نے جب پہلی بار یہ پڑھا کہ حجاب امتیاز علی اُردو رومانی ادب کی ملکہ ہیں تو سوچا کہ یہ جدید عہد کا رومان ہوگا، جو کسی حد تک درست بھی ہے اگر اُن کے ادبی فن پاروں ’میری ناتمام محبت‘ اور ’یہ بہاریں یہ خزائیں‘ کو پیش نظر رکھا جائے۔

میں نے مگر جب ’کالی حویلی‘ پڑھا تو مجھ پر ادراک ہوا کہ یہ وہ رومانوی ادب ہے جسے انگریزی کے بڑے ’آر‘ سے لکھا جائے گا، یعنی مغرب کی وہ ادبی تحریک جس نے فطرت کی جانب واپسی کی خواہش کو شاعری میں بھر پور انداز میں پیش کیا۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’ کالی حویلی‘ میں یہ تحریک ایک مشرقی فرد کے نقطۂ نظر اور مصنفہ کی اپنی زبان میں ظاہر ہوتی ہے۔ حجاب امتیاز علی درختوں، پھولوں، پرندوں اور آسمان کی تصویری تفصیلات پیش کرتی ہیں اور اپنے کرداروں کے جذبات کو قدرت کے ان عناصر کے ساتھ جوڑتی ہیں۔‘

 1965 کی پاک بھارت جنگ کے حوالے سے حجاب امتیاز علی کا روزنامچہ ’موم بتی کے سامنے‘ ہو یا اُن کا ناول ’پاگل خانہ‘، اُن دونوں میں ایک ایسی مصنفہ نظر آتی ہیں جو اپنے اردگرد کے مسائل سے غافل نہیں تھی۔ اُن کے ایک اور ناول ’اندھیرا خواب‘ میں اُن پر سگمنڈ فرائیڈ کی فکر کا اثر واضح دکھائی دیتا ہے۔

حجاب سماجی زندگی میں بھی متحرک رہیں۔ اُن کی صاحب زادی یاسمین طاہر کسی تعارف کی محتاج نہیں، جب کہ داماد نعیم طاہر پاکستانی فلم، تھیٹر اور ٹیلی ویژن کی دنیا کا ایک معتبر حوالہ ہیں۔ امریکی اداکار فاران طاہر اور علی طاہر اُن کے نواسے ہیں۔

محمدی بیگم کی زیست کے اوراق پلٹتے ہیں، انہوں نے سال 1905 میں ایک اور جریدہ ’مشیرِ مادر‘ جاری کیا، جو زیادہ عرصہ نہیں چل سکا اور یہ محمدی بیگم کی وفات کے بعد بند ہو گیا۔

محمدی بیگم خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے مختلف کوششیں کرتی رہیں، جیسا کہ انہوں نے لڑکیوں کے لیے ایک سکول بھی کھولا جب کہ ایک دلچسپ تجربہ خواتین کی دکان کھول کر کیا، جس کا سارا عملہ بھی خواتین پر ہی مشتمل تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اشرف علی تھانوی نے اپنی مشہور کتاب ’بہشتی زیور‘ کا عنوان محمدی بیگم کی ایک نظم سے متاثر ہو کر رکھا تھا۔

محمدی بیگم صرف 30 برس کی عمر میں سال 1908 میں چل بسیں، مگر ’تہذیبِ نسواں‘  تقسیم کے بعد سال 1949 تک جاری رہا۔

محمدی بیگم کی جدت پسند فکر کو حجاب امتیاز علی اور یاسمین طاہر نے آگے بڑھایا جن کے ذکر کے بغیر اُردو ادب کے علاوہ برصغیر میں حقوقِ نسواں کے لیے ہونے والی جدوجہد کی تاریخ نامکمل رہے گی۔

اقصیٰ ناصر علی

اقصیٰ ناصر علی صحافی اور کہانی کار ہیں۔ وہ شہرِ بے مثل لاہور کے مختلف ادبی جرائد و رسائل کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ ایک ایسی دنیا کے خواب دیکھتی ہیں جہاں کوئی صنفی امتیاز نہ روا رکھا جاتا ہو، کوئی بچہ بھوک سے نہ بلکتا ہو اور جہاں بارود کی بو نہیں بلکہ پھولوں کی مہک ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اقصیٰ ناصر علی

