یونان کشتی حادثات: وزیر اعظم کا سخت نوٹس، 65 ایف آئی اے افسران بلیک لسٹ، انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائی کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف نے یونان کشی حادثے کا نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی کے ملوث افسران کو بلیک لسٹ کرتے ہوئے انسانی اسمگلروں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ہے۔
یونان کشتی حادثوں کی تحقیقات کے لیے وزیر اعظم ہاؤس کی قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ پر ایف آئی کے 65 افسران و ملازمین بلیک لسٹ قرار دے دیے گئے ہیں، بلیک لسٹڈ افسران و ملازمین پر امیگریشن اور انسداد انسانی سمگلنگ ونگز میں تعیناتی پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یونان کشتی حادثہ: اپنے جگر گوشوں کو کھونے والے کیا بتاتے ہیں؟
وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے بلیک لسٹ کیے گئے ایف آئی اے افسران و ملازمین کے خلاف ٹھوس شواہد اکٹھے کرنے کے عمل کو حتمی شکل دیں گے تاکہ موثر فوجداری کارروائی کی جاسکے۔
14 جون 2023 میں پیش آنے والے یونان کشتی حادثے کی انکوائری رپورٹ وزیر اعظم افس کی طرف بنائی گئی کمیٹی نے جاری کر دی ہے، رپورٹ میں ایف آئی اے کے 65 افسران کے خلاف کارروائی کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
بلیک لسٹ ڈپٹی ڈائریکٹرز میں عمران رانجھا،زاہد محموداور مبشر احمد ترمذی شامل جبکہ 2 اسسٹنٹ ڈائریکٹرز میں ابو بکر عثمان اور عرفان بابر کا نام ہے۔ بلیک لسٹڈ 4 ایف آئی اے انسپکٹرز میں دو خواتین شائستہ امداد اور نازش سحر سمیت عرفان احمد میمن اور ابراہیم خان شامل ہیں۔ 15 سب انسپکٹرز میں بھی 4 خواتین نادیہ پروین،صبا جعفری،شگفتہ اکبر اور ثمینہ صدیق شامل 11 سب انسپکٹرز میں ساجد اسماعیل،عمران ورک،محمود بٹ سلیمان لیاقت اور 13 اسسٹنٹ سب انسپکٹرز میں فیصل عمران،محمد صغیر،سید اسد علی کے نام ہیں۔ 19ہیڈ کانسٹیبلز میں مشتاق خٹک،عاطف شوکت،عرفان جاوید،علی شہریار،راجہ سنیل،عامر علی،یوسف علی،عدنان یونس شامل ہیں۔ 10 کانسٹیبلز میں محمد اقبال، رب نواز،بشری بی بی،مقصود احمد فیصل مشتاق بھی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: یونان کشتی حادثہ کیوں پیش آیا، وجہ سامنے آگئی
اس کے علاوہ ایف آئی اے کا ایک ایک افسر سعودی عرب کے علاوہ مختلف ممالک کے پاکستان میں موجود سفارتخانوں میں ضرورت کے مطابق تعینات کیا جائے گا، ایف آئی اے کو ایک ہفتے کے اندر گریڈ 20 اور 21 کے افسران فراہم کیے جائیں گے۔
اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے مکمل باہمی قانونی معاونت کیسز تیار کریں گے اور وزارت امور خارجہ کے ساتھ مؤثر فالو اپ کو یقینی بنائیں گے۔
سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایئرپورٹس پر مسافروں کی اسکریننگ کا ایک مؤثر نظام نافذ کرنے کے لیے تجاویز تیار کریں، جس میں ای گیٹس کی تنصیب اور انسانی اسمگلنگ سے نمٹنے کے لیے مختلف پیرامیٹرز اور چیک فلٹرز سمیت جدید ٹیکنالوجی کے دیگر ذرائع شامل ہوں، وزیر اطلاعات و نشریات اگلی میٹنگ میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے داخلہ کی طرف سے اٹھائے گئے بڑے بیداری مہم اور اقدامات کے بارے میں پریزنٹیشن دیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: یونان کشتی حادثہ: مستقبل میں ایسے واقعات کے تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں
ڈی جی ایف آئی اے غیر قانونی تارکین کے بین الاقوامی مراکز کی نشاندہی کریں گے اور ان کے منصوبوں پر نظررکھیں گے۔
اجلاس میں مزید فیصلہ کیا گیا ہے کہ وزیر قانون و انصاف، سیکریٹری قانون و انصاف، سیکریٹری داخلہ ڈویژن ، سیکریٹری خارجہ، ڈی جی انٹیگریٹڈ میری ٹائم پورٹیبل ایکوسٹک اسکورنگ اور سمولیشن(آئی ایم پی اے ایس ایس) اور کسی دوسرے شریک منتخب ممبر پر مشتمل کمیٹی موجودہ پاسپورٹ رولز 2021 کا جائزہ لے گی اور ان پاکستانی شہریوں کو پاسپورٹ جاری کرنے پر پابندی لگانے کے لیے ترامیم تجویز کرے گی جو میزبان ممالک میں سیاسی پناہ کے متلاشی ہیں۔
