غیر قانونی بچت بازاروں سے ٹریفک جام کے مسائل ہیں ، چیف سیکرٹری
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
کراچی ( اسٹاف رپورٹر) چیف سیکرٹری سندھ، آصف حیدر شاہ نے کراچی کے مسلسل ٹریفک مسائل کے حل کے لیے ایک اہم اجلاس کی صدارت کی۔ اس اجلاس میں کمشنر کراچی سید حسن نقوی، ڈی آئی جی ٹریفک احمد نواز چیمہ، ڈپٹی کمشنر ساتھ جاوید نبی اور دیگر سینئر حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں کراچی شہر کے ٹریفک مسائل کے اسباب اور ان کے حل کے لیے حکمت عملی پر تفصیل سے بات چیت کی گئی۔ اجلاس میں کمشنر کراچی سید حسن نقوی نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ شہر میں 145بچت بازار لگائے جاتے ہیں۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ غیر قانونی بچت بازاروں نے شہر کے مختلف علاقوں میں ٹریفک کی روانی کو متاثر کیا ہے۔ کمشنر کراچی نے یہ بھی بتایا کہ ٹائون انتظامیہ کے ملازمین اکثر ان بازاروں کے لیے غیر قانونی این او سی جاری کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ مسائل مزید بڑھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، انہوں نے یہ بھی آگاہ کیا کہ کراچی میں اس وقت 400 چارجڈ پارکنگ ایریاز ہیں، جن میں سے بیشتر اہم سڑکوں پر واقع ہیں، جو ٹریفک کی روانی کو شدید متاثر کر رہے ہیں۔ چیف سیکرٹری سندھ نے شہر میں چارجڈ پارکنگ ایریاز کی بے قابو اور بڑھتی ہوئی تعداد پر گہری تشویش کا اظہار کیا، جو عوامی راستوں میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ غیر قانونی پارکنگ ایریاز نہ صرف شہر کے منصوبہ بندی کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ یہ عوام کی آمدورفت میں بھی بڑی رکاوٹ ہیں۔ چیف سیکرٹری نے ان تجاوزات کے فوری خاتمے کے لیے متعلقہ حکام کو سخت کارروائی کی ہدایت کی اور کہا کہ تمام پارکنگ فیسز کو ضابطوں کے مطابق چلایا جائے اور انہیں سڑکوں سے دور منتقل کیا جائے تاکہ ٹریفک کی روانی برقرار رہ سکے۔ چیف سیکرٹری سندھ نے متعلقہ حکام کو شہر میں تمام قانونی اور غیر قانونی بچت بازاروں اور چارجڈ پارکنگ ایریاز کی مکمل تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ محکمہ بلدیات، کے ایم سی، ڈی ایم سیز، ٹائونز اور کنٹونمنٹ بورڈز تین دن کے اندر یہ تفصیلات جمع کرائیں۔ چیف سیکرٹری نے یہ بھی ہدایت دی کہ بچت بازاروں کے لیے این او سی جاری کرنے کا عمل ریگولیٹ کیا جائے تاکہ ٹریفک قوانین کی پیروی کی جا سکے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پارکنگ ایریاز چیف سیکرٹری بچت بازاروں انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
سندھ بلڈنگ ،غیر قانونی تعمیرات پر سندھ بلڈنگ کا پراسرار رویہ
ڈی جی اسحاق کھوڑو کی پر اسرار خاموشی برقرار، ’سب بلڈنگ پلان کے مطابق ہے‘ کا راگ جاری
آصف رضوی کی سرپرستی میں منہدم کی جانے والی کمزور عمارتوں پر بالائی منزلوں کی تعمیرات شروع
ماشاء اللہ بلڈنگ پلاٹ نمبر ۵۵ مسلم ٹاؤن دادا بھائی ٹاؤن میں غیر قانوی تعمیر،علاقہ مکینوں کا احتجاج
ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی محمد اسحاق کھوڑو نے شہریوں کی جانب سے غیر قانونی تعمیرات کے خلاف دی جانے والی شکایات کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے پر اسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔ ڈی جی عدلیہ اور سول سوسائٹی کے سامنے’ سب کچھ بلڈنگ قوانین کے عین مطابق چل رہا ہے‘ کا راگ الاپتے دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ حالات اسکے بالکل برعکس ہیں ۔ضلع شرقی پر قابض بدعنوان ڈائریکٹر آصف رضوی نے ذاتی مفادات کی خاطر عدالتی احکامات مکمل طور پر نظر انداز کر کے کمزور بنیادوں کی پرانی عمارتوں پر بالائی منزلوں کی تعمیرات شروع کروا رکھی ہیں۔ شہریوں کی جانب سے کی جانے والی شکایات کے باوجود بھی جاری غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی۔ جس کا بآسانی اندازا اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پی ای سی ایچ ایس پلاٹ نمبر 55 ماشائاللہ بلڈنگ مسلم ٹاؤن دادا بھائی ٹاؤن پی ایف چیپٹر اسکول کے نزدیک گزشتہ دنوں ایک پرانی مخدوش عمارت پر تیسری منزل کی تعمیر ہے۔ غیر قانونی تعمیرات کے ذمہ دارعلی رضا نامی شخص انتہائی ڈھٹائی سے تحقیقاتی اداروں کا نام استعمال کر رہے ہیں، جس پر علاقہ مکینوں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے غیر قانونی تعمیرات کے خلاف سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں درخواست بھی دائر کی تھی جس پر کارروائی کرتے ہوئے مذکورہ پلاٹ پر نمائشی انہدامی کارروائی کی گئی۔ بعد ازاں اس کی ازسرنو تعمیر مکمل کروادی گئی۔اور اب اسی کمزور بنیادوں کی پرانی عمارت پر چوتھی منزل کی تعمیر کا بیٹر علی رضا کی نگرانی میں آغاز کردیا گیا ہے۔ تعمیرات کے قانونی نگران ادارے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے بدعنوان افسران ہی جب غیر قانونی تعمیرات کی سرپرستی میں ملوث ہیں تو پھر غیر قانونی عمارتوں کے خلاف کارروائی کون کرے گا۔ سروے پر موجود نمائندہ جرأت سے بات کرتے ہوئے علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ ہم وزیر بلدیات ڈی جی نیب اور دیگر تحقیقاتی اداروں سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ مخدوش عمارتوں پر بالائی منزلوں کی خطرناک تعمیرات کو روکنے کے لئے فوری اقدامات کرکے قیمتی انسانی جانوں کو بھاری نقصان سے بچایا جائے اور ملوث افراد کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لائی جائے۔