چیف سیکریٹری نے کراچی کے تمام بچت بازاروں، چارجڈ پارکنگ کی تفصیل طلب کرلی
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
اجلاس میں چیف سیکریٹری سندھ نے کہا کہ بچت بازاروں کے اطراف ٹریفک جام رہتا ہے، روڈ پر قائم تمام غیر قانونی پارکنگ کو ہٹایا جائے اور شہر میں بے قاعدہ بنے یو ٹرنز ختم کرکے ٹریفک انجینئرنگ سے یوٹرن بنائے جائیں۔ اسلام ٹائمز۔ چیف سیکریٹری سندھ آصف حیدر شاہ نے کراچی میں قائم تمام بچت بازاروں اور چارجڈ پارکنگ کی تفصیلات طلب کرلیں۔ کراچی میں ٹریفک کی صورتحال پر منعقدہ اجلاس میں کمشنر کراچی، ڈی آئی جی ٹریفک اور ڈپٹی کمشنر ساؤتھ سمیت دیگر نے شرکت کی۔ انہوں نے شہر میں ٹریفک میں رکاوٹ پیدا کرنے والی چارجڈ پارکنگ کی بڑھتی ہوئی تعداد کا بھی نوٹس لے لیا اور ہدایت کی کہ ٹریفک پولیس کی این او سی کے بغیر کوئی بچت بازار نہیں لگایا جائے۔ کمشنر کراچی حسن نقوی نے اجلاس کے شرکاء کو دی گئی بریفنگ میں بتایا کہ شہر میں 145 بچت بازار لگائے جاتے ہیں جبکہ غیر قانونی بچت بازاروں کی این او سی دینے میں ٹاؤن کا عملہ ملوث ہوتا ہے۔ بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ کراچی میں اس وقت 400 چارجڈ پارکنگ ہیں، جن سے ٹریفک مسائل ہو رہے ہیں۔
چیف سیکریٹری سندھ نے کہا کہ شہر میں قائم تمام قانونی اور غیر قانونی بچت بازاروں کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سیکریٹری بلدیات، بلدیاتی ادارے اور کنٹونمنٹ بورڈز 3 روز میں تفصیلات دیں جبکہ بچت بازاروں کی این او سی کو ریگولرائز کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بچت بازاروں کے اطراف ٹریفک جام رہتا ہے، روڈ پر قائم تمام غیر قانونی پارکنگ کو ہٹایا جائے اور شہر میں بے قاعدہ بنے یو ٹرنز ختم کرکے ٹریفک انجینئرنگ سے یوٹرن بنائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ بڑے شاہراہوں کے سروس روڈ سے انکروچمنٹ ہٹا کر مکمل بحال کیا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: چارجڈ پارکنگ بچت بازاروں نے کہا کہ انہوں نے
پڑھیں:
’’ ادھر بھی توجہ دیں‘‘
بارسلونا سے میڈرڈ ریل کے سفر کے دوران مناظر کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک موبائل کی گھنٹی بجی۔ دوسری جانب ایک پاکستانی صحافی دوست تھا۔ حال احوال کے بعد اس نے بتایا کہ اس کا ایک قریبی رشتہ دار پرتگال میں مقیم ہے، جس نے ڈیڑھ سال قبل آرٹیکل 88 کے تحت عارضی رہائشی اجازت نامے کے لیے درخواست جمع کروائی تھی۔
اب اس کے بائیومیٹرکس ہونے ہیں، جس کے بعد اسے پرتگال کا عارضی رہائشی کارڈ مل جائے گا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس کا پاسپورٹ کی معیاد ختم ہوچکی ہے اور جیسا کہ ہمارا سرکاری کلچر ہے، اس کے اثرات لزبن میں ہمارے سفارتی عملے پر نظر آتے ہیں، شایداسی لیے ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود وہ بیچارہ پاسپورٹ کے لیے درخواست تک جمع نہیں کرا سکا۔
پڑھنے والوں کی معلومات کے لیے بتاتا چلوں کہ پرتگال میں اس آرٹیکل کے تحت یہ قانون موجود تھا کہ اگر کوئی شخص وزٹ ویزے پر یا غیر قانونی طریقے سے پرتگال پہنچ جائے، تو نوکری کا ثبوت اور ٹیکسز کی ادائیگی کے ذریعے قانونی رہائش حاصل کر سکتا تھا۔
پانچ سال مکمل ہونے پر مستقل ریذیڈنسی اور پاسپورٹ کا حصول بھی ممکن تھا۔ میڈرڈ پہنچ کر جب میں نے متعلقہ شخص سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ وہ گزشتہ ایک ہفتے سے ایمبیسی جارہا ہے لیکن ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی اعتراض لگ جاتا ہے، یوں نامراد ہی واپس آنا پڑتا ہے۔
میں نے پاکستان ایمبیسی پرتگال کی ویب سائٹ دیکھی تو حیرت ہوئی کہ ہر عہدے کے آگے ایک ہی فون نمبر درج تھا۔ پریس اتاشی تعینات کرنا شاید ضروری ہی نہیں سمجھا گیا باقی آپ خود سمجھدار ہیں ، بہرحال پھر جگاڑ کی تلاش شروع کی ۔
بالآخر ایک بااثر پاکستانی کے ذریعے رابطہ ہوا اور چند دنوں میں اس بیچارے کا پاسپورٹ نہ صرف اپلائی ہوگیا بلکہ حاصل بھی کر لیا گیا۔ مگر اس دوران مجھے جو معلومات ملیں اور تجربات حاصل ہوئے، وہ انتہائی حیران کن ہیں۔ یہ سوچ کر افسوس ہوا کہ آخر ہماری حکومت کی نظر اس جانب اب تک کیوں نہیں گئی۔
