Express News:
2025-04-23@05:22:38 GMT

خلائی سولر اسٹیشن!

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

چین نے سائنس کی دنیا میں ایک محیر العقول کارنامہ سرانجام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ خلا میں ایک سولر پاور اسٹیشن بنانے کا اعلان ۔ اس سنگ میل کو چین کا Manhattan Project بھی کہا جا رہا ہے ۔ اس نام کا پروجیکٹ امریکا نے حد درجہ خفیہ طریقے سے ایٹم بم بنانے کے لیے استعمال کیا تھا۔چین کے حالیہ اعلان کردہ منصوبے کی جزئیات پیش کرتا ہوں ۔ جس سے آپ کو یہ اندازہ ہو گا کہ ترقی یافتہ ملک کس جانب روانہ ہیں اور ان کی ترجیحات کیا ہیں ۔

زمین سے 36ہزار کلومیٹر اوپر خلا میں ایک سولراسٹیشن قائم کیا جا رہا ہے جس کی لمبائی ایک کلومیٹر ہو گی ۔ یہ سورج کی توانائی کو اپنے اندر محفوظ کرے گا۔ اس کے بعد اسے چین کے ایک ٹرانس میٹر سے منسلک کر دے گا ۔ اس سولر اسٹیشن کی خوبی یہ بھی ہے کہ یہ 24گھنٹے کام کرے گا ۔

دن اور رات میں اس کی کارکردگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ اسٹیشن صرف چین کو اتنی توانائی مہیا کرے گا جو پوری دنیا میں پٹرول اور ڈیزل کے ذریعے ایک سال میں پیدا کی جاتی ہے۔ ذرا سوچیئے کہ اگر توانائی کا اتنا بھرپور ذریعہ موجود ہو تو پھر آبی ڈیم اور بجلی پیدا کرنے کے دوسرے ذرایع کس قدر غیر اہم ہو جائیں گے۔ جو بجلی ‘ سپیس اسٹیشن میں موجود ہو گی اسے مائکروویوز میں تبدیل کیا جائے گا اور پھر اسے زمین پر منتقل کرنا حد درجہ آسان ہو جائے گا۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ اسٹیشن ایک سو بلین کے وی ایچ پیدا کرے گا ۔

چین کے سائنسدانوں نے اس سولر اسٹیشن کو خلا کا Three Gorges Dam قرار دیا ہے ۔ یہ آبی ڈیم چین نے 2008میں بنایا تھا ۔ اس کی لاگت 35بلین ڈالر آئی تھی اور یہ Yangtze دریا پر واقع ہے۔ اس آبی ڈیم کی بجلی پیدا کرنے کی قوت 95 Twhسالانہ ہے ۔اور یہ دنیا کا سب سے بڑا ڈیم شمار کیا جاتا ہے ۔ ذرا اندازہ فرمائیے کہ خلائی اسٹیشن اس عظیم آبی ڈیم سے بھی بڑھ کر بجلی پیدا کرے گا ۔ چینی سائنسدانوں نے اس عظیم کارنامے کو خود سرانجام دیا ہے ۔ خلائی اسٹیشن کے تمام پرزے چین میں تیار کیے گئے ہیں ۔ انھیں راکٹس کی مدد سے خلا میں بھیجا جائے گا ۔

جہاں سائنسدان اور خلائی ہوا باز اس کو ایک اسٹیشن میں تبدیل کر دیں گے۔ انسانی تاریخ میں یہ ایک سنگ میل ہو گا کیونکہ اتنا اچھوتا کارنامہ کسی بھی ملک نے اب تک سرانجام نہیں دیا ۔ چینی قیادت اور سائنسدانوں کا کمال دیکھیے کہ انھوں نے تمام جزئیات ترتیب دینے کے بعد اس کا اعلان کیا ہے۔ اس منصوبے سے پوری دنیا میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ امریکا ‘جسے ناز ہے کہ وہ ایک سپر پاور ہے سائنس اور تحقیق کی دنیا میں کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ اس کی انتظامیہ اور خلائی سائنسدانوں نے انگلیاں چبا لی ہیں کیونکہ وہ یہ کام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ میں تو یہ بھی عرض کروں گا کہ چین اس خلائی اسٹیشن کے بعد دنیا میںترقی کی دوڑ میں سب سے آگے موجود ہو گا۔ چینی حکام وہ کام کر رہے ہیں جو انسانی سوچ سے بھی باہر ہے۔