اقصیٰ ناصر علی صحافی اور کہانی کار ہیں۔ وہ شہرِ بے مثل لاہور کے مختلف ادبی جرائد و رسائل کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ ایک ایسی دنیا کے خواب دیکھتی ہیں جہاں کوئی صنفی امتیاز نہ روا رکھا جاتا ہو، کوئی بچہ بھوک سے نہ بلکتا ہو اور جہاں بارود کی بو نہیں بلکہ پھولوں کی مہک ہو۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: حجاب امتیاز علی محمدی بیگم کی سید ممتاز علی خواتین کے نے کے لیے انہوں نے ناصر علی کے لیے ا میں بھی ہے کہ ا ہیں کہ کی وجہ بلکہ ا ہو اور

پڑھیں:

عدالت نے خلع لینے والی خاتون کو بھی حق مہر کا حقدار قرار دے دیا 

لاہور ہائی کورٹ نے خلع لینے والی خواتین سے متعلق اہم نقطہ طے کرتے ہوئے خلع لینے والی خاتون کو بھی حق مہر کا حقدار قرار دے دیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس راحیل کامران شیخ نے شہری آصف محمود کی درخواست پر فیصلہ سنایا، عدالت نے 08 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا۔

درخواست گزار نے ساہیوال ڈسٹرکٹ عدالت کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا، درخواست گزار نے خلع کی بنیاد پر حق مہر اور جہیز کی رقم دینے کی ڈگری کو چیلنج کیا تھا۔

عدالت نے خلع لینے والی خاتون کوحق مہر کا حقدار قرار دیا اور کہا کہ  محض خلع لینے کی بنیاد پر خاتون کو حق مہر کی رقم سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

عدالت نے کہا کہ حق مہر کی رقم خاتون  کے لیے  سیکیورٹی تصور کی جاسکتی ہے، اگر خاوند کا رویہ خاتون کو خلع لینے پر مجبور کرے تو وہ حق مہر لینے کی مکمل حقدار ہے۔

عدالت  نے کہا کہ  بیٹی کو جہیز دینا ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکا ہے، والدین جتنی بھی استطاعت رکھتے ہوں وہ بیٹی کو جہیز لازمی دیتے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ بنیادی طور پر طلاق شوہر کا حق ہے اور طلاق کی صورت میں شوہر حق مہر، تحائف  واپس مانگنے کے حق سے محروم ہوجاتا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ طلاق دینے کی صورت میں سورۃ النساء میں بھی شوہر کو بیوی سے دیے گئے مال اور تحائف واپس مانگنے سے روکا گیا ہے۔

فیصلہ میں کہا گیا کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے تحت خاوند کے تشدد، برے رویے وغیرہ کی بنیاد پر لیے گئے خلع کے بعد عدالت حق مہر کی رقم واپس نہ کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • گجرات میں بھارتی فضائیہ کا ایک اور طیارہ کر تباہ
  • میری وائرل ہونے والی نازیبا ویڈیوز سابق بوائے فرینڈ نے پھیلائیں؛ ٹک ٹاکر سامعہ
  •  امت کا حوالہ حضور ؐکے ساتھ عظیم تعلق، رشتہ اور نسبت ہے،پیر نقیب الرحمن
  • عدالت نے خلع لینے والی خاتون کو بھی حق مہر کا حقدار قرار دے دیا 
  • ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ جات جیپ ریلی نادر مگسی نے جیت لی
  • پی آئی اے کی باکو کیلئے لاہور سے پہلی پرواز روانہ
  • ’ عمران خان 45دن میں رہا ہوسکتے ہیں، دو شرائط ہیں، پہلی شرط کہ بانی پی ٹی آئی خاموش رہیں اور دوسری ۔ ۔ ۔ ‘تہلکہ خیز دعویٰ سامنے آگیا
  • فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمہ داریاں
  • شوہر کے ظالمانہ طرزعمل پر خلع لینے والی خاتون کا حقِ مہر ساقط نہیں ہوتا، لاہور ہائیکورٹ
  • غیرمسلم فلسطینیوں کے حق میں احتجاج، مسلمان ممالک چھرا گھونپ رہے ہیں، ہرمیت سنگھ