دوستوں اور درجنوں متاثرین کے مطابق، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے یورپ میں قانونی کاغذات بنوانا اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ کئی پاکستانی دس دس سال سے اس انتظار میں ہوتے ہیں۔ وزٹ ویزے پر آنے والے بھی پرتگال اور اسپین پہنچ کر رجسٹریشن کرواتے اور قانونی حیثیت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی لوگ اصل میں ’’ٹارگٹ‘‘ بنتے ہیں۔
پرتگال نے جون 2024 میں آرٹیکل 88 ختم کر دیا، مگر اس عرصے میں تقریباً دس ہزار پاکستانی رہائشی پرمٹ حاصل کر چکے ہیں، جب کہ ہزاروں ابھی لائن میں ہیں۔ مگر ان بے بس پاکستانیوں کو جس اذیت اور ذہنی دباؤ سے گزرنا پڑتا ہے، اس کا اندازہ شاید کسی کو نہیں۔
پاسپورٹ بنوانے والا اگر پرانا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ ساتھ لائے تو اس سے سوالات کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔اگر کسی شخص کا پاسپورٹ گم ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ پہلے ہم ویریفائی کریں گے کہ آپ یورپ کیسے پہنچے۔ حقیقت یہ ہے کہ قانونی طور پر ویریفائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اگر کوئی غیر قانونی طور پر پہنچا ہے، تو بھی قانون کے مطابق پاسپورٹ جاری کرنے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ حتیٰ کہ وزٹ ویزے پر آنے والوں سے بھی یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ویزہ کیسے لگوایا۔
سسٹم نہیں آرہا ، لنک ڈاؤن ہے۔ دوبارہ آئیں، عام باتیں ہیں، ادھر اگر کوئی پاکستانی لزبن کے علاوہ کسی دوسرے شہر جیسے پورتو یا فارو سے پاسپورٹ بنوانے آئے تو اسے رات گزارنی پڑتی ہے، تین وقت کھانا کھانا اور نوکری سے غیر حاضری بھی ہوتی ہے۔
پاسپورٹ بننے کے بعد اسے وصول کرنا بھی آسان نہیں۔ ضروری ہے کہ تمام درخواست دہندگان کو شفاف اور قانونی طریقہ کار کے مطابق خدمات فراہم کی جائیں، بلکہ کوشش ہونی چاہیے کہ ان کا کام جلد ازجلد کردیا جائے۔
پرتگال کے علاوہ اسپین میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔ میڈرڈ اور بارسلونا میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانی مقیم ہیں۔ا سپین میں قانونی یا غیر قانونی مقیم پاکستانی کچھ شرائط کے ساتھ یہاں کے ڈاکومنٹ حاصل کر سکتے ہیں۔
یہی مجبوری سفارتخانوں کے بار بار چکر لگانے پر مجبور کرتی ہے۔اگر ان کا کام جلد ہوجائے تو ان کے مصائب میں کمی ہوسکتی ہے کیونکہ انھیں قانونی کاغذات مل جائیں گے۔
اگر وزیر داخلہ صرف پرتگال میں امیگریشن اینڈ پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کو زیادہ متحرک کردیں تو بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کو بہت فائدہ ہوگا۔یہاں مقیم پاکستانی تو کہتے ہیں کہ اگر کسی پاکستانی نے سہولت کے ساتھ پاسپورٹ بنوالیا ہے تو سمجھ لیں اس کے ساتھ والدین کی دعائیں ہیں۔
بیرون ملک مقیم پاکستانی محسن نقوی سے بڑی امیدیں رکھتے ہیں کیونکہ وہ واقعی سسٹم کو درست کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔پاسپورٹ کے لیے آنے والے درخواست دہندگان سے فیڈ بیک لیا جائے کہ انھیں کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
پاسپورٹ جو واک اِن بنوانا چاہتا ہے، اسے کے لیے طریقہ کار آسان بنایا جائے۔ نیا پاسپورٹ درخواست دہندہ کو کورئیر کمپنیوں کے ذریعے شفاف اور محفوظ طریقے سے پہنچایا جائے، تاکہ لوگوں کو سفارت خانوں کے چکر لگانے کی کوفت نہ ہو ۔ایمبیسی میں اپائنٹمنٹ سسٹم نافذ کیا جائے تاکہ ہاتھ سے لکھے ٹوکن سے نجات مل سکے۔
وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو چاہیے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو آسانیاں فراہم کرنے کے لیے سفارت خانوں پر خصوصی توجہ دیں ، سفارت خانوں کی ویب سائٹس کو مزید بہتر بنایا جائے اور ایمرجنسی رابطہ نمبر سب سے نمایاں ہو۔
جہاں پریس اتاشی موجود نہیں، وہاں فوری تعیناتی کی جائے۔ خدمات کے معیار کومزید بہتر بنایا جائے۔ جو لوگ برسوں سے بیرون ملک اہم عہدوں پر بیٹھے ہیں، انھیں واپس بلا کر سفارشی کلچر کا خاتمہ کیا جائے۔
یہ وہ مسائل ہیں جو بیرون ملک ہر پاکستانی کی زبان پر ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ حکومت ان کی آواز سنے اور اصلاحِ احوال کے عملی اقدامات کرے۔