ہمارے ملک میں کسی نے بھی ایک کلومیٹر لمبے اس خلائی سولر اسٹیشن کی طرف غور نہیں کیا ۔ اتنے بڑے کارنامے پر کسی چینل نے کوئی پروگرام نشر نہیں فرمایا۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ وہ محیر العقول کارنامہ جو ہمارے چینی دوستوں کے سر کا تاج بن جائے گا ۔ اس پر ہمارے حکمران طبقے اور اداروں نے معمولی توجہ تک نہیں دی۔ دراصل ہماری ترجیحات ‘ ترقی یافتہ ممالک سے بالکل برعکس ہیں ۔ ہمارا حکمران طبقہ حد درجے عیاری سے ملک چلاتا رہا ہے اور پاکستان کو ترقی دینا یا اسے آگے بڑھانا ان کی ذہنی سوچ سے متضاد ہے ۔

غور فرمائیے کہ ہم اپنے حد درجہ زٹیل میڈیا پر کیا دیکھتے ہیں یا ہمیں کیا دکھایا جاتا ہے یا ہمیں کس طرح کی عمومی سوچ کا مالک بنا دیا گیا ہے؟ حضور ہمارا میڈیا خبریں نہیں چھاپتا یا بتاتا بلکہ ایک بدمست دیو کی طرح بدنظمی سے چنگھاڑتا ہے ۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا ایک ہی حال ہے ۔ گزشتہ دس سال کی اہم ترین خبریں نکالیے جو بدقسمت عوام کو دیکھنی پڑی ہیں۔ کبھی وزیراعظم کو خط نا لکھنے کی پاداش میں سزا سنائی جاتی ہے ۔

اس کے سیاسی مخالف بغلیں بجاتے ہوئے خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں ۔ کبھی عدلیہ کے قلم سے پاناما لیکس کی ایسی سزا سنائی جاتی ہے جو مکمل طور پر بے جواز نظر آتی ہے ۔ بدقسمتی سے میں نے وزیراعظم کو پاناما لیکس میں برطرف ہونے کی خبر ٹی وی پر خود سنی تھی ۔ چند مخصوص رپورٹر ‘ دیوانوں کی طرح گلا پھاڑ پھاڑ کر اعلان کر رہے تھے کہ وزیراعظم کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ جذباتیت اور غیر متوازن رویہ ہمیں برباد کر چکا ہے ۔ ہمارے کچلے ہوئے معاشرے میں دلیل پر بات کرنی مکمل طور پر حماقت ہے۔ آج بھی یہی حال ہے ۔

کچھ عرصہ پہلے سنگاپور سے میرے ایک دوست لاہور آئے ۔ اخبار پڑھا اور کمرے سے باہر نکلنے سے انکار کر دیا۔ مقررہ وقت پر ملنے کے لیے گیا تو واپسی کا ٹکٹ کروانے میں مصروف تھے۔ حیران رہ گیا کیونکہ وہ تو صرف ایک دن پہلے لاہور آئے تھے ۔ اگلے ایک ہفتہ ان کی انتہائی کاروباری مصروفیات تھیں۔ وجہ پوچھی تو انھوں نے ایک انگریزی اخبار میرے سامنے رکھ دیا ۔ اس کی شاہ سرخیاں کچھ اس طرح کی تھیں۔ آج احتساب کے ادارے نے حد درجہ اہم لوگوں کو گرفتار کر لیا ۔ ساتھ ہی یہ کہ آج دہشت گردوں نے پچیس سے تیس لوگوں کو بس سے اتار کر قتل کر دیا ۔

ان کے شناختی کارڈ پہلے چیک کیئے ۔ جب ان کا تعلق ایک مخصوص صوبے سے نکلا تو سڑک کے کنارے بے دردی سے انھیں ذبح کر دیا گیا ۔ اسی اخبار کے بیک پیج پر درج تھا کہ ایک بیٹے نے جائیداد کے لالچ میں اپنے ماں باپ کو گولیوں سے بھون دیا ۔ صرف ایک دن کا اخبار پڑھ کر ‘ میرا سنگا پور کا دوست اعصابی طور پر شل ہو کر رہ گیا ۔ اس نے وہیں فیصلہ کیا کہ اس ملک میں کسی صورت ہوٹل سے باہر نہیں نکلے گااور اگلے ہی دن واپس روانہ ہو جائے گا۔