سیکریٹری امور خارجہ لیبیا، روس یا کسی دوسرے ملک میں پھنسے ہوئے پاکستانی شہریوں کو واپس لانے کا منصوبہ تیار کریں گے،ڈی جی آئی بی اگلی میٹنگ میں ایف آئی اے کی جانب سے شروع کیے گئے کریک ڈاؤن کی افادیت کے ساتھ ساتھ گرفتار کیے گئے مجرموں (کیٹیگری وار) اور ایف آئی اے کے ملوث اہلکاروں کی تفصیلات کے ساتھ پریزنٹیشن دیں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے تمام اقدامات کو 2 ہفتوں میں مکمل کرنے کا حکم دیا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news انسانی اسمگلنگ ایف آئی اے پاکستان کارروائی۔ کشتی حادثہ وزارت خارجہ وزارت داخلہ وزیراعظم شہباز شریف یونان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انسانی اسمگلنگ ایف ا ئی اے پاکستان کارروائی کشتی حادثہ وزارت داخلہ وزیراعظم شہباز شریف یونان وزیراعظم شہباز شریف انسانی اسمگلنگ انسپکٹرز میں یونان کشتی کشتی حادثہ ایف آئی اے بلیک لسٹ ایف ا ئی کے خلاف یہ بھی کے لیے
پڑھیں:
بی جے پی عدلیہ کی توہین کرنے والے اپنے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی، جے رام رمیش
کانگریس لیڈر نے کہا کہ یہ ممبران پارلیمنٹ ہمیشہ ہی نفرت انگیز تقریر کرتے رہتے اور سبک دوش ہونے والے بی جے پی صدر کی صفائی ڈیمج کنٹرول کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ انڈین کانگریس کمیٹی نے بی جے پی کے ذریعے خود کو سپریم کورٹ کے حوالے سے اپنے اراکین پارلیمنٹ نشی کانت دوبے اور دنیش شرما کے بیانات سے الگ کرنے کو نقصان کی تلافی قرار دیا اور بی جے پی پر زور دیا کہ اسے کم از کم ان دونوں کو پارٹی سے نکال دینا چاہیئے۔ کانگریس نے یہ بھی پوچھا کہ دونوں بی جے پی لیڈران کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور انہیں وجہ بتاؤ نوٹس کیوں جاری نہیں کیا گیا۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری انچارج کمیونیکیشنز جے رام رمیش نے کہا کہ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) پر دو ممبران پارلیمنٹ کے تبصروں سے پارٹی کے جلد سبکدوش ہونے والے صدر کا خود کو اور پارٹی کو الگ کر لینے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ ممبران پارلیمنٹ ہمیشہ ہی نفرت انگیز تقریر کرتے رہتے اور سبک دوش ہونے والے بی جے پی صدر کی صفائی ڈیمج کنٹرول کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کسی کو بے وقوف نہیں بنا سکتے ہیں، یہ بس ان کی منافقت کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا وزیراعظم مودی کی خاموشی کو ان کی حمایت سمجھا جائے۔ جے رام رمیش نے مودی سے بھی اس معاملے پر جواب مانگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہندوستانی آئین پر بار بار ہونے والے ان حملوں پر وزیر اعظم کی مسلسل خاموشی ان کی حمایت کا عکاسی نہیں کرتی ہے تو ان دونوں ممبران پارلیمنٹ کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔
واضح رہے کہ بی جے پی نے ہفتہ کے روز سپریم کورٹ پر دوبے اور شرما کی تنقید سے خود کو الگ کر لیا اور پارٹی کے صدر جے پی نڈا نے ان تبصروں کو ان دونوں کے ذاتی خیالات قرار دیا۔ انہوں نے حکمران جماعت کی طرف سے عدلیہ کے احترام کو جمہوریت کا ایک لازمی حصہ قرار دیا۔ نڈا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ بی جے پی کا عدلیہ اور چیف جسٹس پر ممبران پارلیمنٹ نشی کانت دوبے اور دنیش شرما کے تبصروں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کے ذاتی تبصرے ہیں لیکن بی جے پی نہ تو ان سے اتفاق کرتی ہے اور نہ ہی کبھی اس طرح کے تبصروں کی حمایت کرتی ہے، بی جے پی انہیں قطعی طور پر مسترد کرتی ہے۔