لاکھ کوشش کی اپنے اس کاروباری دوست کو بتا سکوں کہ یہ تو معمول کی خبریں ہیں ۔ ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جن کی زندگیوں میں بھیانک خبریں معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ترقی اور خوشی کی خبریں ملنا تقریباً معدوم ہیں۔ دوست نے سوال کیا کہ آپ اس ملک میں اور اتنے خطرناک ماحول میں سانس کیسے لے رہے ہیں ۔

جواب تھا کہ اس پر خطر ماحول کا عادی ہو چکا ہوں اور مجھے اب کسی قسم کی‘ کسی طرف سے خطرے کی بو تک محسوس نہیں ہوتی ۔ سنگا پور سے آیا ہوا رفیق ششدر رہ گیا ۔ کہنے لگا کہ یا تو پاکستان کے تمام لوگ اعصابی طور پر ختم ہو چکے ہیں یا انھوں نے کبھی ترقی یافتہ ملک دیکھا ہی نہیں ہے۔ انھیں ادراک ہی نہیں ہے کہ امن اور ترقی یافتہ خطے کیسے ہوتے ہیں ۔ لاکھ روکنے کی کوشش کی مگر وہ تمام میٹنگز ختم کر کے اگلے ہی دن واپس چلا گیا ۔

 اردگرد کے ماحول پر غور کیجیے ۔ جواب دیجیے کہ کیا ہم واقعی انسانی سطح پر زندہ ہیں یا حیوانوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں ۔ آپ کو جواب خود بخود مل جائے گا۔ چند دن اسلام آباد میں گزار کر آیا ہوں ۔ اسی نوعیت کی افواہیں جو آ ج سے تیس چالیس سال پہلے اس سازشی شہر میں گردش کر رہی تھیں وہی نام بدل کر بالکل اسی طرح بیان کی جا رہی تھیں جیسے وقت رک چکا ہے ۔ حکومت بس جانے والی ہے ؟ نئے وزیراعظم کا انتخاب بس ہو ہی چکا ہے ؟ نئے وزراء کے نام بھی تقریباً فائنل ہو چکے ہیں؟ ہاں فلاں مشیر کے بھائی نے ‘ ایک ٹھیکے میں اتنے کروڑ روپے وصول کیے ہیں ؟ اس طرح کی بدنما افواہیں یا خبریں تواتر سے اسلام آباد کی فضا میں ارتعاش پھیلا رہی تھیں۔اس سے آگے کیا بات کروں ۔ جن لوگوں کو میں کردار کی بلند مسند پر فائز کرتا تھا وہ بھی کسی نہ کسی ادارے یا بڑی کاروباری شخصیت کے طفیلی نظر آتے ہیں۔

موجودہ حکومت صرف اشتہارات کی بنیاد پر اسی طرح کے کارنامے سرانجام دے رہی ہے۔ جو ان کا سابقہ وطیرہ ہے۔اڑان نامی پروگرام میں اعلان کیا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت چند برس بعد ایک ٹریلین ڈالر کی ہو جائے گی۔ حضور عرض ہے ہندوستان کی صرف ایک ریاست مہاراشٹرا ‘ پانچ سو بلین ڈالر کی معیشت رکھتی ہے اور صرف دو تین سال میں صرف ایک صوبہ ایک ٹریلین ڈالر سے اوپر نکل جائے گا۔ پر کیا بات کرنی ۔ بادشاہ جو کہتا ہے وہ سچ ہے۔ چینی حکام تو بے وقوف ہیں کہ خلا کو مسخر کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں ۔ انھیں صرف اشتہارات دے کر اپنی ترقی کا اعلان کرنا چاہیے۔ یہ فن انھیں ہمارے حکمرانوں سے ٹیوشن کے ذریعے ضرور سیکھنا چاہیے!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سولر اسٹیشن ترقی یافتہ دنیا میں صرف ایک جائے گا رہے ہیں آبی ڈیم کرے گا کر دیا

پڑھیں:

فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری

غزہ کی صورتحال، فلسطین کی صورتحال، دن بدن نہیں لمحہ بہ لمحہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتی جا رہی ہے اور اسرائیل تمام اخلاقیات، تمام قوانین، تمام معاہدات کو پامال کرتے ہوئے اس درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اس پر دنیا کی خاموشی بالخصوص عالمِ اسلام کے حکمرانوں پر سکوتِ مرگ طاری ہے۔ مجھے تو بغداد کی تباہی کا منظر نگاہوں کے سامنے آ گیا ہے، جب تاتاریوں کے ہاتھوں خلافتِ عباسیہ کا خاتمہ ہوا تھا، بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی، اور اس وقت بھی کم و بیش یہی صورتحال تھی، آج پھر ’’بغداد‘‘ کی تباہی کا منظر ہمارے سامنے ہے، اسرائیل اور اس کے پشت پناہ، آج وہ چادر جو انہوں نے اوڑھ رکھی تھی، مغرب نے، امریکہ نے، یورپی یونین نے، عالمی طاقتوں نے، انسانی حقوق کی، بین الاقوامی معاہدات کی، انسانی اخلاقیات کی، وہ آج سب کی چادر اسرائیلی درندگی کے ہاتھوں تار تار ہو چکی ہے۔لیکن اس سے زیادہ صورتحال پریشان کن، اضطراب انگیز یہ ہے کہ مسلم حکمران بھی اسی مصلحت کا، مصلحت نہیں بے غیرتی کا شکار ہو گئے ہیں۔ آج او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کو، عرب لیگ کو، مسلم حکمرانوں کو، جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ اس کے لیے مل بیٹھ کر سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اور امتِ مسلمہ، عالمِ اسلام سناٹے کے عالم میں اپنے حکمرانوں کو دیکھ رہی ہے کہ یہ ہمارے ہی حکمران ہیں، کون ہیں یہ؟لے دے کے دینی حلقوں کی طرف سے دنیا بھر میں کچھ نہ کچھ آواز اٹھ رہی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ملتِ اسلامیہ بحیثیت ملتِ اسلامیہ اپنے حکمرانوں کے ساتھ نہیں، اپنی دینی قیادتوں کے ساتھ ہے جو کسی نہ کسی انداز میں اپنی آواز بلند کر رہے ہیں، اس آواز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔میں اس موقع پر دنیا بھر کے دینی حلقوں سے، علماء کرام سے، یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ آج کی صورتحال کو سمجھنے کے لیے تاتاریوں کی یلغار اور بغداد کی تباہی کا ایک دفعہ پھر مطالعہ کر لیں، کیا ہوا تھا؟ کس نے کیا کیا تھا؟ اور کون سے حلقے تھے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کی تباہی کی راہ ہموار کی تھی اور کون سے لوگ تھے جنہوں نے اس وقت ملتِ اسلامیہ کو سہارا دیا تھا؟ مجھے اس وقت کی دو بڑی شخصیتیں ذہن میں آ رہی ہیں (۱) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ اور (۲) شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلام رحمہ اللہ تعالیٰ، دینی قیادت تھی، سامنے آئے تھے، امت کو سنبھالا تھا، مقابلہ کر سکے یا نہ کر سکے، امت کو سنبھالنا، امت کا حوصلہ قائم رکھنا، اور اپنے مشن کے تسلسل کو قائم رکھنا، یہ تو بہرحال بہرحال دینی قیادتوں کی ذمہ داری ہے، علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ حمیت کو باقی رکھیں، غیرت کو باقی رکھیں۔تو میری پہلی درخواست تو علماء کرام سے ہے، کسی بھی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی فقہی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، کہ آج شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلامؒ کے کردار کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ویسے تو فقہاء نے لکھا ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمان مظلوم ہوں، ذبح ہو رہے ہوں، تو دنیا بھر کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے، ہماری فقہی صورتحال تو یہ ہے، درجہ بدرجہ ’’   علی الاقرب فالاقرب‘‘  ،   ’’الاول فالاول‘‘۔ لیکن بہرحال مجموعی طور پر ہم امتِ مسلمہ پر جہاد کی فرضیت کا اصول اس وقت لاگو نہیں ہو گا تو کب لاگو ہو گا۔
لیکن بہرحال ہمیں اپنے اپنے دائرے میں امتِ مسلمہ کا حوصلہ قائم رکھنے کے لیے، بیدار رکھنے کے لیے، فکری تیاری کے لیے۔اور دو تین محاذ ہمارے ہیں: ایک تو یہ ہے کہ علماء کرام ہر علاقے میں ہر طبقے میں ہر دائرے میں اپنے کردار کو اپنے حوصلے کو قائم رکھتے ہوئے امت کا حوصلہ قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج ایک محاذ میڈیا وار کا بھی ہے، لابنگ کا بھی ہے، اس میں جو لوگ صلاحیت رکھتے ہیں ان کو کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور تیسرا محاذ بائیکاٹ کا ہے، اب تو یہ مرحلہ آ گیا ہے، اسرائیل نہیں، اس کے سرپرستوں کے معاشی بائیکاٹ کی بھی ضرورت پیش آ رہی ہے، اور یہ معاشی بائیکاٹ کوئی نئی چیز نہیں ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں معاشی بائیکاٹ حضورؐ کا بھی ہوا ہے، حضورؐ نے بھی کیا ہے۔ شعبِ ابی طالب میں حضورؐ کا ہوا تھا، غزوہ خندق میں حضورؐ نے کیا تھا۔ اور اس کی مختلف مثالیں موجود ہیں۔تو لابنگ کی جنگ، میڈیا کی جنگ، حوصلہ قائم رکھنے کی جنگ، اور معاشی بائیکاٹ، اس میں جس قدر ہم زیادہ توجہ دے سکیں۔ کوئی لکھ سکتا ہے تو لکھے، بول سکتا ہے تو بولے، خرچ کر سکتا ہے تو خرچ کرے، کوئی لوگوں کے ساتھ رابطے کر سکتا ہے تو رابطے کرے۔ جو بھی کسی میں صلاحیت ہے، آج یہ وقت ہے، جو بھی کسی کے پاس موقع ہے، توفیق ہے، صلاحیت ہے، وہ اس کو اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے، فلسطین کی آزادی کے لیے، اسرائیلی درندگی کی مذمت کے لیے، اس میں رکاوٹ کے لیے، مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی آزادی کے لیے، جو بھی کر سکتا ہے وہ کرے۔ہمارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ ایک مثال دیا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو ایک چڑیا چونچ میں پانی ڈالتی تھی، ایک پرندہ تھا، اس سے کسی نے پوچھا، تیرے پانی ڈالنے سے کیا ہو گا؟ اس نے کہا، ہو گا یا نہیں ہو گا، میری جتنی چونچ ہے اتنا پانی تو میں ڈالوں گی۔ یہ کم از کم کہ جو ہم کر سکتے ہیں وہ تو کریں، میں دیانت داری کے ساتھ (کہوں گا) کہ مجھے، سب کو اپنے اپنے ماحول کو دیکھنا چاہیے، اپنی اپنی توفیقات کو دیکھنا چاہیے اور جو کر سکتے ہیں اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے مظلوم فلسطینی بھائیوں پر رحم فرمائے، ہم پر رحم فرمائے۔ مولا کریم! فلسطین کی آزادی، غزہ کے مسلمانوں کی اسرائیلی درندگی سے گلوخلاصی، اور اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی بدمعاشی سے نجات دلانے کے لیے اللہ پاک ہمیں توفیق عطا فرمائیں اور خود مہربانی فرمائیں، فضل فرمائیں کہ اس مرحلے پر عالمِ اسلام کی، امتِ مسلمہ کی دستگیری فرمائیں، ان کو اس عذاب سے نجات دلائیں۔

متعلقہ مضامین

  • کوہ قاف میں چند روز
  • غزہ کے بچوں کے نام
  • تین سنہرے اصول
  • ریلوے ٹریک بحال ہونے کے 9 ماہ بعد سبی سے ہرنائی پہلی ٹرین کی کامیاب آزمائش
  • تھوڑی توانائی، بڑے امکانات، رات کے وقت بجلی بنانے والے سولر پینلز
  • سولر صارفین کے لیے بری خبر، سمارٹ اے ایم آئی میٹرز کی پرائیویٹ پرچیز پر پابندی عائد
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • بجلی
  • سولر پینلز کو ژالہ باری میں کیسے محفوظ رکھا جائے؟ طریقے جانیں
  • خریداروں کیلئے خوشخبری ، سولرسسٹم، بیٹریاں اور یو پی ایس سستے ہوگئے